حافظ نعیم کا 21 دسمبر کو ملک بھر میں دھرنا دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن—فائل فوٹو
امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے 21 دسمبر کو پنجاب کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔
لاہور میں پنجاب کے بلدیاتی قانون کے خلاف مظاہرے سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ یہ پہلا ایکٹ لاتے ہیں اور اس کو چیلنج کر کے قوم کو بیوقوف بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ نہیں ہے، یہ کالا قانون ہے، یہ قانون شہروں کا اور یونین کونسل کا حق بھی کھا رہا ہے۔
امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ جاگیرداروں نے پورے سسٹم پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ لوگ ظلم کے اس نظام کو قائم رکھتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہم 21 دسمبر کو پورے پنجاب کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں دھرنا دیں گے، یہ جو کچھ بانٹتے ہیں اپنے ہی خاندان میں دیتے ہیں۔
حافظ نعیم نے کہا کہ 40، 40 سال پولٹیکل ورکر محنت کرتا ہے لیکن کبھی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا، یہاں تو چچا وزیرِ اعظم اور بھتیجی وزیرِ اعلیٰ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب قوم کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، ہم نے مل کر اس نظام کا خاتمہ کرنا ہے، جماعتِ اسلامی عوام کے ساتھ اتحاد کر رہی ہے، میں حکومت سے پوچھتا ہوں کہ کوئی عوام کی آواز کے لیے بینر لگائے اور آپ اتار دیں؟
امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ تمام اختیارات بلدیاتی حکومتوں کے حوالے ہونے چاہئیں، تحصیل گورنمنٹ کا اختیار ہونا چاہیے، یہ ملکاؤ اور بادشاہوں کا نظام نہیں ہے، جس کو چاہا نواز دیا، ہم اس کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان لوگوں نے عدالتوں میں بھی قبضہ کیاہوا ہے، یہ جو خاندانی پارٹیاں ہیں، یہی مضبوط ہوتی رہیں، اس حوالے سے شعور آنا بہت ضروری ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ میں میاں نواز شریف سے پوچھتا ہوں کہ یہ کونسی ووٹ کو عزت ہے کہ حکمراں انڈر پاسز اور سڑکوں پر اپنی تختیاں لگاتے ہوئے نظر آئیں؟
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحم ن نے کہا کہ
پڑھیں:
مینارِ پاکستان سے اٹھتی تبدیلی کی آواز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مینارِ پاکستان کی وسیع و عریض فضا میں سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ وہ منظر ابھرتا ہے جس میں تین روزہ اجتماعِ عام کے شرکاء دور دور سے قافلوں کی صورت آتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان کے خشک پہاڑوں سے لے کر گلگت بلتستان کی برف پوش وادیوں تک، کراچی کے ساحل سے خیبر کے سنگلاخ راستوں تک، ایک ہی سمت میں بڑھتے ہوئے یہ قافلے اپنے اندر ایک نئی امید، نیا عزم اور ایک مسلسل اصرار لیے ہوئے تھے کہ پاکستان کو ایک ایسا نظام دیا جائے جو قرآن و سنت کی روشنی میں عادلانہ، باوقار اور کرپشن سے پاک ہو۔ حافظ نعیم الرحمن کی امارت میں ہونے والا یہ پہلا بڑا اجتماع، بلاشبہ، جماعت اسلامی کے مختلف اجتماعات کے سلسلے میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
اجتماع کے ماحول میں حیرت انگیز تبدیلی یہ تھی کہ اس مرتبہ جماعت اسلامی نہ صرف اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر رہی تھی بلکہ واضح طور پر ایک ڈیجیٹل اور کارپوریٹ تنظیم کے طور پر بھی سامنے آئی۔ ورکروں کے ہاتھوں میں واکی ٹاکیاں، انتظامات میں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال، اسٹیج کی بلند ترین ساخت، ہر جانب روشنیوں کا سیلاب اور سب سے بڑھ کر ہزاروں لوگوں تک ایک ہی وقت میں پیغام رسانی، یہ منظر کارپوریٹ کانفرنس کی یاد دلاتا تھا۔ عرصہ دراز سے ہم لکھتے آئے ہیں کہ قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کو اپنی فضا زندہ رکھنے کے لیے ضلعی اور صوبائی کنونشنز کے ذریعے کارکنوں کی رائے الگ سے مرتب کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع بلاشبہ اسی روایت کو جدید تقاضوں کے تحت زندہ کرنے کی کوشش ہے۔
مینارِ پاکستان کے گرد و نواح میں ہر نوعیت کی گاڑیوں کا ازدحام بتا رہا تھا کہ شرکاء صرف کسی ایک طبقے یا کسی مخصوص علاقے سے نہیں آئے۔ ہر زبان بولنے والے، ہر عمر کے لوگ ایک ایسی جماعت کے نمائندہ تھے جو چاہتی ہے کہ ملک کے سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور عدالتی ڈھانچے کو نئے سرے سے منظم کیا جائے۔ اجتماع کا عنوان ’’بدل دو نظام‘‘ محض ایک نعریہ جذباتیت نہیں بلکہ ایک ہمہ گیراشارہ ہے کہ موجودہ نظام اپنی پیچیدگیوں، عدم مساوات اور مسلسل بگاڑ کے سبب عوام کے لیے کارآمد نہیں رہا۔
اجتماع کے مختلف سیشنز اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد دکھائی دیے۔ سیاست، معیشت، عدلیہ، صحت اور تعلیم جیسے وہ تمام شعبے جو عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہیں، ان پر گفتگو اور تجاویز کا سلسلہ یقینا جماعت اسلامی کی پالیسی سازی کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلدیاتی نظام پر سیشن اس لیے اہم تھا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ نچلی سطح کی جمہوری قوتوں کو اختیار دینے کی علم بردار رہی ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی اور ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ کے سیشن نے یہ تاثر مضبوط کیا کہ جماعت اسلامی نئے دور کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کو اپنی حکمتِ عملی کا لازمی حصہ بنا رہی ہے۔
ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ صوبائی امیر الگ الگ اپنے اپنے علاقوں کے مسائل پر گفتگو کر رہے تھے، اور سندھ میں کراچی کے لیے الگ امارت کا ہونا صوبے کے اندرونی تضادات اور انتظامی مشکلات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی طرح اقلیتی ونگ اور مختلف زبانوں کے نمائندوں کی شرکت اس بات کی دلیل تھی کہ جماعت اسلامی اپنی روایتی شناخت سے آگے بڑھ کر ایک وسیع تر قومی جماعت بننے کی کوشش میں ہے۔ عالمی منظرنامے پر مشاہد حسین کے خصوصی لیکچر نے اس اجتماع کو فکری گہرائی بھی دی، کہ پاکستان محض داخلی بحرانوں کا شکار نہیں بلکہ عالمی سیاسی صف بندی کے دباؤ سے بھی دوچار ہے۔
اجتماع کی ایک خوشگوار خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ادب اور خصوصاً شاعری کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ پاکستان کی بڑی قومی جماعتوں نے اگرچہ شعرا اور ادبا سے اپنا رابطہ تقریباً ختم کر لیا ہے، لیکن جماعت اسلامی نے نہ صرف یہ روایت زندہ رکھی بلکہ اسے ایک بھرپور ادبی رنگ دیا۔ انور مسعود، خورشید رضوی، سحر انصاری، انور شعور، شعیب بن عزیز، سعود عثمانی اور دیگر ممتاز شعرا نے انقلابی نظم و غزل پیش کر کے اسٹیج کو ایک جاندار فکری سرگرمی میں بدل دیا۔ مشاعرے کی نظامت عبدالرحمن مومن نے جس طرح کی، اس نے سامعین کی تھکن کو تازگی میں بدل دیا۔
باقی صفحہ7نمبر1
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن ادب فہم اور ذوقِ سخن رکھنے والے تھے، جس طرح وہ نظموں پر تالیاں بجاتے اور غزلوں کے نکات کو محسوس کرتے دکھائی دیے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجتماع واقعی نظام بدلنے کی کوئی ٹھوس بنیاد رکھتا ہے؟ اجتماع کا نظم و ضبط دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی ایک مربوط، منظم اور انتہائی منظم ورک فورس رکھتی ہے۔ لیکن پاکستان کے پیچیدہ آئینی، معاشی اور سیاسی بحران صرف نظم و ضبط سے حل نہیں ہو سکتے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، عدالتی نظام کمزور ہے، معیشت عالمی دباؤ کا شکار ہے، اور سیاسی تقسیم حد سے بڑھ چکی ہے، تو کیا جماعت اسلامی وہ پلیٹ فارم فراہم کر سکتی ہے جس سے عوام اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں؟
اجتماع اپنی جگہ ایک بڑا مظاہرہ تھا، لیکن کیا یہ ایک نئے سیاسی بیانیے کا آغاز ہے یا محض ایک موثر عوامی اجتماع؟ یہ فیصلہ وقت کرے گا۔ تاہم اتنا کہنا غلط نہ ہوگا کہ واہگہ سے گوادر تک اس جماعت کے کارکنوں میں بیداری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اگر جماعت اسلامی واقعی جدید تقاضوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لے، نوجوانوں کے جذبے کو تنظیمی حکمتِ عملی سے جوڑ دے، اور عوامی مسائل کا واضح اور قابلِ عمل حل پیش کرے، تو وہ پاکستانی عوام کے لیے ایک نئی امید بن سکتی ہے۔ مگر نظام بدلنا صرف اجتماعات سے نہیں، بلکہ مسلسل سیاسی جدوجہد، عوامی اعتماد اور عملی کارکردگی سے ممکن ہوگا۔ یہ اجتماع شاید اس سمت میں ایک سنگ میل ثابت ہو یا پھر محض ایک شاندار منظر… مگر فیصلہ بہرحال مستقبل کو کرنا ہے۔