’’سیکورٹی رِسک کلب آف پاکستان‘‘
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہیں کہ وہ پاکستان کے تاریخی ’’سیکورٹی رسک کلب آف پاکستان‘‘ بہ الفاظ ِ دیگر انجمن خطرناکان ِ قومی سلامتی کے باضابطہ رکن بن گئے ہیں۔ یہ کلب بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود پاکستان۔ بانی ِ پاکستان کے کوئٹہ اسٹاف کالج کے خطاب کے چند جملوں کو حالات کے مروج اور موجود ترازو پر تولا جائے تو اس میں سے بھی کسی طبقے اور ادارے کی توہین کے کئی پہلو برآمد ہوتے ہیں۔ بابائے قوم اس ملک کے خاک نشینوں کو معزز اور محترم اداروں سے بالاتر قرار دے رہے ہیں۔ وہ خاک نشین پاکستان کے اٹھتر سالہ فریم ورک میں جن کا مقدر پیدا ہونا رینگ کر زندگی کے دن پورے کرنا اور اگلے جہان کی راہ لینا ہے۔ یہ خاک نشین قومی وسائل کو حسرت اور حیرت سے اسی طرح تکتے ہیں کہ جس طرح بچے چاند اور سورج کو دیکھتے ہیں اور وہاں پہنچ کر چرخا کاتتی چاند کی بڑھیا کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان خاک نشینوں کو دس لاکھ کے صحت کارڈ کے ذریعے قومی وسائل میں شریک کیا جائے تو بہت سی جبینوں کی شکنیں قابل دید ہوتی ہیں۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ کہ خاک نشینوں کی سب سے کمتر قسم مزدوروں لاچاروں کو سڑکوں سے اْٹھا کر پناہ گاہوں میں اچھا کھانا اور گرم بستر دے کر ریاست کے معمولی سے وسائل میں شریک کیا جائے تو گویا کہ آپ نے اسپین کے میلے میں سرخ رومال لہرا دیا۔ یہ غصہ بڑی حد تک جائز ہے کہ جنہیں قدرت نے غربت اور حالات کی چکی میں پسنے کی ہاتھ کی لکیر کے ساتھ پیدا کیا ہو انہیں ان حالات سے چھٹکارہ دلانا تو قرین انصاف نہیں۔
یوں اب عمران خان بھی باضابطہ طور پر پاکستان کی تاریخ کے ان لوگوں کی فہرست کا حصہ بن گئے ہیں جو اپنے سیاسی سفر کے کسی نہ کسی موڑ پر سول بالادستی، قانون اور آئین کی حکمرانی اور شخصی آمریت کے خلاف اْٹھ کھڑے ہو کر اس کی قیمت چکاتے رہے ہیں۔ اس فہرست میں اکثر نام سیاسی ہیں مگر اس میں کئی غیر سیاسی نام بھی شامل ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں نام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مضبوط علامت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ جو شخص پاکستانیوں کے تحفظ کا احساس اور اثاثہ تھا وقت بدلا تو ایک بوجھ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا۔ ایک روز حالات سے لڑتے لڑتے تھک کر اس قومی ہیرو نے جو الفاظ ادا کیے وہ ہمارے قومی تاریخ میں تیر کی طرح ترازو ہو کر رہ گئے ہیں۔ ’’اس ملک کے لیے کام کرنے پر افسوس ہے۔ یہاں جو ملک کی خدمت کرے گا وہ مجرم ہوگا جو جتنی بڑی غداری کرے گا وہ اتنا ہی محبوب ہوگا‘‘۔ یہ حالات کا نوحہ نہیں ماضی کی کہانی اور مستقبل کا آئینہ تھا۔ پاکستان کے معروف صحافی جبار مرز ا نے اپنی کتاب ’’پاکستان کا آخری بڑا آدمی‘‘ میں انکشاف کیا تھا کہ اگر اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی انکار نہ کرتے تو ڈاکٹر قدیر خان کو امریکا کے حوالے کیا جانا تھا۔ بعد میں مشرف نے خان کی کردار کشی اور ان سے معافی منگوانے کے ایک الگ ونگ قائم کیا۔ ونگ کے ایک اہلکار نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں گھر بھی کرائے کا ہے۔ بحریہ ٹاون میں دو منزلہ گھر آپ کا منتظر ہے۔ گاڑی اور دو سال کا پٹرول بھی آپ کو ملے گا مگر آپ کو ڈاکٹر خان کی کردار کشی پر مبنی ایسی کتاب لکھنا ہوگی جو اسے ہیرو سے زیرو بنانے کا باعث بن سکے۔ کتاب تیار ہے صرف مصنف کے بطور پر آپ کا نام لکھا جانا ہے۔ میرے انکار پر وہ شخص اپنا سا منہ لے کر گیا‘‘۔
جبار مرزا کے اس انکشاف سے اندازہ ہورہا ہے کہ ڈاکٹر خان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایٹمی توانائی پر مغرب کی اجارہ داری کو ختم کیا تھا۔ وہ اگر کسی یورپی یا مغربی ملک کے لیے یہ خدمت انجام دیتے تو ہیرو قرار پاتے مگر انہوں نے مسلمان دنیا کے ایک ملک کی خاطر یہ کام انجام دیا اور مسلمان دنیا کے لیے ایٹمی توانائی کا حصول شجر ممنوع تھا۔ یہ جرم اس قدر بڑا تھا کہ ایک روز ڈاکٹر خان کو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسمپرسی اور بے بسی کے عالم میں انٹرویو دینا پڑا۔ ملک بنانے کے بعد دوسرا بڑا کام کرنے والے کا یہ انجام پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس شخص کو بھی عملی طور پر سیکورٹی رسک کلب آف پاکستان میں دھکیل کر اپنے تئیں تاریخ کو درست کیا گیا۔
لیاقت علی خان پاکستان میں نہرو کی طرح جمہوری اقدار اور سول بالادستی کی علامت بن کر اْبھر سکتے تھے مگر المیہ یہ ہوا کہ سید اکبر کو بے وجہ ان پر غصہ آگیا اور اس نے کمپنی باغ کے جلسے میں گولیاں چلا دیں۔ بنگال کا حسین شہید سہروردی ملک کے دونوں حصوں میں یکساں مقبول ہو رہا تھا۔ یہ ملک کو جوڑے رکھنے کی صلاحیت کا حامل تھا مگر ایک روز اسے بھی کلب کی رکنیت دے کر مائنس کردیا گیا اور وہ عالم جلاوطنی میں اس جہان سے کوچ کرگئے۔ سہروردی کی معتدل اور دونوں حصوں میں مقبول آواز کو نہ سننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایک کارکن شیخ مجیب الرحمان منظر پر اْبھرا جو سخت لہجہ ودہن کے ساتھ بات کرنے کا خوگر تھا۔ پھر وہ بھی سیکورٹی رسک کلب کا رکن قرار پایا اور ایک روز اسے دیوار سے دھکیلتے دھکیلتے وہاں پہنچا دیا گیا جہاں سے واپسی ممکن نہ رہی۔ فاطمہ جناح ملک میں سول بالادستی کی آخری علامت بن کر اْبھریں۔ ملک کی تمام جمہوری قوتیں اور چھوٹے صوبوں کے لیڈر ہی ان کے گر د جمع نہ ہوئے بلکہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی جیسی صاحب بصیرت شخصیت اور کشمیری لیڈر چودھری غلام عباس نے آنے والے منظر نامے کو بھانپتے اور دیکھتے ہوئے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی مگر یہ لہر اْٹھنے سے پہلے ہی کچل دی گئی۔ یوں سیکورٹی رسک کلب کی رکن سازی مہم جاری رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف سے بڑھتے بڑھتے کہانی عمران خان تک پہنچی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر کہا کہ ماضی میں اتنے شد ومد کے ساتھ کسی لیڈر کو سیکورٹی رسک نہیں کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کہانی نے اتنی طوالت نہیں پکڑی تھی۔ کچھ جان سے چلے جاتے رہے کچھ غصہ ٹھنڈا ہونے کے انتظار اور امید میں دبے پاؤں منظر سے مائنس ہو کر جلاوطن ہوتے رہے۔ پہلی بار ایک شخص کھڑا ہے جس سے کھیل اْلجھ چکا ہے۔ لڑائی طوالت اختیار کرگئی ہے۔ پوشیدہ کردار ظاہر ہوکر سامنے آنے پر مجبور ہو چکے ہیں اسی لیے زیادہ شدومد اور تواترکے ساتھ سیکورٹی رسک قرار دینا پڑ رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیکورٹی رسک کلب پاکستان کے ایک روز کے ساتھ کے لیے ملک کے
پڑھیں:
اب کوئی بات نئی بات نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251209-03-4
ڈی جی آئی ایس پی آر بہت غصے میں تھے۔ ممکن ہے ان کا غصہ بجا ہو۔ سنا تھا کہ جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے لیکن اب آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر ایسا ہی لگا۔ اللہ کرے کہ دامن ہوش دوبارہ تھام لیا جائے کیونکہ اب اگر ملک سنور جانے کی کوئی آخری امید نظر آتی ہے تو وہ اسی ادارے کی ہوشمندی میں ہی مضمر ہے کیونکہ اب حالات اتنی گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ ان کو قابو میں رکھنا اور اچھی صورت حالات کی جانب لوٹانا سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے بس میں بھی نہیں رہا۔ میں اپنی اصل بات کی جانب جانے سے پہلے یہ بات بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان میں رہتے ہوئے بھی آج تک میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر لفظ ’’ریاست‘‘ استعمال کرتے ہیں تو وہ ریاست کس کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب ِ علم ہوں اور میں نے ریاست کی تعریف میں جو پڑھا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی بیان کردہ ’’ریاست‘‘ کی شکل اس میں مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ مختصراً ریا ست کے لیے جن تین بنیادی باتوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے اس کی اول شرط خطہ زمین کا ہونا ہے، دوسری شرط معقول آبادی ہے اور تیسری شرط خود مختار حکومت کا ہونا۔ یہ تین چیزیں اگر مربوط نہیں تو اسے ریاست کہا ہی نہیں جا سکتا۔
ہم حالیہ دور کو بھی سامنے رکھیں تو فلسطین ایک خطہ زمین کا نام ہے اور وہاں انسانوں کی ایک بڑی آبادی بھی موجود ہے لیکن کیونکہ وہاں خود مختار حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اس لیے اسے آج تک ایک آزاد و خود مختار ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک اور مثال بنگلا دیش کی ہے کہ وہ جب پاکستان کے ساتھ تو اس وقت بھی وہ ایک خطہ زمین رکھتا تھا، آبادی کے لحاظ سے بھی اس وقت اس کی آبادی کروڑوں میں تھی لیکن وہ ریاست اس لیے نہیں تھا کہ اس کی اپنی کوئی خود مختار حکومت نہیں تھی۔ جب بنگال میں ایک خود مختار حکومت کا وجود عمل میں آگیا تو وہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔ باقی کسی ملک میں فوج کا ہونا، پولیس کا ہونا، مقننہ کا ہونا، عدالتوں کا ہونا وغیرہ جو کچھ بھی ہے، وہ تو سب کی سب ریاست بن جانے کے بعد کی باتیں ہیں اور ہر نو زائدہ ملک اپنے باقی ادارے اور محکمے ریاست بن جانے کے بعد ہی قائم کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جب بھی لفظ ’’ریاست‘‘ کا ذکر آتا ہے تو صاف ایسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ ہماری فوج خود ایک ’’ریاست‘‘ ہے اور جب بھی کوئی ایسی تحریک چلتی ہے یا ملک کے کسی گوشے سے اس پر کوئی تنقید کر رہا ہوتا ہے، ریاست (فوج) اپنے آپ کو حرکت میں لانا فرض تصور کرنے لگتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ اس قسم کی کانفرنس ان کی جانب سے کیے جانے کے بجائے حکومت کی جانب سے ہونی چاہیے تھی۔ اگر کوئی فرد یا جماعت ملک کے خلاف بات کر رہی ہو تو حکومت ِ وقت کا فرض ہوتا ہے کہ فرد یا جماعت کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے پی ٹی آئی یا اس کے سر براہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کوئی نئے نہیں۔ پاکستان کا ماضی ایسی ہی الزام تراشیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایوب خان کے دور میں قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے۔ یہی نہیں، ان کا ساتھ دینے والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی ایجنٹ بنانے کی منصوبہ بندی کر دی گئی تھی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پاچا خان اور ان کی جماعت بھی اس کی لپیٹ میں آئی۔ جماعت اسلامی پر بھی امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا گیا بلکہ اسے پھانسی تک دیدی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے نہ نواز شریف کو چھوڑا اور نہ بینظیر بھٹو کو۔ آصف زرداری کو آٹھ سال قید کاٹنا پڑی اور الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو بھی ’’اسی ریاست‘‘ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ گویا یہ ادارہ، بزعم ِ خود ایک ایسی سانس لیتی ریاست بن چکا ہے جو جب اور جس کو چاہے غدارِ اعظم بنادے اور پھر جب چاہے اسے سب سے زیادہ وفادارِ ریاست قرار دے کر اقتدار کی کرسی پر براجمان کر دے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب! اگر آپ کی ساری پریس کانفرنس کا نچوڑ نکالا جائے تو پھر پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو ’’پاکستانی‘‘ قرار دیا جا سکے۔ کے پی کے، سندھ اور بلوچستان پہلے ہی سیکورٹی رسک تھے اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال روا تھا کہ اب پنجاب کو بھی آپ اپنے خلاف کرتے جا رہے ہیں۔ آزاد و جمہوری ممالک جس میں برطانیہ سر ِ فہرست ہے، وہاں اپنے اور بیگانے کا فرق معلوم کرنے کا طریقۂ کار الیکشن کے ساتھ ساتھ ’’ریفرنڈم‘‘ کا بھی ہے۔ کچھ ہی عرصے قبل برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علٰیحدگی پسند تحریک کی آواز پر وہاں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ اگر آپ جمہوریت کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں تو کیوں نہ آپ عوام اور اپنے درمیان ایک ریفرنڈم کرالیں کہ کون پاکستان کا ہمدرد ہے اور کس کے تجربے اور پالیسیاں پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پاکستان کو اگر واقعی پاکستان بنانا ہے تو اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستانی عوام اور آپ کے درمیان اس ریفرنڈم کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔ رہی بات آپ کے الزامات کی تو میں صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ
اب کوئی بات نئی بات نہیں
اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو