Express News:
2025-11-27@22:12:39 GMT

ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

پنجاب اور خیبر پختونحوا میں حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی سیاسی فتح کا جشن اپنی جگہ مگر انتخابات سے پہلے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی سیاسی جیت یقینی ہے یا یہ جیت واضح طور پر دیوار پر لکھی جا چکی ہے۔

کیونکہ مسلم لیگ ن کے مدمقابل کوئی اورجماعت نہیں بلکہ خود ان کا مقابلہ اپنے آپ ہی سے تھا ،ایک کھلا میدان مسلم لیگ ن کو ملا جہاں ان کے مقابلے میں ان کے سیاسی حریف نہیں تھے، محض دو نشستوں پر لاہور اور ہری پور میں ان کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا کیونکہ پی ٹی آئی نے باقی تمام نشستوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور یوں مسلم لیگ ن کو سیاسی واک اور مل گیا تھا جو ان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے کافی تھا۔یہ الگ بات ہے ہری پور کی اہم نشست بھی پی ٹی آئی ہار گئی یا اس کے بقول اسے ہرا دیا گیا اور وہاں پی ٹی آئی کی شکست نے اسے سیاسی دھچکا بھی دیا ۔لیکن پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر ان ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ سے کیا فائدہ ہوا، اس کا ان کو ضرور تجزیہ کرنا چاہیے۔

کیونکہ ماضی میں بھی جو بھی جماعتیں اوپر سے لے کر نیچے تک کے انتخابات کا بائیکاٹ کرتی رہی ہیں، اس کا ان جماعتوں کو سیاسی نقصان کے سوا کچھ نہیں ملا۔یقیناً پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار نہیں تھے اور نہ ان کو سیاسی راستہ دیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود انتخابات کا میدان کھلا چھوڑنا پارٹی کی سیاست کو نقصان ہی پہنچاتا ہے ۔اس لیے مستقبل کی سیاست میں عملی طور پر پی ٹی آئی کو انتخابی بائیکاٹ یا مخالفین کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔کیونکہ حالات کتنے بھی برے کیوں نہ ہوں میدان الیکشن کو کھلا چھوڑنا درست حکمت عملی نہیں کہی جا سکتی۔

لیکن ایک اہم بات یہ دیکھنے کو ملی مسلم لیگ ن کو کھلا یا خالی میدان ملنے کے باوجود ووٹر ٹرن آوٹ بہت ہی مایوس کن رہا۔اگرچہ عمومی طور پر ضمنی انتخابات میں عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹر ٹرن آوٹ کم ہی ہوتا ہے مگر اس بار اس حد تک مایوس کن ٹرن آوٹ نے ان ضمنی انتخابات کے رنگ یا اس کی ساکھ کو پھیکا کیا ہے۔ لاہور کے انتخابات کا ٹرن آوٹ تو بہت ہی کم تھا مگر پھر ایک جادوئی عمل سے ٹرن آوٹ کی سطح پر اچانک اضافے نے انتخابی ساکھ کو بھی چیلنج کیا۔

مسلم لیگ ن جس کے مقابلے میں نہ تو کوئی مخالف بڑی جماعت تھی اور نہ ہی آزاد بنیاد پر کوئی مضبوط امیدوار لیکن اس کے باوجود اس کا حد سے بڑھتا ہوا انتظامیہ،پولیس اور الیکشن عملہ پر انحصار یا ان کی مداخلت کے کھیل نے بھی الیکشن کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ شفافیت کے ساتھ انتخابات کا نہ ہونا الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات کو کھڑا کرتا ہے ۔ووٹر ٹرن آوٹ کی چار وجوہات ہوسکتی ہیں۔اول، لوگوں کو لگتا ہے کہ انتخابات کی شفافیت محض ایک نعرہ ہے ۔

کیونکہ انتخابات سے پہلے ہی یہ طے ہوجاتا ہے کہ جیت کس کی ہوگی اور کسے ہارنا ہے۔ جو ووٹروں کو موجودہ انتخابی نظام سے مایوس یا لاتعلق کرتا ہے ۔دوئم، ووٹروں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور طاقت کے دائرہ کار تک محدود یا طاقت ور لوگوں کی جنگ میں عام آدمی کا ہمیں کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔یہ اگر سوچ اور فکر درست ہے تو پھر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی اہمیت کم ہورہی ہے اور وہ عوامی سطح پر اپنے مقدمہ کو ہار رہی ہیں ۔سوئم، کیونکہ ان ضمنی انتخابات میں حکومت کے سیاسی مخالفین حصہ نہیں لے رہے تھے تو پھر ووٹروں کی طرف سے بھی ہمیں مقابلہ بازی یا انتخابی مہم دیکھنے کو نہیں ملی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں بشمول حکومتی جماعت نے کوئی باقاعدہ بڑی انتخابی مہم چلائی اور ان کو لگتا تھا کہ سیاسی میدان ہم نے ہی جیتنا ہے اس لیے پرجوشیت کیوں دکھائی جائے۔

چہارم، لوگوں یا سیاسی کارکنوں میں یہ احساس بھی دیکھنے کو ملا کہ سیاسی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ پہلے سے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کے بیٹوں،بیٹیوں، بیوی ،بھائی یا دیگر رشتہ داروں میں بانٹ دیے اور ان کو کوئی پارٹی کا سرگرم کارکن نہیں ملا جسے وہ پارٹی ٹکٹ دیتے۔ خاندانی بنیاد پر سیاست ،جمہوریت اور انتخابات کے کھیل نے خود پارٹی کی سطح پر بہت سے لوگوں میں مایوسی پیدا کی ہے اور ان کولگتا ہے کہ ان کی حیثیت محض نعرے لگانے یا ووٹ ڈالنے تک یا لیڈروں کی خوشامد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔پنجاب کے ان ضمنی انتخابات میں ایک طرف محض ایک سیٹ کے سوا پی ٹی آئی کا بائیکاٹ تھا مگر دوسری جماعتوں کا بھی کوئی کردار دیکھنے کو ہی نہیں مل سکا۔پیپلز پارٹی نے جو ایک واحد نشست جیتی وہ بھی حکمران اتحاد کے تعاون سے۔ پی ٹی آئی کی غیر موجودگی کے باوجود پی پی پی کوئی موثر سیاسی حکمت اختیار نہیں کرسکی۔

اسی طرح مسلم لیگ ق ، جماعت اسلامی نے بھی عملا ان ضمنی انتخابات میں لاتعلقی یا بائیکاٹ کا رویہ ہی اختیار کیا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ ان دیگر جماعتوں نے بھی مسلم لیگ ن کے لیے کھلا میدان چھوڑا اور اس کا تمام تر فائدہ مسلم لیگ ن نے ہی اٹھایا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن اس جیت کو پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے جوڑتی ہے اور وہ اسے اپنی بڑی کامیابی کے طورپر پیش کرتی ہے۔مگر جب تک پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دیگر جماعتوں کی طرح برابری کی بنیاد پر نہیں ملے گا، اس وقت تک مسلم لیگ ن کی جیت کو یکطرفہ جیت ہی کہا جاسکتا ہے ۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات بھی دفعہ 144کے تحت ہوئے ہیں اور کسی کو بھی جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی جو خود ایک خوف کی علامت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایک طرف سیاسی مخالفین کا نہ ہونا اور دوسری طرف الیکشن کمیشن کا طرزعمل اور کم ٹرن آوٹ کمزور سیاست کے بہت سے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے ۔

جمہوریت کی بنیادی کامیابی بڑی تعداد میں لوگوںکی سیاسی عمل میں شمولیت ،شراکت اور بطور ووٹر یا آزادانہ بنیادوں پر سب کے لیے ایک جیسا سازگار حالات سے جڑا ہونا ہے ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ حکومت یا سیاسی جماعتیں لوگوں کو سیاست سے دوری کی طرف لے جا رہی ہیں ۔کیونکہ حکومت بڑے پیمانے پر لوگوں کی سیاسی نظام میں عملا شرکت کی حامی نہیں اور کم ٹرن آوٹ یا لوگوں کا سیاسی اور جمہوری نظام سمیت انتخابی نظام سے لا تعلق ہونا بھی ان کے لیے کوئی بڑی پریشانی پیدا نہیں کرتا اور وہ اسی میں خوش ہے کہ طاقت کے مرکز کا کھیل اس کے گرد گھومتا ہے ۔

دوسری بنیادی بات سیاسی جماعتیں یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ سیاست اور جمہوریت وہیں لوگوں میں اپنی ساکھ قائم کرتی ہیں جہاں وہ لوگوں کو ان کے مسائل کے حل میں ڈیلیور کرتی ہیں ۔کیونکہ جمہوریت کی کامیابی کا تعلق حکومت اور اپوزیشن یا سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے مگر اس میدان میں تمام سیاسی جماعتوںکا مقدمہ کمزور ہے ۔

آج بھی جو جمہوریت کا عمل یا شہری آزادیوں سمیت بنیادی حقوق کی نفی ہو رہی ہے اس پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی یا سمجھوتے سمیت اس کھیل میں سہولت کاری کے عمل نے ملک میں سیاسی جماعتوں کے مقدمہ کو اور زیادہ کمزور کردیا ہے ۔ڈر یہ ہے کہ جس طریقے سے حکمران اس ملک میں جمہوری نظام یا انتخابات کے سیاسی کھیل کو عدم شفافیت کی بنیاد پر کھیل رہے ہیں یا معاشرے یا نظام حکومت کو مضبوط بنانے کی بجائے ذاتیات یا شخصی طرز کی سیاست کررہے ہیں اس سے لوگ اور زیادہ سیاست اور انتخابات سے لاتعلق ہوں گے ،جو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا مزید سبب بنے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ضمنی انتخابات میں ان ضمنی انتخابات سیاسی جماعتوں انتخابات کے انتخابات کا مسلم لیگ ن کے باوجود دیکھنے کو پی ٹی آئی کی سیاسی بنیاد پر کو سیاسی ٹرن آوٹ اور وہ ہے اور اور ان ہے مگر نے بھی کے لیے

پڑھیں:

ضمنی انتخاب سے پشاور حملے تک

پاکستان کی انتخابی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اول دن سے تادم تحریر ہونے والے تمام عام انتخابات اور ضمنی الیکشن ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں۔ منصفانہ، شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا خواب آج بھی تشنہ تعبیر ہے۔

الیکشن کمیشن جس کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کو یقینی بنائے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع فراہم کرے لیکن افسوس کہ الیکشن کمیشن کا کردار بھی ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔

جیتنے والی جماعتیں اپنی فتح و کامیابی کا جشن مناتی ہیں تو ہارنے والی سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی و بدعنوانی کے الزامات عائد کر کے انتخابی نتائج کو بھی مسترد کر دیتی ہیں۔ انتخابی سروے کرنے والے اداروں کی نتائج کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹس پر بھی مبصرین و تجزیہ نگار سوالات اٹھاتے ہیں۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخابی ماحول سے شاکی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں۔ معروف سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کرنے کے باعث مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے مقابلے کا میدان خالی ہو جاتا ہے اور ان کے لیے جیتنے کے مواقع آسان ہو جاتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال 23 نومبر اتوار کو پنجاب اور کے پی کے میں قومی و صوبائی اسمبلی کی مجموعی طور پر 13 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ پیپلز پارٹی صرف ایک نشست ہی جیت سکی۔ حسب معمول ضمنی الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ بھی کم رہا۔ پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ضمنی الیکشن کو نظام کے لیے ’’ ویک اپ کال‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کی تاریخ کا اس قدرکم ٹرن آؤٹ تشویش ناک اور واضح طور پر جاری سیاسی نظام پر عوام کے عدم اعتماد کی نشان دہی کرتا ہے۔ جب کہ صوبے کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات ریفرنڈم ثابت ہوا، مقبولیت کا بت پاش پاش اورمخالفین کے بیانیے کی شکست ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے کارکردگی پر الیکشن جیتا ہے۔ ماضی کی انتخابی مہم یہ بتاتی ہے کہ ضمنی الیکشن عموماً وہی جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہو اور اس خوش کن فتح کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں ہونے کے باعث انتخابی مشینری کے تمام ریاستی ادارے اس کے اشارہ ابرو پر کام کرتے ہیں۔ اسی لیے ممکنہ دھاندلی کا پلڑا بھی اسی جانب جھک جاتا ہے۔

ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق قید تنہائی میں ہونے کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور آیندہ عام انتخابات بھی اگر شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے منعقد ہوئے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری پوری کرنے میں کامیاب رہا اور پی ٹی آئی کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح یکساں مواقع ملے اور فارم 45 اور 47 کا رولا نہ پڑا تو (ن) لیگ اور پی پی پی کے لیے واضح برتری حاصل کرنا آسان کام نہ ہوگا۔ ان تبصروں اور تجزیوں میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہی ہو سکے گا۔

فی الحال تو مسلم لیگ (ن) نے جو کامیابی سمیٹی ہے، اس نے اسے قومی اسمبلی میں مستحکم پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے، اسے اب پی پی پی کی بے ساکھیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم سینیٹ میں آج بھی اس کی پوزیشن کمزور ہے اور قانون سازی کے لیے اسے ہر صورت پی پی پی کی محتاجی رہے گی۔

ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) انتخابی کامیابی کا جشن منا رہی ہے جب کہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے دارالخلافہ پشاور میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر افغان دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ لاکھ رکاوٹوں، آپریشن اور ہلاکتوں کے باوجود موقع ملتے ہی وہ اپنا کام کر گزریں گے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے اس حملے کو ناکام بنا دیا اور تینوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور ہمارے تین جوان بھی شہید ہو گئے۔

مذکورہ دہشت گردوں کی افغان شہری ہونے کی نشانی اس بات کی علامت ہے کہ پاک افغان حالیہ مذاکرات کا کوئی نمایاں نتیجہ نہیں نکلا۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے پاکستان کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ بھارت کے اکسانے پر اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی موثر ثابت نہ ہو سکی پاکستان کو سفارتی محاذ پر امریکا، چین، روس اور دیگر ممالک کو صورتحال کی نزاکت اور سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے۔ فتح کا جشن اپنی جگہ لیکن عوام کی آواز بھی سننا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ضمنی انتخاب سے پشاور حملے تک
  • مختلف سیاسی رہنماؤں کی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت
  • ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی
  • ق لیگ کی بلوچستان میں بڑی کامیابی، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا شمولیت کا اعلان
  • سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان
  • کوئٹہ: مختلف سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان
  • اگر معلوم ہوتا کہ مینڈیٹ قبول نہیں ہوگا تو ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیتے، بیرسٹر گوہر
  • کیا ن لیگ نے پنجاب دوبارہ حاصل کرلیا؟
  • مقبوضہ کشمیر میں اداروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر سیاسی جماعتوں کی بی جے پی پر تنقید