امریکا نے شامی صدر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-08-28
واشنگٹن /جینوا( مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کے صدر اور وزیر داخلہ پر عاید پابندیاں اٹھا لیں۔عالمی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ نے جمعہ کے روز دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے منسلک شامی صدر کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شامی صدر الشراع اور وزیر داخلہ انس خطاب کو عاید پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ شام پر ہونے والے اجلاس میں پاکستان نے امریکا کی پیش کردہ قرارداد کی حمایت کی، پاکستان کی حمایت کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کے صدر احمد الشراع اور وزیر داخلہ انس خطاب کا نام داعش اور القاعدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کے لیے ایک مسودہ قرارداد منظور کر لیا، قرارداد کے حق میں 14 جبکہ مخالفت میں کسی نے ووٹ نہیں دیا، چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اقوام متحدہ میں امریکا کے سفیر مائیک والٹز نے قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس متن کی منظوری سے کونسل ایک مضبوط سیاسی اشارہ دے رہی ہے جو تسلیم کرتی ہے کہ شام ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے، شامی صدر اور وزیر داخلہ سے پابندیاں ہٹائے جانے سے شامی عوام کو سب سے بڑا موقع فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے بھی اس قرارداد کا خیرمقدم کیا اور بے پناہ مواقع کے ساتھ ساتھ چیلنجز کو لیے شام کے آگے بڑھنے کے سفر پر قدم کے طور پر اس کی منظوری کو سراہا۔واضح رہے کہ یہ اقدام اْس ملاقات سے پہلے کیا گیا ہے جو شامی صدر الشراع اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین آئندہ ہفتے طے ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور وزیر داخلہ اقوام متحدہ کی فہرست سے
پڑھیں:
دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے میں ناکام ، اقوام متحدہ
نیویارک (ویب ڈیسک) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا اپنے اہم ماحولیاتی ہدف یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے اور امکان ہے کہ آئندہ دہائی میں یہ حد عبور ہو جائے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی سالانہ ’ایمی شنز گیپ رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ ممالک کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سست اقدامات کے باعث اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا 2015 کے پیرس معاہدے کے بنیادی ہدف سے تجاوز کر جائے گی۔
یو این ای پی نے کہا کہ ’اس رجحان کو پلٹنا مشکل ہوگا، جس کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیز تر اور بڑے پیمانے پر اضافی کمی درکار ہوگی تاکہ حد سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم کیا جا سکے۔‘
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ این اولہوف نے کہا کہ اگر اب اخراج میں نمایاں کمی کی جائے تو درجہ حرارت کے حد سے تجاوز کرنے کا وقت مؤخر کیا جا سکتا ہے، لیکن اب ہم اس سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے۔
2015 کے پیرس معاہدے میں ممالک نے عہد کیا تھا کہ صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھا جائے اور ہدف 1.5 ڈگری سیلسیس کا رکھا جائے، تاہم یو این ای پی نے کہا کہ حکومتوں کے تازہ ترین وعدوں کے مطابق اگر ان پر عمل کیا جائے تو دنیا کو 2.3 سے 2.5 ڈگری سیلسیس تک حرارت میں اضافہ برداشت کرنا پڑے گا۔
یہ اقوام متحدہ کی گزشتہ سال کی پیشگوئی کے مقابلے میں تقریباً 0.3 ڈگری کم ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس سال ممالک بشمول سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ملک چین کی جانب سے کیے گئے نئے وعدے اس فرق کو کم کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
چین نے ستمبر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2035 تک اپنے اخراج کو عروج کے مقابلے میں 7 سے 10 فیصد تک کم کرے گا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عموماً محتاط اہداف طے کرتا ہے مگر اکثر انہیں عبور کر لیتا ہے۔
یہ نتائج اقوام متحدہ کے کوپ 30 ماحولیاتی اجلاس پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، جو اس ماہ منعقد ہو رہا ہے، جہاں ممالک یہ بحث کریں گے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے تیز تر اور مالی اقدامات کیسے کیے جائیں۔
پیرس معاہدے کے درجہ حرارت سے متعلق اہداف سائنسی جائزوں پر مبنی تھے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی حرارت کے ہر اضافی درجے سے ہیٹ ویوز، خشک سالی اور جنگلات میں آگ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
مثلاً، 2 ڈگری حرارت میں اضافہ ہونے سے انتہائی گرمی کا سامنا کرنے والی آبادی کا تناسب 1.5 ڈگری کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ ہو جائے گا، 1.5 ڈگری کا اضافہ کم از کم 70 فیصد مرجان کی چٹانوں (کورل ریفس) کو تباہ کر دے گا، جبکہ 2 ڈگری پر یہ شرح 99 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
دنیا نے کچھ پیش رفت ضرور کی ہے، ایک دہائی پہلے جب پیرس معاہدہ ہوا تھا تو زمین تقریباً 4 ڈگری درجہ حرارت کے اضافے کی راہ پر تھی، لیکن حرارت کا سبب والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ جاری ہے کیونکہ ممالک اپنی معیشتوں کو چلانے کے لیے کوئلہ، تیل اور گیس جلا رہے ہیں۔
یو این ای پی کے مطابق 2024 میں عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا، جو 57.7 گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی ہے۔