Jasarat News:
2025-12-11@06:39:42 GMT

جھگڑے کے مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اس کو نورا کشتی تو نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ لیکن کیونکہ یہ ایک استاد اور اسی کے ہاتھوں پر پلے پلائے ڈھلے ڈھلائے سیاسی گروہ کی لڑائی ہے لہٰذا سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہونا چاہیے؟ کچھ کچھ جیسے نورا کشتی کی سی کیفیت لگتی ہے اور دونوں طرف سے کچھ کچھ مقاصد لگتے ہیں اس لڑائی کے جس کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور دونوں طرف سے الفاظ کا استعمال اور گفتگو نامناسب سی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے، حالانکہ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا!! ایک سیاسی جماعت جو کہ اس لڑائی میں ایک فریق ہے اس کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کا ایک بڑا ادارہ اور ان کی سیاسی جماعت کے کچھ لوگ آپس میں لڑ پڑے ہیں یعنی پوری تحریک انصاف لڑائی کرنا نہیں چاہتی صرف کچھ لوگ ہیں۔۔ وہ کیوں لڑ پڑے ہیں؟ اس کی وجہ تو بس یہی سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی۔ یعنی بات اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس طرح کے الفاظ اور گفتگو کی جائے، بڑے ادارہ جس کا نام لیتے ہوئے زبان جلتی ہے پر جلتے ہیں انہوں نے بھی جو باتیں کہی ہیں اور ایک جماعت کو ٹارگٹ کیا ہے یہ سیاسی دھول اُڑانے کی کوشش محسوس ہورہی ہے۔ وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ حالات اس طرح کے بنا دیے جائیں کہ سارا کا سارا میڈیا سوشل میڈیا سے لے کے الیکٹرونک میڈیا اسی بات کو لے کر زبردست بحث اور گفتگو شروع کر دیں اور سارے اینکرز ٹاک شوز میں اس بات کے پیچھے پڑ جائیں اور گفتگو کرنے لگیں اس کے مقابلے میں وہ ایک مثبت سیاسی سرگرمی جو ملک میں کی گئی یعنی جماعت اسلامی کا اجتماع عام اس کو کسی بھی فورم کسی بھی پروگرام میں اس طرح گفتگو کا موضوع نہ بنایا جا سکے۔ زرا سوچیں!!

لاہور کا جلسہ عام بہت سارے نکات اپنے اندر رکھتا تھا جس پہ بات کی جانی چاہیے ایک ہی نقطہ دیکھ لیں خواتین کی اتنی بڑی تعداد اپنے آرام دہ گھروں سے نکل کر اس میں شریک ہوئی اور نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ کامیاب خواتین کانفرنس منعقد کی جس میں دنیا سے لوگ شریک ہوئے خواتین عملی میدان میں ایک نمایاں کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں مغرب کی گوری نے مشرقی عورت کو زندگی کے وہ ڈھنگ سکھائے، جو وہ بھول رہی تھی کیا یہ نقطہ اہم نہیں؟ دوسرے نکات اس سے بہت زیادہ اہم ہیں انٹر نیشنل سطح پر پوری دنیا کے مسلم راہ نما شریک ہوئے کانفرنس ہوئی۔۔ افراد اتنی بڑی تعدا د میں جس کے بارے میں کہا گیا کہ لاکھوں کی تعداد کا مجمع تھا اور جن کے لیے انتظام کیا گیا تھا ان سے زیادہ تعداد نے شرکت کی۔۔ سردی کا موسم اور وہ بھی لاہور کی سردی لوگوں نے ہنسی خوشی ہنستے کھیلتے برداشت کی کسی قسم کی افراتفری نہیں کوئی چھینا جھپٹی نہیں کوئی مار کٹائی نہیں کوئی ریاست کا اس کی چیزوں کا نقصان نہیں کوئی کوڑا کرکٹ نہیں کسی قسم کی باتا باتی نہیں محبت خلوص اور اعتماد کے ساتھ لوگ جمع ہوئے مختلف صوبوں میں رہنے والے مختلف برادریوں مختلف قبائل کے لوگ ایک چھت کے نیچے کھانا پینا سونا جاگنا وضو اور غسل خانوں کا استعمال۔۔۔ پھر ان کو خوش امدید کہنے والے لاہور کے لوگ جنہوں نے بہت ہی خوش آئند طریقے سے ان کی مہمان نوازی کی، ہر طرح سے خیال رکھا، محبت اور پیار سے دلوں کو موہ لیا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہ بات کی جانی چاہیے تھی ہلکی پھلکی نہیں۔۔ مختلف زاویوں سے دیر تک اور دور تک۔۔۔ کہ جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہمیشہ سے رہی ہے جو بہت منظم ہے اور اس کے اپنے ہوں یا غیر سب ہی اس بات کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں رکھتے کہ جماعت اسلامی بہت منظم جماعت ہے وہ ہی اتنے بڑے جلسے عام کا بہترین طریقے سے انتظام کرنے کی اہل ہے اور اس پہ میڈیا پہ بات ہونی چاہیے دیگر جماعتوں کو اس سے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ بھی جب اپنے پروگرام کریں تو ان کے ہاں بھی وہ عوام کو منظم کریں اور لڑائی جھگڑے ناچ گانے کے بغیر لوگوں کو جمع کر سکیں۔۔ کسی قسم کے پیسے کی لالچ کے بغیر انہیں جمع کر سکیں ہمارے ہاں تو ہر طرح کے سیاسی پروگراموں میں لوگوں کو پیسے دے کر جمع کیا جاتا ہے کوئی دھرنا ہو یا جلسے بعد میں لفافوں کی ویڈیو تصاویر اس کا ثبوت ہے۔ تین دن جماعت اسلامی نے بغیر کسی غیر کی فنڈنگ کے عوامی فنڈ سے اتنا بڑا پروگرام کیا۔

پھر اب مسئلہ یہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے پنجاب کے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنوں کا اعلان کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے نئے بلدیاتی قانون میں تمام اختیارات بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کو دے دیے گئے ہیں۔ حافظ صاحب نے نواز شریف سے براہ راست سوال کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ کس جمہوری نظام میں غیر جماعتی انتخابات ہوتے ہیں؟؟ انہوں نے ماضی میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی لگایا تھا لیکن اس کے باوجود وہ فارم 47 سے اسمبلی میں آگئے اور پھر وہ نواز شریف سے پوچھتے ہیں کہ بتائیں کہ اگر وہ جمہوریت نواز ہیں تو پنجاب میں گزشتہ 10 برسوں سے بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے؟ اور اب نیا قانون جو بنایا گیا ہے تو اس کے تحت عوام کو مکمل طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے حالانکہ مقامی سطح پر اختیارات کی منتقل کرنا چاہیے۔

بات یہ ہے کہ نیا قانون دراصل ملک کے نظام پر بیورکریسی اسٹیبلشمنٹ اور خاندانی سیاسی پارٹیوں اور چند جاگیردار اور وڈیروں کا قبضہ مزید مستحکم کرنے کے لیے ہے بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی حقیقی مسائل پر آواز اٹھاتی ہے تو میڈیا پر ٹاک شوز میں پذیرائی نہیں دی جاتی بلکہ ایک ایسے ایشو پر جو بظاہر صرف ملاقات کا معاملہ تھا اور ملاقات کروا کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا اس کو میڈیا کی پھکنی سے پھلا کر بڑا بنایا جا تا ہے بلکہ بہت بڑا بنایا جا تا ہے اور پھر اب چوراہوں پر پھوڑا بھی جا رہا ہے سو چھینٹے بھی پڑیں گے اور بدبو بھی ہو گی۔

غزالہ عزیز سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی اور گفتگو نہیں کوئی ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

3 کروڑ ووٹ لینے والی جماعت کو الگ کرنے سے کیا جمہوریت بچائی جاسکتی ہے؟ بیرسٹر گوہر کا سوال

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اگر 3 کروڑ ووٹ لینے والی بڑی سیاسی جماعت کو اس عمل سے الگ کر دیا جائے تو کیا جمہوریت بچائی جاسکتی ہے۔

ہم اس نظام کا حصہ بننا چاہتے تھے اور اس میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا بلکہ ہمارا مقصد جمہوریت تھی، انہوں نے کہا کہ کچھ بہتر ہے نہ ہونے سے، اسی مقصد کے لیے ہم یہاں آئے ہیں، لیکن کچھ لوگ شاید یہ نہیں چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے بیرسٹر گوہر کو چیئرمین پی ٹی آئی تسلیم کرنے سے انکار کردیا

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جمہوریت وہ ہے جہاں عوام حصہ لیتے ہیں، اگر عوام حصہ نہیں لیتے تو اسے جمہوریت یا ہائبرڈ کہا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم 3 کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں، 25 کروڑ لوگوں میں سے 12 کروڑ ووٹر ہیں، جن میں سے 6 کروڑ نے ووٹ دیا اور ان میں سے 3 کروڑ ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں آئے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر 3 کروڑ ووٹ لینے والی بڑی سیاسی جماعت کو اس عمل سے الگ کر دیا جائے تو کیا جمہوریت بچائی جاسکتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نے کل ان سے کہا کہ یہ کاروباری دنیا نہیں ہے، اگر آپ 2 میں سے ایک کو مائنس کریں تو ایک بچے گا، اگر ہمیں مائنس کیا گیا تو یہ بھی نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے وزرا نے وعدہ کیا تھا کہ سیاسی صورتحال محفوظ ہوگی، لیکن یہ سب غلط ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر گوہر کی خاص شخصیت سے ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ اہم انکشافات

انہوں نے کہا کہ کل صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں ایک دوسرے کے خلاف درجہ بندی کی جارہی ہے اور پوشیدہ الفاظ میں، بغیر نام لیے، پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہمارے دستخط تسلیم نہیں کیے گئے، ہمارے سنیٹرز کو پارٹی میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی، ہماری مقامی حکومت کو قبول نہیں کیا گیا اور ہماری ریزرو نشستوں کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بس اب کافی ہے اور میں وہ معلومات آپ تک پہنچا رہا ہوں جو میں جانتا ہوں۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ایک ماہ میں وہی صورتحال دہرائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس پر محتاط ردعمل کیوں دیا؟ بیرسٹر گوہر کے خلاف پی ٹی آئی کے اندر محاذ کھل گیا

انہوں نے اسپیکر کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اسپیکر ایاز صادق نے مشکل وقت میں اقدامات کیے ہیں، لیکن بعض اوقات غیر معمولی اقدامات کرنا ضروری ہوتے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ عوام عدلیہ سے مایوس ہیں اور جب انتخابات 90 دن میں ہونے والے تھے تو ہم نے کہا کہ غیر معمولی حالات ہیں اور غیر معمولی اقدامات کریں، لیکن تکنیکی کارروائیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوا، ہم 26ویں ترمیم کے وقت بھی عدالت گئے کہ غیرمعمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار ٹی وی، میڈیا اور پریس کانفرنسز میں کہا کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ضروری ہیں، اور یہ نہ ہونا ملکی معیشت اور قوم کے لیے نقصان دہ ہے لیکن نہیں لیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: گارنٹی دیتے ہیں پارلیمنٹ پر حملہ آور نہیں ہوں گے، بیرسٹر گوہر کا قومی اسمبلی میں خطاب

انہوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ اگر آپ کے والدین جیل میں ہوں تو بچے کب تک آپ کے ساتھ فنکشنز بناتے رہیں گے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر واٹر کینن کے استعمال کی شدید مذمت کی اور کہا کہ خان کی بہن موجود تھی، واٹر کینن کو اس طرح استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی کچھ امور کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور اس سلسلے میں میں نے اپنا راستہ ہٹایا اور کچھ درخواستیں بھی کیں تاکہ صورتحال معمول پر آئے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہماری طرف سے جو بھی ہو سکتا ہے، ہم تیار ہیں، لیکن اگر عوام کے ساتھ واٹر کینن اس طرح استعمال ہوتا رہا تو یاد رکھیں، جب عوام بولتی ہے، عوام جب اٹھی ہے تو دنیا دیکھے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اڈیالہ جیل بیرسٹر گوہر پابندی پی ٹی آئی علیمہ خان عمران خان واٹر کینن

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی فاشسٹ اور شرپسند جماعت، اس پر پابندی کا فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا، عطاتارڑ
  • کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں، گورنر راج ہماری خواہش نہیں، بلاول بھٹو
  • 3 کروڑ ووٹ لینے والی جماعت کو الگ کرنے سے کیا جمہوریت بچائی جاسکتی ہے؟ بیرسٹر گوہر کا سوال
  • پی پی کسی سیاسی جماعت پر پابندی کی حامی نہیں نہ کسی کو غدار سمجھتی ہے، شرجیل میمن
  • سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہ کسی کو غدار سمجھتے ہیں، شرجیل میمن
  • ملک میں ایک سیاسی جماعت سیاسی دجال کا کام کر رہی ہے، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو
  • پی ٹی آئی والے ابھی کسی غلط فہمی میں ہیں: طلال چوہدری
  • کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن
  • مسجد کےلیے مختص زمین پر قبضہ کرکے رہائشی مقاصد کےلیے استعمال کیےجانے کا انکشاف