پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے مشکل وقت کے ساتھی سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ کی کرسی سے ہٹائے جانے کے بعد سے پارٹی اجلاسوں اور جلسوں سے غائب ہیں اور اتوار کو پشاور میں ہونے والے جلسے میں بھی شرکت نہیں کی۔

کچھ باخبر پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا پارٹی میں کچھ مخصوص ہم خیال اور پرانے ساتھیوں سے رابطہ ہے، جبکہ پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اور نہ ہی وہ پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزارت اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد اب علی امین گنڈاپور کیا کررہے ہیں؟

ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد علی امین گنڈاپور نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے کسی قسم کے پارٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

یومِ سیاہ اور 7 اکتوبر کے جلسے میں عدم شرکت

عمران خان کی رہائی کے حوالے سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی کال پر پشاور کے حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس میں جلسہ منعقد ہوا، جس میں پارٹی کی مرکزی قیادت نے بھی شرکت کی، لیکن علی امین گنڈاپور غائب رہے۔

اس سے پہلے 26 نومبر کو پشاور میں یومِ سیاہ منایا گیا تھا اور تقریب کا انعقاد ہوا تھا، جس میں بھی علی امین گنڈاپور نے شرکت نہیں کی، جبکہ ان کی پارٹی حوالے سے کوئی سرگرمی بھی نظر نہیں آ رہی۔

پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات، علی امین کس سے ناراض ہیں؟

پی ٹی آئی کے کچھ باخبر رہنماؤں کے مطابق پارٹی اس وقت شدید اندرونی اختلافات اور گروپنگ کا شکار ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اختلافات علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ دور سے ہی چلے آ رہے ہیں، لیکن اس وقت ان کے پاس اختیارات تھے، جبکہ اب صوبائی حکومت اور صوبائی قیادت دونوں مخالف گروپ کے پاس ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عاطف خان، جنید اکبر اور علی امین کے پارٹی میں اپنے اپنے گروپ ہیں، اور تینوں ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔

ذرائع کے مطابق پشاور رنگ روڈ جلسے میں علی امین کو جوتے دکھانے کے واقعے کے بعد دونوں گروپس میں اختلافات شدید ہو گئے تھے، جبکہ اس کے بعد اسی گروپ کے 2 کابینہ ممبران عاقب اللہ اور فیصل ترکئی کو بھی کابینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ جبکہ صوابی میں جلسے کی ناکامی کی ذمہ داری بھی مبینہ طور پر علی امین پر ڈالی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی سے ہٹائے جانے کے بعد سے علی امین گنڈاپور سخت ناراض ہیں اور پارٹی تقریبات میں شرکت نہیں کر رہے۔ وہ آخری بار سینیٹ الیکشن کے لیے اسمبلی آئے تھے، جبکہ امن جرگے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

ذرائع کے مطابق علی امین کا مؤقف ہے کہ عمران خان نے انہیں اچانک بلاوجہ وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا، جو ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنا، جبکہ اعلان بھی پارٹی قیادت کے بجائے ایک معمولی وکیل کے ذریعے اڈیالہ جیل سے باہر کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس فیصلے سے 6 دن پہلے بھی علی امین اور عمران خان کی ملاقات ہوئی تھی، جس میں ان کی برطرفی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، جبکہ کابینہ میں ردوبدل کی اجازت بھی ملی تھی۔

علی امین نے عمران خان کا فیصلہ تو تسلیم کیا، لیکن سخت ناراض ہو گئے اور پارٹی سے دور ہو گئے، اور مالی مدد کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔

’علی امین پارٹی فنڈ میں پیسے دیتے آئے ہیں، لیکن اب وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔‘

کیا علی امین کو حکومت سازی کی پیش کش ہوئی تھی؟

باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد طاقتور حلقوں کی جانب سے علی امین کو حکومت سازی کی پیش کش ہوئی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ جب علی امین پشاور پہنچے تو اسلام آباد کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا اور اپوزیشن اور علی امین کے ہم خیال اراکین کو ملا کر حکومت بنانے اور علی امین کو وزیراعلیٰ بنانے کی پیش کش کی گئی، تاہم انہوں نے اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کے فیصلے کو ماننے کا اعلان کیا۔

علی امین کہاں مصروف ہیں؟

علی امین کے ترجمان کے مطابق سابق وزیراعلیٰ اپنے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوتے ہیں، جہاں وہ پارٹی معمولات کے ساتھ ساتھ گھریلو معاملات بھی دیکھ رہے ہیں۔

ان کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ علی امین جاگیردار ہیں، گھڑ سواری کے شوقین ہیں اور شکار پر بھی جاتے ہیں۔ وہ پارٹی کے شور شرابے سے دور ایک پرسکون وقت گزار رہے ہیں اور پارٹی سے رابطہ بھی کم ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے وزارت اعلیٰ سے کیوں نکالا؟ علی امین گنڈاپور نے خاموشی توڑ دی

انہوں نے مزید بتایا کہ نہ تو علی امین کا رابطہ برقرار ہے اور نہ ہی مخالف گروپ کی جانب سے کوئی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ چونکہ اس وقت ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے، اس لیے وہ زیادہ تر ڈی آئی خان میں ہی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ گزشتہ دونوں وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے پارلیمانی اجلاسوں میں شریک نہیں ہو سکے۔

پی ٹی آئی میں صوبائی سطح پر گروپنگ اور علی امین کی اجلاسوں اور جلسوں میں عدم شرکت پر مؤقف جاننے کے لیے ترجمان پی ٹی آئی کے پی عدیل اقبال سے بار بار رابطہ کیا گیا، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پی ٹی آئی اختلافات جنید اکبر گروپ سہیل آفریدی عاطف خان علی امین گنڈاپور عمران خان گروپنگ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی اختلافات جنید اکبر گروپ سہیل ا فریدی علی امین گنڈاپور گروپنگ وی نیوز سے ہٹائے جانے کے بعد علی امین گنڈاپور شرکت نہیں کی اور علی امین نے بتایا کہ علی امین کو پی ٹی آئی ہوئی تھی انہوں نے کے مطابق ہیں اور رہے ہیں سے کوئی پیش کش کے لیے

پڑھیں:

وثوق سے کہتا ہوں مقتدرہ پی ٹی آئی سیٹلمنٹ نہیں ہو سکتی: شیر افضل مروت

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے بانی پی ٹی آئی کو کہا تھا جتھے نہیں لا سکتا۔ سوشل میڈیا پر اداروں کیخلاف منفی پراپیگنڈا کیا گیا۔ پی ٹی آئی اب تو بہ بھی کر لے تب بھی شاید فائدہ نہیں ہو۔ سہیل آفریدی کو اس لیے لایا گیا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں۔ پورے وثوق سے کہتا ہوں مقتدرہ سے پی ٹی آئی کی سیٹلمنٹ نہیں ہو سکی۔ منگل کو بانی کی بہنیں بھی اڈیالہ نہیں جائیں گی۔ 35 ایم پی ایز نے علی امین کو کہا تھا کہ استعفیٰ دیدیں۔ سوشل میڈیا کے بہانے نے تحریک انصاف کی سیاست کو جلا کر رکھ دیا۔ خیبر پی کے میں گورنر راج لگا تو وہاں پی ٹی آئی میں بھی تبدیلی آئے گی۔

متعلقہ مضامین

  • علم کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں، تھرپارکر کے 79 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر نے قانون کی ڈگری حاصل کر لی
  • بانی کی بہنوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا، پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی
  • اپوزیشن اتحاد کا پارلیمانی پارٹی اجلاس، اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • وثوق سے کہتا ہوں مقتدرہ پی ٹی آئی سیٹلمنٹ نہیں ہو سکتی: شیر افضل مروت
  • علی امین گنڈاپور پارٹی سرگرمیوں سے غیر حاضر
  • ہم نے اپنے لیڈر کو پاکستان سے بڑا نہیں مانا، اس سے لا تعلق ہو گئے: ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • سخت ردعمل کیوں آیا؟‘ پی ٹی آئی رہنماؤں کا عمران خان کے بیانیے پر چونکا دینے والا اعتراف
  • علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد دورہ، سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے اہم ملاقاتیں
  • فرد اور ریاست کے تعلق کا مسئلہ