WE News:
2025-12-07@06:03:20 GMT

مہندی کے رنگوں سے مستقبل سنوارنے والی باہمت لڑکی کی کہانی

اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT

مہندی کے رنگوں سے مستقبل سنوارنے والی باہمت لڑکی کی کہانی

مہندی کے رنگوں کو ہاتھوں میں پرو کر خود انحصاری کی مثال قائم کرنے والی امیہ بنت اقبال، ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے ہنر کے ذریعے اپنی دنیا بدل ڈالی۔

یہ کہانی ہے مظفرآباد کی ایک باہمت اور خوددار طالبہ امیہ بنت اقبال کی، ایک ایسی لڑکی جس نے اپنے خوابوں کو رنگ اور مہندی کے کونز سے تعبیر کیا۔

میٹرک کے بعد جب اکثر لڑکیاں اگلے مرحلے کے خواب دیکھتی ہیں وہیں امیہ نےاپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ہاتھوں سے لکھنی شروع کی۔

ایک چھوٹے سے کمرے، چند کونز اور بہت سارے ایسے خواب جو بظاہر ایک خاتون کے لیے قدرے آسان نہیں تھے۔

امیہ نے اپنے اس شوق کو پیشے کے طور پر اختیار کرتے ہوئے نا صرف اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی سیکھا۔

امیہ کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک چھوٹا سا ہنر بھی خوشحالی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ مزید جانیے ڈاکٹر ثانیہ طارق کی اس رپورٹ میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews باہمت طالبہ دلچسپ کہانی مستقبل سنوارنے والی طالبہ مظفرآباد مہندی کے رنگ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: باہمت طالبہ دلچسپ کہانی مستقبل سنوارنے والی طالبہ مہندی کے رنگ وی نیوز مہندی کے

پڑھیں:

تین مرد ایک کہانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کے سیاسی پس منظر اور عسکری، سیاسی تعلقات کی تاریخ جب بھی کھولی جائے تو ایک عجیب مگر تلخ تصویر سامنے آتی ہے۔ وہ تصویر جس میں سیاستدان بنے، اْبھارے، مسلط کیے گئے، پھر اچانک کوڑے دان میں ڈال دیے گئے، اور آخر کار عوام کے سامنے بطور ’’غدار‘‘، ’’نااہل‘‘ یا ’’ذہنی مریض‘‘ پیش کیے گئے۔ اس پورے عمل میں کبھی سیاستدان مرکزی کردار بنے، مگر اصل ڈائریکٹر وہی قوتیں رہیں جنہیں ہم عام طور پر ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر آج ہم صرف تین مرکزی کردار، نواز شریف، الطاف حسین اور عمران خان، کی تاریخ اور اْن کی سیاست کی تشکیل و زوال کے واقعات پر غور کریں تو ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے، جو بار بار سیاسی دھارے بدل کر عوام پر مسلط کی جاتی رہی ہے۔ جب ہم نواز شریف کا نام سنتے ہیں تو ذہن میں فیکٹروں، شہرت اور طاقت کی وہ تصویر آتی ہے جو لاکھوں لوگوں کی نظر میں ایک اشرافیہ خاندان کی ہے، مگر حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ میاں محمد شریف، نواز شریف کے والد ایک درمیانے درجے کے صنعتی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی فیکٹری اتفاق فاؤنڈری تھی۔ ان کے کاروبار کی نوعیت لوہے اور فاؤنڈری کی تھی، یعنی لوہار پس منظر کا خاندان تھا۔ انہیں ضیاء الحق کے طویل دورِ آمریت میں ایک موقع ملا۔ اس دور میں مقامی صنعت و تجارت کو مین اسٹریم میں لانے اور سیاسی منظرنامے کو نئے چہروں کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہی ایک ضرورت کے تحت نواز شریف کو پنجاب کی سیاست میں متعارف کرایا گیا۔ اْنہیں ابتدا میں وزیر ِ خزانہ مقرر کیا گیا، پھر وزیر ِ اعلیٰ پنجاب بنایا گیا، اور بالآخر تین مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ لیکن اس خاموش آنکھ مچولی اور پس پردہ حمایت کا مطلب یہ تھا کہ وہ عوام کی انتخاب کردہ قیادت نہیں تھے، بلکہ ایک انتخاب شدہ پروجیکٹ تھے۔ اْن کی ترقیاتی پالیسیاں، شہروں کی تعمیر نو، صنعتی زونز کا قیام، مال و دولت کی بڑھتی ہوئی تجارت، سب کچھ ایک شاندار چہرے کے پیچھے چھپی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی تھی۔ پھر وقت بدلا۔ جب نواز شریف کی مقبولیت اور اقتدار نے ان قوتوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا تو یہی قوتیں اْن کی مخالفت پر اْتر آئیں۔ قومی سطح پر اْنہیں غدار، چور اور ڈاکو کہا گیا۔ عوام کو یاد ہوگا کہ انہیں ’’ملک بیچنے والا‘‘ کہا جاتا تھا، احتساب کا نعرہ لگایا گیا، اور نتیجتاً اْنہیں اقتدار سے ہٹا کر ملک سے معاہدے کے بعد باہر بھیج دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے: اگر وہ واقعی ’’چور، ڈاکو‘‘ تھے، تو انہیں اقتدار کی سیڑھی پر چڑھانے والا کون تھا؟ اور اگر انہیں اقتدار سے ہٹانے کی ضرورت تھی، تو اس فیصلے کا اختیار کس نے لیا؟ عوام نے؟ یا وہ قوتیں جنہوں نے خود ان کو بنایا تھا؟ اور پھر انہیں دوبارہ اقتدار دینے کا فیصلہ وہ بھی عوام کی آراء کے برعکس کس نے کیا؟ اگر نواز شریف کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح صنعتی پس منظر رکھنے والا لوہار خاندان اقتدار کے مزے چکھ سکتا ہے، تو کراچی کی سیاست اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ کس طرح کسی شہر کی تقدیر سیاسی منصوبہ بندی اور اجتماعی انجینئرنگ سے بْری طرح تباہ کی جا سکتی ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستان، خاص طور پر کراچی، پیچیدہ سیاسی و نسلی کشمکش سے دوچار تھا۔ مہاجر، سندھی، پختون، بلوچ ہر گروہ نے اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ اْسی ماحول میں الطاف حسین کا انتخاب کیا گیا، پھر بعد میں ایم کیو ایم کے نام سے جماعت بنائی گئی۔ اس کی تاریخ ہم نے دیکھی کہ یہ مسلح تنظیم بن گئی۔ نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا، اسٹریٹ کرائم، اغوا، بھتا خوری عام ہوئی، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی مخالفین پر نہ ختم ہونے والا ظلم ہوا، اور کراچی کو انتشار زدہ شہر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہزاروں زندگیوں کا خاتمہ ہوا، خاندان ٹوٹے، شہر کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہوئی۔ مگر یہ سب اْس وقت ممکن ہوا جب اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو مسلط کیا۔ جب ضرورت تھی، اسے برداشت کیا گیا، اس کی حمایت کی گئی اور جب نقصان بڑھ گیا تو ہاتھ کھینچ لیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کی نسلیں تباہ ہوئیں، امن کا نام و نشاں ماند پڑ گیا، اور آج بھی کراچی وہ شہر نہیں رہا جو کبھی پاکستان کا معاشی دارالحکومت تھا۔ اب جب الطاف حسین یا اس کی تنظیم کو ’’ریاست دشمن‘‘ قرار دیا جائے اور وہ ہے، تو سوال اٹھنا چاہیے کہ اس تشدد اور انتشار کی ذمے داری صرف الطاف حسین کی ہے یا اْن قوتوں کی بھی جنہوں نے انہیں اْبھارا، سنبھالا اور پھر بے توقیر کر دیا؟ پھر عمران خان وہ چہرہ تھا جسے 2000 کی دہائی میں سیاست میں لانچ کیا گیا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان ایک کرکٹ ہیرو تھے اور سیاست میں آنے والے کوئی مضبوط امیدوار نہ تھے، مگر اس ’’ضعیف سیاسی حیثیت‘‘ نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے لیے موزوں پروجیکٹ ثابت کیا۔ 2002 کے انتخابات میں ان کی پارٹی زیادہ مؤثر نہ تھی، مگر طویل سیاسی خلفشار، میڈیا مہمات اور سیاسی انجینئرنگ نے انہیں ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا۔ آہستہ آہستہ ان کی عوامی مقبولیت بڑھی، جلسے ہوئے، مطالبات سامنے آئے، اور بالآخر 2018 میں انہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا رہنما بنا دیا گیا۔ وہ اقتدار کے ایوان تک پہنچے، نئی امیدیں، تبدیلی کے نعرے اور عوام میں خود کو مختلف انداز میں پیش کیا۔ لیکن اقتدار کے مزے صرف چند برسوں کے تھے۔ جیسا کہ پہلے بھی ہو چکا تھا، اگر کسی سیاستدان کی شہرت بڑھ جائے یا اس کی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کو خطرے میں ڈال دے، تو اسے نیچا دکھانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ عمران خان کو ’’ذہنی مریض‘‘ قرار دینا، ان کے سیاسی مخالفین کو بڑھاوا دینا اور آخر کار انہیں سزا دینا، یہ سب وہی مراحل تھے جو ماضی میں دیگر رہنماؤں کے لیے اختیار کیے گئے۔ اسی طرح عمران خان کی سیاست ایک پروجیکٹ کی طرح اْبھری، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار تک پہنچی اور پھر جب ضرورت ہوئی تو خود ساختہ بیانیے اور تشہیر کے ذریعے انہیں عوام کی نظروں میں غیر معتبر اور خطرناک کیا جانے لگا۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اس میں کوئی شک نہیں عمران ایک ناکام سیاست دان تھے، مگر ان کی مقبولیت ختم نہیں ہو رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ بار بار پریس کانفرنس کرنی پڑ رہی ہے۔ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ٹی ایل پی نام کی تنظیم اچانک ابھری اور اب وہ ناقابل ِ برداشت ہوگئی اور پھر آپ نے اْن کے جرائم کی فہرست جاری کرنا شروع کردی ہے۔ قوم تو آج تک اس بات پر ششدر ہے کہ آصف علی زرداری دو مرتبہ ملک کے صدر بن گئے۔ اب وہی بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کہ ’’ایک شخص کی خواہشات ریاست سے بڑھ کر ہیں، وہ خود کو عقل ِ کل سمجھتا ہے، دوسروں کو غدار کہتا ہے، عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکاتا ہے، اور یوں اس کی سیاست ختم ہوچکی ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ عوام کیا کریں؟ کیا ہر مرتبہ اس طرح کے تجربات برداشت کرتے رہیں؟ کیا ہر نیا سیاستدان، نیا پروجیکٹ زندہ قوم کے حصے میں آتا رہے گا؟ اور جب یہ ناکام ہوں گے تو الزام کس پر آئے گا؟ اْن سیاستدانوں پر جنہیں خود اسٹیبلشمنٹ نے بنایا تھا؟ یا اْن ہاتھوں پر جنہوں نے انہیں مسلط بھی کیا اور پھر اتار دیا؟ وطن عزیز میں اسٹیبلشمنٹ کی ’’سیاسی‘‘ تاریخ کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب تک ادارے اپنی حدود میں رہنے، ووٹ کو عزت دینے اور ریاست کو عوامی اختیار پر چلانے کے اصول کو قبول نہیں کرتے، تب تک نئے نواز شریف، نئے الطاف حسین اور نئے عمران خان بنتے رہیں گے، مسلط ہوتے رہیں گے، اور پھر انہی قوتوں کے ہاتھوں مہرے بن کر عزت و ذلت پاتے رہیں گے۔ اور اب یہ کب تک اسی طرح چلے گا… یہ آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • نیشنل گیمز کا افتتاح، نوجوان ہمارا مستقبل، عالمی سطح پر میڈلز جیت کر لائیں گے: بلاول
  • تین مرد ایک کہانی
  • لاہور، گل داؤدی کی سالانہ نمائش 2025، جیلانی پارک لاہور میں رنگوں اور خوشبوؤں کا سمندر
  • ایک اور دکھ کی کہانی
  • اسکوٹی چلانے والی لڑکیاں غیر محفوظ کیوں، اور نصرت جاوید نے بھارت میں حیران کن چیز کیا دیکھی؟
  • سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا، پی ٹی آئی کا مستقبل اب کیا ہوگا؟
  • پاکستانی طالبہ نے عالمی مقابلہ مضمون نویسی میں گولڈ ایوارڈ جیت لیا
  • سہیل آفریدی اگر نیشنل سیکیورٹی کے راستے میں حائل ہوئے تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • کراچی: گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ شدت اختیار کرگئی، دیواریں گرنے لگیں