آسٹریلیاکے دورہ پاکستان میں ردوبدل کی اطلاعات
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)آسٹریلوی ٹیم کے آئندہ برس کے دورہ پاکستان کے حوالے سے شیڈول میں ردوبدل کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق مارچ 2026 میں طے شدہ تین ون ڈے سیریز اب اپنے مقررہ وقت پر ہونے کا امکان کم دکھائی دیتا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ اور کرکٹ آسٹریلیا کے درمیان شیڈول کی نئی تاریخوں کے لیے بات چیت جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی شیڈول کے تحت یہ ون ڈے سیریز 13 سے 19 مارچ کے درمیان ہونا تھی تاہم اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ تینوں میچ پاکستان سپر لیگ سیزن 11 کے اختتام کے بعد منعقد کیے جائیں۔
دونوں بورڈز شیڈول کی وجہ سے پیدا ہونے والی مصروفیات کے تناظر میں نئی تاریخیں طے کرنے پر مشاورت کر رہے ہیں۔
دوسری جانب آسٹریلیا کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلیے پاکستان آمد کی تصدیق ہو چکی ہے، بھارت اور سری لنکا میں شیڈول ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026سے قبل پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز 30 جنوری سے 5 فروری تک شیڈول ہیں۔
یہ سیریز ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے دونوں ٹیموں کے لیے انتہائی اہم قرار دی جا رہی ہے۔
کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹوڈ گرین برگ نے کچھ عرصہ قبل ایک آن لائن پریس کانفرنس میں پاکستان کے مجوزہ دورے پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ دورہ آسٹریلیا کے کرکٹ کیلنڈر کا اہم حصہ اور دونوں بورڈز کے درمیان ریڈ بال اور وائٹ بال کرکٹ کے حوالے سے بہترین رابطہ موجود ہے۔
گرین برگ کے مطابق دونوں ممالک کو مستقبل میں مزید باہمی سیریز کے مواقع تلاش کرنے چاہیے تاکہ دونوں ٹیموں کو کھیلنے کے بہتر مواقع میسر آسکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آسٹریلیا نے 2022 میں طویل وقفے کے بعد پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران آسٹریلوی ٹیم کو شاندار انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔
ان کے مطابق اگر اسی طرح کی سیریز مستقبل میں بھی جاری رہیں تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات اور کرکٹ کے فروغ کے لیے نہایت سودمند ہوں گی۔
پاکستان کی ٹیم نے آخری مرتبہ نومبر 2024 میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا، محمدرضوان کی قیادت میں قومی ٹیم نے ون ڈے سیریز میں 1-2 سے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔
یہ آسٹریلیا میں 2002 کے بعد پاکستان کی پہلی ون ڈے سیریز فتح تھی جس نے قومی ٹیم کا مورال بلند کیا تاہم ٹی ٹوئنٹی سیریز میں آسٹریلیا نے بھرپور کم بیک کرتے ہوئے تینوں میچ جیت کر سیریز 0-3 سے اپنے نام کی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا سٹریلیا کے ون ڈے سیریز کے درمیان ٹی ٹوئنٹی کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
اسلام میں برداشت کا تصور؛ پاکستان، افغانستان اور سوڈان کے حالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-7
دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے 16 نومبر 1995 سے ’’عالمی یوم برداشت‘‘ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اصل میں جس کا مقصد ملکوں کے درمیان ثقافتی رواداری اور برداشت ہے، لیکن آج کل جو دنیا میں ہورہا ہے وہ یہ کہ اب بات ثقافت سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، اب تو ملکوں کو آپس میں ایک دوسرے کا وجود ہی برداشت نہیں ہورہا اور اگر ان کا بس چلے تو ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ رواں سال کے پانچویں مہینے میں پاکستان نے ایک مکروہ پڑوسی کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر اس کے دانت کھٹے کردیے۔ آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت برداشت کی ہے۔ قرآن مجید نے رحمت اللعالمین سیدنا محمدؐ کے بارے فرمایا: ترجمہ؛ ’’یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ تم ان کے لیے نرم دل ہو گئے، اور اگر تم سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو وہ تمہارے گرد سے بکھر جاتے‘‘۔ (آل عمران: 159) یہ آیت بتاتی ہے کہ قیادت اور قوموں کے درمیان تعلق نرمی، برداشت، اور مکالمے سے مضبوط ہوتے ہیں، نہ کہ سختی اور الزام تراشی سے۔
اب آتے ہیں پاکستان اور افغانستان کی جانب۔ آج جب ہم پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دیکھتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو یہی سبق اپنانا چاہیے۔ الزام تراشی اور غصہ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بات چیت، صبر اور تحمل ہی امن کی کنجی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ: ’’اصل طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو گرا دے، بلکہ وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر دونوں ممالک برداشت اور نرمی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دشمنی دوستی میں، اور نفرت امن میں بدل سکتی ہے۔ اسی کا نام ہے اسلامی برداشت ہے جو انسانوں کو قریب لاتی ہے، اور ملکوں کو مضبوط بناتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے ماضی میں طے پائے ایک عبوری جھڑپ ختم کرنے والے معاہدے کے بعد، حالیہ مہینوں میں سرحد پر شدید جھڑپیں کی ہیں، جن میں فوجی اور عام شہری دونوں ہلاک ہوئے۔ 19 اکتوبر 2025 کو دوحا میں ثالثی کے تحت ایک عارضی ہنگامی معاہدہ ہوا جس میں فائر بندی کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم، مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں، جیسے کہ ترکیے (استنبول) میں ثالثی کے ساتھ بات چیت ہورہی تھی۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ امن کا دارومدار اس بات پر ہے کہ افغانستان کی حکومت ملٹری اور عسکری کارروائیوں کو اپنے کنٹرول میں لائے، خصوصاً وہ گروہ جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ دوسری جانب، افغانستان نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے تجاوز کرتی ہے اور وہ خود اپنی سرزمین محفوظ نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے۔ حالیہ مذاکرات ناکام قرار پائے ہیں پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ بات چیت ’’ڈیڈ لاک‘‘ میں ہے، ابھی تک کوئی ٹھوس حل نہیں نکلا۔ استنبول (ترکیے) میں کابل اسلام آباد کے درمیان ثالثی مذاکرات ہوئے تھے، جن کا مقصد سرحدی جھڑپوں کو کم کرنا تھا۔ مگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہونے کے باوجود، دونوں جانب سے ایک جنگ بندی کا معاہدہ پہلے طے پا چکا تھا، اور وہ ’’فی الحال‘‘ برقرار ہے۔
مجموعی طور پر، سرحدی خطے کی صورت حال بحرانی مگر قابو میں ہے: جنگ بندی برقرار ہے، بڑی جنگ جاری نہیں، مگر مذاکرات کا عمل رک گیا ہے اور کشیدگی کا امکان بدستور موجود ہے۔ 10 نومبر کو دوبارہ فتنہ الخوارج نے آرمی پبلک اسکول والا ہولناک کھیل کھیلنا چاہا جو کہ اللہ کی رضا سے آرمی نے ناکام بنادیا اور اپنے پڑوسیوں کو بتایا کہ دوبارہ کبھی یہ غلطی بھول کر بھی نہیں کرنا۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’دشمن کے ساتھ بھی عدل کرو‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 8) اگر پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی بات تحمل اور نرمی سے سنیں، تو غلط فہمیاں کم ہوں گی۔ برداشت کا مطلب کمزوری نہیں بلکہ حکمت اور وقار کے ساتھ بات کرنا ہے۔
اب چلتے ہی افریقا کے رقبے کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک سوڈان جہاں پر 2023ء سے جاری تصادم کے دوران ملک کی فوجی قیادت Sudanese Armed Forces اور پیراملٹری گروپ Rapid Support Forces کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس جنگ نے ہنگامی انسانی بحران کھڑا کیا ہے: تقریباً 30 ملین لوگ امداد کے محتاج ہیں، جن میں کروڑوں بچے شامل ہیں۔ قحط، خوراک کی کمی، وبائیں سب ملک کے مختلف علاقوں میں شدید حالات ہوچکے ہیں۔ 2021 میں فوج نے سول حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، دونوں جنرل (البرہان اور حمیدتی) شروع میں ایک ساتھ تھے۔ بعد میں اختلاف اس بات پر ہوا کہ ملک کا کنٹرول کس کے پاس ہوگا یعنی اقتدار کی کرسی۔
سونے کی کانوں کا کنٹرول: سوڈان افریقا کے سب سے بڑے سونا پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ آر ایس ایف (حمیدتی گروپ) کے پاس زیادہ تر سونے کی کانیں اور ان سے حاصل ہونے والا پیسہ ہے۔ فوج (ایس اے ایف) چاہتی ہے کہ یہ دولت ریاست کے کنٹرول میں آئے، نہ کہ کسی ملیشیا کے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پیچھے سونا، معیشت اور طاقت تینوں چیزیں چھپی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو یہ سارا خون خرابہ عدمِ برداشت کا نتیجہ ہے دونوں فریق اقتدار اور دولت کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ اسلام اور انسانی اخلاقیات ہمیں سکھاتے ہیں کہ: ’’امن اور انصاف صرف تب قائم ہوتا ہے جب طاقتور برداشت اور انصاف سے کام لے‘‘۔ اگر دونوں گروہ برداشت، مکالمہ اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں، تو نہ صرف سونا محفوظ رہے گا بلکہ انسانی جانیں بھی بچیں گی۔
سوڈان کی جنگ اور برداشت کا سبق: آج دنیا کے کئی ممالک میں طاقت، دولت اور سیاست کی خاطر خون بہایا جا رہا ہے۔ ظاہری طور پر یہ جنگ اقتدار کی ہے، مگر اس کے پیچھے سونے کی کانوں، دولت کے ذرائع، اور ملک کے کنٹرول کی لڑائی ہے۔ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ وہی طاقتور رہیں، لیکن اس کی قیمت لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں سے ادا کی جا رہی ہے۔ بچے بھوکے ہیں، لوگ ہجرت پر مجبور ہیں، اور پورا ملک قحط اور بیماری کا شکار ہے۔ ایسے میں اسلام اور انسانیت ہمیں ایک ہی راستہ دکھاتے ہیں۔ برداشت کا راستہ۔ قرآن کہتا ہے: ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ‘‘۔ (انفال: 61) اور نبیؐ نے فرمایا: ’’طاقتور وہ نہیں جو لڑائی میں دوسرے کو گرا دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘۔ اگر سوڈان کے یہ دونوں گروہ برداشت، صبر، اور مکالمے کا راستہ اختیار کریں تو جنگ ختم ہو سکتی ہے، اور وہی دولت اور سونا جو آج تباہی لا رہا ہے، کل خوشحالی لا سکتا ہے۔ سوڈان ہمیں ایک سبق دیتا ہے کہ جب طاقت برداشت کے بغیر ہو، تو امن تباہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب برداشت طاقت کے ساتھ ہو، تو قومیں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔ ’’سوڈان کی جنگ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن کی کنجی بندوق نہیں، بلکہ برداشت ہے‘‘۔