اسلام آباد:پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ صدق دل سے مذاکرات کر رہے تھے، پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے بنی ہی نہیں، ان کے خمیر اور ڈی این اے میں منفی سیاست ہی رچی بسی ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی عدم استحکام نہیں ہے، پاکستان اپنے ٹریک، حکمت عملی اور منصوبے کے ساتھ طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سال بھر پہلے کا پاکستان آج بہت اچھا ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی بات کریں تو ایوب خان کے خلاف بھی تحریک اٹھی تھی، جس سے انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا، اس وقت ایک بحران بھی تھا، تحریک بھی تھی اور سخت احتجاج بھی تھا۔ اس کے بعد سقوط ڈھاکہ ہوا، مشرقی پاکستان میں ایک طوفان اٹھا اور اس کا ایک حصہ الگ ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ایک بحران پیدا ہوا اور یہ بحران ہمیں مارشل کی جانب لے گیا، ان تحریکوں کا اپنا اپنا پس منظر، پیش منظر اور نتائج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ایسی کوئی تحریک نہیں ہے، بار بار مطالبوں، بار بار لوگوں کو آواز دینے کے باوجود لوگ نہیں نکل رہے ہیں، صوابی کا جلسہ آپ اپنا ’نوحہ‘ بن کر رہ گیا ہے، بار بار کوشش کر لی، 9 مئی کر لیا، اڑھائی سو جگہوں پر حملے کر لیے، فائنل کال دے دی، خطوط لکھ دیے، جی ایس ٹی رکوانے کے لیے یورپ پر دباؤ بھی ڈال دیا، کیا اب بھی کچھ باقی بچا ہے؟
عرفان صدیقی نے پھر کہا کہ عدم استحکام کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، چاروں صوبوں میں حکومتیں چل رہی ہیں، معیشت بہتر ہو رہی ہے، پی ٹی آئی والے پھر کوئی شوق پورا کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں، سڑکیں کھلی ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت جس دہشتگردی کا ملک کو سامنا ہے وہ پی ٹی آئی کے دور میں ملک میں لا کر بسائے گئے 5 سو دہشتگرد ہیں، جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ جہاں تک پی ٹی آئی کے ساتھ کسی سیاسی الائنس کی بات کا سوال ہے تو مجھے یقین ہے کہ جہاں تک ہم مولانا فضل الرحمان اور ان کے والد مرحوم کی سیاست کو جانتے ہیں تو وہ کبھی بھی تخریب کاری کی سیاست نہیں کریں گے، کسی 9 مئی کا حصہ نہیں بنیں گے، ملک کے اداروں کے خلاف نہیں جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کسی کو ڈوزیئر لکھنے کا حصہ نہیں بنیں گے، اپنی گندی سیاست کے کپڑے کسی اور جگہ دھونے کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم اگر جمہوری انداز میں کوئی الائنس بنتا ہے تو وہ ٹھیک ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم صدق دل سے چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی مثبت سیاست کی جانب بڑھے اور ملک میں افراتفری والا ماحول ختم ہو۔
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ جماعت مذاکرات کے لیے نہیں بنی، اس کے جوہر اور خمیر کے اندر، اس کے ڈی این اے کے اندر مذاکرات کرنا، بات چیت کرنا، مکالمہ کرنا، افہام و تفہیم کرنا، لے دے کرنا، پارلیمان کے اندر کردار ادا کرنا ہی شامل نہیں ہے، پی ٹی آئی کے ڈی این اے میں وہی ہے جس کا انہوں رمضان کے بعد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہم آج بھی دروازے کھول کر بیٹھے ہیں تاہم ہم کسی کو پکار نہیں رہے ہیں، آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، وزیر اعظم کو بھیج دوں گا، اس کا یہی مطلب ہے کہ آرمی چیف سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عرفان صدیقی نے کہا پی ٹی ا ئی کے مذاکرات کے ڈی این اے نے کہا کہ نہیں ہے کے ساتھ رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان