سینٹ سے منظوری کے بعد 27ویں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش: اپوزیشن کا احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
اسلام آباد (وقار عباسی / وقائع نگار+آئی این پی)حکومت نے27ویںآئینی ترمیم کا بل سینٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ وزیر قانون نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل 2025 پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں ترامیم اتفاق رائے سے کی جاتی ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ 26ویں ترمیم کے موقع پر فضل الرحمن کے کہنے پر آئینی بنچ پر اتفاق کیا گیا۔ 26ویں ترمیم میں آئینی عدالت کے بجائے بینچز پر اتفاق کیا پھر ترمیم منظور ہوئی۔ ہمیشہ آئین میں ترمیم اکثریت کی حمایت سے کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا زیادہ وقت آئینی مقدمات میں صرف ہوتا تھا۔ آئینی عدالت کے قیام سے دیگر مقدمات جلد نمٹائے جا سکیں گے۔ آئینی عدالت میں تمام صوبوں اور وفاق کو نمائندگی دی گئی۔ عدالت کے ازخود نوٹس کے اختیار پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے۔ خواہش تھی کہ اپوزیشن بھی اس اہم معاملے میں اپنی رائے دیتی۔ اپوزیشن نے اس اہم معاملے کو اہمیت ہی نہیں دی۔ وزیر قانون نے کہا کہ معرکہ حق میں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ معرکہ حق میں پاکستان کی فتح کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ قوم کے بہادر سپوت کو مشاورت کے بعد فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ضروری سمجھا گیا کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو قانونی دائرہ کار میں لایا جائے۔ چیف آف دی آرمی سٹاف کی تعیناتی آرمی ایکٹ کے تحت وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جبکہ فیلڈ مارشل ایک فائیو سٹار عہدہ ہے جو اور بھی بہت سے ممالک میں ہے جن میں دولت مشترکہ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل کا اعزاز تاحیات رہتا ہے۔ اس اعتراف کو آئینی ترمیم میں طے کردیا گیا ہے۔ آرٹیکل 243 میں تجویز تھی کہ اگر قومی ہیروز کو فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئرفورس یا مارشل آف دی فلیٹ کا اعزاز دیا جاتا ہے تو کسی فرد واحد کو یہ اعزاز واپس لینے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اگر جائز بنیاد پر یہ اعزازت واپس لینے ہیں تو اس کا اختیار پارلیمان کو دیا گیا ہے کہ وہ مشترکہ اجلاس میں بحث مباحثے کے بعد ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کرے گی۔ صدر کے لیے استثنیٰ کے آرٹیکل 248 کے حوالے سے کمیٹی کی سطح پر تجویز آئی ہے کہ اگر صدر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ عوامی عہدے پر براجمان ہوتے ہیں تو استثنیٰ ختم ہوجائے گا۔ مشترکہ کمیٹی میں نہ آنے کا فیصلہ اپوزیشن کا تھا۔ میں اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ قائد حزب اختلاف بیرسٹر گوہر نے آئینی ترامیم میں صدر کو حاصل استثنیٰ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کیا زرداری عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بے گناہ ہوں؟۔ انہوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جمہوریت برائے نام رہ جائے گی۔ 26ویں آئینی ترمیم کا ایجنڈا طاقت کے بل بوتے پر دوبارہ لایا گیا۔ ایسے دستور کو صبح بے نور کو ہم نہیں مانتے، ہم اس ترمیم کو نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے جو ترمیم آئے گی اس سے عدلیہ مضبوط ہوگی۔ آئین مقدس ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری سے بے ایمانی کی گئی۔ پی ڈی ایم نے پہلے اپنے کیسز ختم کردیے، اب یہ اپنے آپ کو تاحیات استثنیٰ دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا کے کس صدر کے پاس استثنیٰ ہوتا ہے؟۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ، سرکوزی اور دیگر لوگوں کے پاس استثنیٰ ہے؟۔ ہم اس ترمیم کو باکو ترمیم کہتے ہیں۔ شازیہ مری نے اپوزیشن کو آئینی اور جمہوری روایات سے نابلد قرار دے دیا۔جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کو ہدایت کی تھی وہ 27ویں ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیں۔ ایوان میں جے یو آئی کی رہنما شاہدہ رحمانی، وفاقی وزیر مصطفی کمال سمیت دیگر ارکان اسمبلی نے بھی اظہار خیال کیا۔ ایوان میں سینیٹر عرفان صدیقی کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی فیلڈ مارشل ترمیم کا کی جاتی کے بعد
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم: قومی اسمبلی کا اجلاس شروع، منظوری آج متوقع
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا ہے جس کے 11 نکاتی ایجنڈے میں سب سے اہم نکتہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری ہے۔
یاد رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری سینیٹ سے پیر کے روز ہوچکی تھی، جس کے بعد منگل کو یہ ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔ تاہم منظوری کا عمل آج مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ 224 ارکان کے بجائے 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اس لیے ترمیم کی منظوری تقریباً یقینی قرار دی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے 27ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات کونسے ہیں؟
گزشتہ روز وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم ایوان میں پیش کی تھی، جس کے بعد مختلف پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان، وزراء اور اراکین نے اس پر اظہارِ خیال کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر اظہارِ خیال نہیں کیا، تاہم توقع ہے کہ وہ آج کے اجلاس میں خطاب کریں گے۔
شق وار منظوری کا عملآئینی ترمیم کی منظوری شق وار طریقے سے ہوگی۔ مجوزہ 59 شقوں کی ایک ایک کرکے منظوری لی جائے گی، جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایوان میں حمایت اور مخالفت کرنے والے اراکین کو الگ لابیوں میں جانے کی ہدایت دیں گے۔
گھنٹیاں بجا کر اسمبلی ہال کے دروازے بند کر دیے جائیں گے، اور اراکین اپنی اپنی لابیوں میں دستخط کریں گے۔ بعد ازاں اسپیکر اعلان کریں گے کہ کتنے اراکین نے ترمیم کی حمایت اور کتنے نے مخالفت کی۔
ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ 235 ووٹوں سے آئینی ترمیم منظور کرلی جائے گی جبکہ 9 ارکان مخالفت میں ووٹ دیں گے۔
اپوزیشن کی مخالفت اور احتجاج کا امکانمتحدہ اپوزیشن نے 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے ارکان کو مخالفت میں ووٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔
اگرچہ مولانا فضل الرحمان بیرونِ ملک موجود ہیں، تاہم ان کی جماعت کے ارکان اجلاس میں ترمیم کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔
یہ بھی پڑھیے 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے نعرے بازی اور احتجاج کا امکان ہے۔ جیسا کہ سینیٹ میں ہوا، پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے ترمیمی مسودے کی کاپیاں پھاڑنے اور ایوان کے اندر و باہر احتجاج کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اجلاس کا ایجنڈاقومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس، اسلام آباد میں شروع ہوا۔
ایجنڈے کے مطابق ارکان اسمبلی ڈاکٹر شرمیلا فاروقی، رمیش لال اور خورشید احمد جونیجو سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات اور سائبر سیکیورٹی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کریں گے۔
وفاقی وزیرِ تعلیم و تربیت خالد محمود صدیقی دانش اسکول کے قیام اور کنگ حماد یونیورسٹی کے قیام سے متعلق بل پیش کریں گے۔
جبکہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری صدرِ مملکت کے پارلیمنٹ سے حالیہ خطاب پر تحریکِ تشکر پیش کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں