افغانستان کی دہشتگرد تنظیمیں امن اور سکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ، یورپی جریدہ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
یورپی جریدے یوریشیا ریویو نے افغانستان میں سرگرم دہشتگرد تنظیموں کو پاکستان اور پورے خطے کے لیے سنگین خطرہ قرار دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ روس اور وسطی ایشیا کے لیے بھی سکیورٹی چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں داعش خراسان سمیت دیگر انتہاپسند گروہ مسلسل مضبوط ہو رہے ہیں اور افغان سرحد سے ملحق وسطی ایشیائی ممالک میں اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں۔ روس نے بھی افغانستان میں دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر واسیلی نیبینزیا نے داعش خراسان کی سرگرمیوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کی جانب سے انسداد دہشتگردی کے اقدامات ناکافی ہیں۔ ان کے مطابق عسکریت پسند گروہ افغانستان میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں اور خود کو متبادل قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں روسی سکیورٹی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہشتگرد عناصر کے ہمسایہ ممالک میں داخلے کا خطرہ موجود ہے اور افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہوں کو بیرونی فنڈنگ بھی حاصل ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان بھی متعدد بار افغان طالبان سے مطالبہ کرچکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل افغانستان میں رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
دریائے ہلمند پر ایران افغان تنازع: طالبان رجیم دوستوں کو دشمن بنا رہی ہے
افغان طالبان حکومت اور ایران کے درمیان دریائے ہلمند کے پانی پر تنازعہ شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ایما پر افغان طالبان کی کارروائیوں سے پورا خطہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
نومبر 2025 میں ایران نے اعتراض کیا کہ گزشتہ برس دریائے ہلمند پر دونوں ملکوں کے مابین 1973 کے معاہدے کے خلاف صرف تقریباً 16 فیصد یعنی معاہدہ کردہ پانی کا بہت کم حصہ پانی ملا جو ناقابل قبول ہے۔ اس موقعے پر ایرانی دفترِ خارجہ نے مشترکہ تکنیکی کمیٹی بنانے کی بھی بات کی۔
اس پر افغان طالبان حکومت نے اپنے ردعمل میں دعویٰ کیا کہ پانی کی کمی خشک سالی اور پانی کی قدرتی کمی کی وجہ سے ہے، اور وہ ’ممکنہ حد تک‘ معاہدے پر کاربند ہیں لیکن ایرانی میڈیا نے طالبان کے ایک سینیئر وزیر کو ’گمراہ کن بیانات‘ دینے پر تنقید کی ہے اور ایران نے کہا ہے کہ اگر پانی فراہم نہ ہوا تو وہ سفارتی و سیاسی ذرائع استعمال کرے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان دریائے کابل کا پانی روکنے کی پاکستان کو بھی اس طرح کے دھمکیاں دے چکا ہے لیکن اس روّیے سے افغانستان اپنے قابل اعتبار پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بگاڑ کر اپنے لیے معاملات خراب کر رہا ہے۔
دریائے ہلمند تنازع کیا ہے؟ہلمند دریا افغانستان کا سب سے طویل دریا ہے جو ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر جنوب مغرب کی سمت بہتا ہوا بالآخر ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں واقع ہَمون جھیلوں کو پانی فراہم کرتا ہے۔
دونوں ممالک یعنی ایران اور افغانستان کے درمیان اس دریا کے پانی کی تقسیم کے لیے سنہ 1973 میں ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت افغانستان نے ایران کو سالانہ تقریباً 820 ملین مکعب میٹر پانی دینے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھیے: ایران نے افغانستان کے ساتھ بارڈر سیل کرنے کا بڑا فیصلہ کیوں کیا؟
تاہم اس معاہدے کے باوجود کم بارش، طویل خشک سالی اور افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کو موڑنے والے منصوبوں کی وجہ سے ہلمند کے بہاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی جس میں کاجکی ڈیم اور کمال خان ڈیم خاص طور پر نمایاں ہیں۔
نتیجتاً ایران کے سرحدی علاقوں، خصوصاً صوبہ سیستان و بلوچستان میں آبی قلت پیدا ہوئی جس سے زراعت، مقامی معیشت اور ماحولیاتی نظام شدید متاثر ہوئے، ہَمون جھیلیں بڑی حد تک خشک ہو گئیں اور مقامی آبادی و مویشی پالنے والوں کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان حکومت ایرانی پانی کے حقوق دانستہ پامال کر رہی ہے، افضل رضاپاکستان میں ایرانی خبر رساں ادارے اِرنا کے بیوروچیف افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ افغان طالبان رجیم ایران کے پانی کے حقوق کو دانستہ طور پر بار بار تاخیر کا شکار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں افغانستان اور ایران کے درمیان پانی کا یہ تنازع اِس طرح سے نہیں تھا لیکن افغان طالبان رجیم ایران کو نیچا دِکھانے کے لیے ایسا کر رہی ہے حالانکہ ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے سیستان بلوچستان کے دورے کے دوران طالبان کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ طالبان کو اپنا روّیہ درست کر کے اس طرح کی حرکتوں سے باز آنا چاہیے۔
افضل رضا نے کہا کہ اسی پانی کے مسئلے کی وجہ سے ایرانی وزیرخارجہ آغا عباس عراقچی نے حال ہی میں کابل کا دورہ بھی کیا تھا جس میں اُنہوں نے افغانستان سے کہا کہ ہمارے پانی کے حقوق کو متنازع نہ بنائیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے پشدان ڈیم پراجیکٹ پر ایران کے کیا تحفظات ہیں؟
انہوں نے کہا کہ گو کہ ایران نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ہمسائیگی اور مشترکہ سرحد کی وجہ سے اور خاص طور پر افغانستان کے عوام کا خیال کرتے ہوئے ایران کوئی راست قدم نہیں اُٹھانا چاہتا۔
افضل رضا نے بتایا کہ ایرانی حکومت اِس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اِس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان طالبان رجیم پاکستان کے خدشات کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن ایران اپنے حقوق کے لئے کوئی بھی قدم اُٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اکتوبر 2025 پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی کشیدگی سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم لگ بھگ 2 ارب ڈالر جبکہ ایران اور افغانستان کے درمیان چار ارب ڈالر تھا۔ افغانستان اپنی زیادہ تر ضروریات کے لیے اِنہی 2 پڑوسی ملکوں پر انحصار کرتا آیا ہے اور ہر قسم کے جنگی حالات میں اِنہی 2 ملکوں نے افغانستان کے مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے بند ہونے کے بعد افغانستان کی تجارت کا زیادہ انحصار ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر بڑھ گیا ہے لیکن افغانستان اپنے ان دو پڑوسی ملکوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دینے جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان ایران ایران افغانستان تنازع دریائے ہلمند