وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس؛ قومی ٹیرف پالیسی سے صنعتی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
اسلام آ باد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ملکی درآمدات، کسٹمز ڈیوٹی اور تجارتی شعبے میں اصلاحات پر قائم کردہ ذیلی ورکنگ گروپ کی سفارشات پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں نمائندہ کاروباری حضرات پر مبنی ذیلی ورکنگ گروپ کے ارکان نے وزیراعظم کو کسٹمز اور ٹیکس وصولی سے متعلقہ مسائل سے آگاہ کیا اور اپنی سفارشات پیش کیں۔
وزیراعظم نے سفارشات کا خیرمقدم کرتے ہوئے متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو ہدایت دی کہ وہ ملکی صنعتی پیداوار بڑھانے اور کاروباری و سرمایہ کار حضرات کو ہر ممکن سہولت فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ قومی ٹیرف پالیسی ملکی صنعتی پیداوار کو مثبت انداز میں سہولت پہنچانے کے لیے نافذ کی گئی ہے تاکہ برآمدات اور درآمدات کو ملکی مجموعی معاشی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔
اجلاس میں وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاءاللہ تارڑ، وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک، وفاقی وزیر برائے پاور سردار اویس احمد لغاری، وفاقی وزیر برائے اکنامک افئیرز ڈیژن احد خان چیمہ، وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم علی پرویز ملک، وزیر مملکت خزانہ اظہر بلال کیانی، وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر، چیئرمین ایس آئی ایف سی، ملکی صنعت و کاروبار کے نمائندگان اور دیگر متعلقہ سرکاری عہدے داران نے بھی شرکت کی۔
وزیراعظم نے اجلاس میں زور دیا کہ ملکی صنعتی پیداوار اور تجارت میں اضافے کے لیے شعبہ جاتی مخصوص تجاویز اور مسائل کی نشاندہی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات پر مبنی دیرپا معاشی ترقی ملک میں سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت میں اضافے، حکومتی تحفظ اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم نے ہدایت دی کہ دوسرے ممالک کے ساتھ دوطرفہ اور راہداری (ٹرانزٹ) تجارتی مصنوعات کی بارڈر پر کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی پر کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر برائے صنعتی پیداوار
پڑھیں:
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل منظور‘ اپوزیشن کا احتجاج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251203-01-20
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 2025 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، 160 اراکین نے تحریک کی حمایت اور 79 اراکین نے مخالفت کی جبکہ شدید نعرے بازی کے بعد اپوزیشن اراکین ایوان سے چلے گئے۔پیپلز پارٹی نے تحریک کی حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے مخالفت کر دی اور ایوان سے چلے گئے۔ سینیٹر عبد القادر اور ایمل ولی خان نے بھی بل کی مخالفت کر دی۔اپوزیشن جماعتوں نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ’’ناموس رسالت زندہ باد، نعرہ تکبیر، اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث اسپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہ انتہائی اہم قانون ہے۔ اقلیتوں کی تعریف کی وضاحت کر دی گئی ہے۔قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل 2025 کی شق وار منظوری لی گئی۔قومی کمیشن حقوق اقلیتاں بل سے شق 35 حذف کر دی گئی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شق واپس لے لی۔جے یو آئی ف کی جانب نے ترمیم عالیہ کامران نے پیش کی، شق 35 حذف کرنے کی ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔کنونشن برائے حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار عمل درآمد بل 2024، پاکستان ارادہ برائے مینجمنٹ سائنسز ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سیکورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023 اور گھرکی انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2025 بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2025 بھی ایوان میں پیش کیا گیا، جس کی شق وار منظوری لی گئی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔قبل ازیں، مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت شروع ہوا جس میں اعظم نذیر تارڑ نے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔تحریک پیش کرنے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیز تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ غیر مسلموں کے لیے کمیشن ہے، عدالت عظمیٰ نے 2014 میں فیصلہ دیا تھا کہ کمیشن بنایا جائے لہٰذا اس قانون پر سیاست نہ کی جائے۔جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قانون لاتے کیوں ہیں جس کا کوئی غلط فائدہ اٹھائے، ہم ایسے قانون کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ایجنڈے کے مطابق آپ نے 7 قانون پاس کرنے ہیں، اقلیت والے بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی، جے یو آئی کو بھی اس حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے، اس کے باوجود کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے، اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس قانون میں 2 چیزیں قابل اعتراض ہیں، یہ قانون منظور ہوگیا تو قادیانیوں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون غیر مؤثر ہو جائے گا لہٰذا اس قانون میں سے یہ شق نکالنا ضروری ہے۔علامہ راجا ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے، لوگوں کوحقوق نہیں مل رہے، مشترکہ اجلاس ہے مگر کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں، اگر چاہتے ہیں اپوزیشن کردار ادا کرے تو ان کو حقوق دیں۔ تمام قانون سازی عجلت اور جلد بازی میں ہو رہی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ دوبارہ پٹارا کھولنے والی بات ہے۔سینیٹر نور الحق قادری نے کہا کہ داڑھی اور پگڑیوں والوں کو اقلیتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اس معاملے پر ایک موقف ہے۔ ہندو، سکھوں اور عیسائیوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں مگر قادیانیوں کے حوالے سے تشویش ہے، یہ بل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کو اس وزیر اعظم نے کافر قرار دیا جس کی داڑھی نہیں تھی، قیامت والے دن اس پر ہماری پکڑ ہونی ہے۔ اس وقت امت محمدی کا مسئلہ ہے، ایسا کوئی دروازہ نہ کھولا جائے، ہم ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیں گے۔