یوکرین سے پاکستان کے لیے سبق
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
یوکرینی صدر اور امریکی صدر و نائب صدر کے درمیان اوول آفس میں جو کچھ ہوا ہم سب نے دیکھا۔ اس کے بعد ہم نے لندن میں یورپ کو یوکرین کے لیے متحد بھی دیکھا ہے۔ یورپ کے تمام ممالک نے یوکرین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد کبھی بھی یورپ کو دفاع کے لیے کچھ کرنا ہی نہیں پڑا۔ نیٹو کے بعد دفاع کی تمام ذمے داری امریکا نے اٹھا لی۔ لیکن اب امریکا یورپ کے دفاع کی ذمے داری اٹھانے سے انکار کر رہا ہے۔ امریکا یورپ کے دفاع پر پیسے لگانے کو تیار نہیں۔ ایسے میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ یورپ کو اپنے دفاع کی فکر بھی پڑ گئی ہے ۔
یہ سب صورتحال اپنی جگہ۔ ہم سب اس کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ یورپ اپنے دفاع کے لیے کیا فیصلے کرتا ہے۔ یہ اگلے چند دنوں میں پتہ بھی چل جائے گا۔ امریکا کے بغیر یورپ کیسے چلے گا۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔ لیکن ابھی بات یوکرین کی ہے۔ پاکستان اس بات کو دیکھ چکا ہے۔ 1971کی جنگ میں ہم نے بھی دیکھا تھا کہ اپنی جنگ آپ کو خود ہی لڑنی پڑتی ہے کوئی آپ کی مدد کو نہیں آتا ہے۔ ہم بھی ساتویں جنگی بیڑے کے انتظار میں دو لخت ہو گئے تھے۔ اس لیے بیرونی امداد پر جنگ لڑنا کوئی آسان نہیں۔ دوست کبھی بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، ہر ملک اپنے مفادکے تابع ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کا ساتھ کسی بھی وقت چھوڑ سکتا ہے۔ یوکرین کو بھی اس وقت ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
ہمیں یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ 2014میں یوکرین دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت تھا۔ اس کے پاس بڑے ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ ان ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں یوکرین کا دفاع ناقابل تسخیر تھا۔ آج جو یوکرین اپنے دفاع کے لیے دنیا کے بڑے ممالک کے آگے بھیک مانگ رہا ہے۔
جب یوکرین کو آزادی ملی تو یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ تھا۔ آج جس یوکرین کے ساتھ دنیا ہتک آمیز سلوک کر رہی تھی اسی یوکرین کے پاس ایک نہیں دو نہیں بلکہ 1900اسٹرٹیجک وار ہیڈز موجود تھے۔ اسی کے ساتھ یوکرین کے پاس 176بین البراعظمی بیلسٹک میزائیل موجود تھے۔ 44اسٹرٹیجک بمبار بھی موجود تھے۔ اس کے ساتھ یوکرین کے پاس مزید ایٹمی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی بھی موجود تھی۔ یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں۔ آج بھی برطانیہ اور فرانس کے پاس اس سے کم ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایٹمی ہتھیار ہونا ہی کافی ہے، کہاں کہ آپ کے پاس دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہو۔
دنیا نے یوکرین کو اس کے دفاع کی گارنٹی دیکر اس کے ایٹمی اثاثے واپس لے لیے۔ ویسے تو یہ سب ایٹمی ہتھیار ایک معاہدہ کے ساتھ روس کو واپس کیے گئے اور وہی روس آج یوکرین پر حملہ آور ہے۔ روس نے یہ سب ایٹمی ہتھیار لیتے وقت یوکرین کو دفاع اور معاشی ایڈ کی گارنٹی دی تھی۔ کیا تب یوکرین کو اندازہ تھا کہ جس روس کو وہ اپنے تمام ایٹمی ہتھیار دے رہا ہے وہ ایک دن اس کو ختم کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے درپے ہوگا۔ لیکن یوکرین نے یہ ایٹمی اثاثے صرف روس کی گارنٹی پر ختم نہیں کیے تھے۔
امریکا، نیٹو اور پورے یورپ نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی تھی۔ آج وہی امریکا یوکرین کے دفاع سے جان چھڑا رہا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ جن ضمانتوں پر یوکرین نے اپنی ایٹمی طاقت دی تھی، وہ گارنٹیاں آج نہیں ہیں اور ایٹمی اثاثے بھی نہیں ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں جس ملک کے پاس دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہوتا اس کے صدر کے ساتھ اوول آفس میں ایسا ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک ممکن ہے۔ کیا وہ ایسی صورتحال کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس لیے آج سب کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کا ایٹمی اثاثے دینا ایک غلطی تھی۔ یہ ہمارے لیے ہی نہیں پوری دنیا کے لیے سبق ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت پر بھی بہت حملے ہو چکے ہیں۔ ہمارے کئی دوست یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہمیں بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ یہ ایٹمی طاقت ہمیں کھانے کو روٹی نہیں دے سکتی۔ ہم بم کھا تو نہیں سکتے۔ ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں ہم روز نئے میزائل کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہی پیسے ملک کی معیشت پر لگانا چاہیے۔ یہ دوست یوکرین کی مثال سامنے رکھیں اور سمجھیں کہ ناقابل تسخیر دفاع کتنا اہم ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب 1998میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکی صدر نے ان ایٹمی دھماکوں کو روکنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پانچ فون کیے تھے۔ پانچ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نے دباؤ اور پیشکش دونوں ہی مسترد کر دیے تھے اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ آج اسی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں ایک ایٹمی ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی ایٹمی طاقت کی وجہ سے اب پاک بھارت جنگ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس دوران پاکستان اور بھارت دونوں کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن پاکستان کی ایٹمی طاقت نے جنگ کو روکا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ میں پاکستان کی ایٹمی طاقت کی کیوں بات کر رہا ہوں۔ اس لیے کیونکہ بھارت نے تو ہم سے کئی سال پہلے 1974میں ایٹمی دھماکا کر لیا تھا۔ پاکستان نے 1998میں کیا۔ 1998میں بھارت نے دوسرا ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ جس کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی دھماکا کرنے کا موقع ملا۔
آج دنیا کے حالات بتا رہے ہیں کہ 1998میں عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنا پاکستان کا بہترین مفاد تھا۔ آج ہم اسی وجہ سے محفوظ ہیں۔ اوول آفس میں جو ہوا وہ باقی دنیا کے لیے بھی اہم ہے۔ دنیا کے جو ممالک آج ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دنیا ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کریں۔ لیکن یوکرین کی صورتحال سبق دے رہی ہے کہ دنیا کی گارنٹی کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ نے اپنا دفاع خود ہی کرنا ہوتا ہے کوئی آپ کو اپنے دفاع کی ضمانت نہیںدے سکتا۔ کوئی بھی دفاعی معاہدہ دفاع کا ضامن نہیں۔
اوول آفس کے واقعہ کے بعد دنیا کافی حد تک بدل گئی ہے۔ یورپ میں سوچ بدل رہی ہے، یورپ اور امریکا کے درمیان فاصلے بھی نظر آرہے ہیں۔ یورپ کو بھی اپنے دفاع کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ آج امریکا ان کے دفاع کی ذمے داری بھی اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ ممالک اب اپنے دفاع پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اب پاکستان پر میزائل پروگرام پر دباؤ ہے۔ لیکن سبق یہی ہے کہ تمام تر دباؤ کو نظر اندازکرتے ہوئے میزائل پروگرام کو آگے بڑھانا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوکرین کے پاس ایٹمی اثاثے یوکرین کو ا ایٹمی طاقت کے دفاع کی موجود تھے کی گارنٹی اپنے دفاع رہے ہیں یورپ کو دنیا کے کے ساتھ اس لیے کے بعد کوئی ا کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
بجٹ 26-2025 پیش، سولرپینلز کی درآمدات پر 18فیصد ٹیکس کی تجویز، دفاع کیلئے2 ہزار 550 ارب روپے مختص
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہنا تھا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا میاں محمد نواز شریف ، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر، یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی، میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بجٹ 26-2025 کے اہم خدوخال
کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے 8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 14131 ارب روپے نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے رکھے گئے ہیں ملکی دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے رکھنے کی تجویز بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے مختص گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے مختص جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے کی تجویزان کا کہنا تھا کہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا، جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا، اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اُسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے، ایک ایسے پاکستان کی طرف جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے، اور قوم بحیثیت مجموعی خوشحال ہو، راہ پر قائم، خوشحالی دائم یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جناب اسپیکر ! ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول۔ افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع روپے کی قدر میں استحکام۔ ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، ہم پر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے، موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی بہتری کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے، ہمارے مائیکرو اکنامک اسٹیبلائزیشن پروگرام کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاگیا، اسی طرح گلوبل فنانشل ادارے، ریٹنگ ایجنسیز اور ملکی و غیر ملکی سروے معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہے ہیں۔
اسی طرح پی ڈبلیو سی کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد 49 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اسی اعتماد کی بازگشت اورسیز چیمبرز کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں بزنس کانفڈینس انڈیکس میں تاریخی بہتری آئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گیلپ کےمطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے، موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر فنڈنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔
ایف بی آر ریفارمز
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی، پاکستان کی ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ 10 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔
مزید برآں، ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے، یہ صورت حال ناقابل قبول تھی، اس خلا کو پُر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا، اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر اصلاحاتی پلان کا آغاز کیا گیا، یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد 3 ستونوں پر ہے، (عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی)۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔
بزنس ٹو بزنس لین دین کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ملک گیر (ای انوائسنگ) کا اجرا سیلز اور انکم کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی آڈٹ سلیکشن سسٹم کی شمولیت اشیاء کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے (ای-وے بلنگ) کسٹمز میں ملی بھگت کا خاتمہ کرنے کے لیے فیس لیس آڈٹ نظام کا قیام افسران کے لیے ڈیجیٹل ورک فلو اور بروقت ریگولیٹری انتباہات ایک نیا سینٹرل کنٹرول یونٹ جو تمام ڈیٹا کی مرکزیت فراہم کرے جدید ٹیکنالوجی لانے کے لیے مینڈیٹ کے ساتھ (پیرل بورڈ) کی تشکیل نو ہوچکی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جب کہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے مہارت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو انعامات محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج نہایت حوصلہ افزا رہے ہیں:
چینی کے شعبے سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ہوا ڈیٹا انٹیگریشن کے ذریعے 3 لاکھ 90 ہزار ہائی ویلیو نان فائلرز کی نشاندہی ہوئی، جس سے 30 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہوئی فراڈ اینالیٹکس کے ذریعے 9.8 ارب روپے کے جعلی رقم کی واپسی کے دعوؤں کو بلاک کیا گیا۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی آڈٹ سسٹم کے تحت 200 سے زائد کیسز کی نشاندہی کی گئی جن کی مالیت 13.3 ارب روپے سے زیادہ ہے فیس لیس کسٹم آڈٹ کے ذریعے قانون پر عمل پیرا امپورٹرز کو سہولت فراہم کی گئی فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور محاصل 45 ارب سے بڑھ کر 105 ارب روپے تک پہنچ گئےان کا کہنا تھا کہ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی، یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن، خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے، یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے، دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے، جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال ایف بی آر نے کامیاب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے 78.4 ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں، اس اہم کامیابی پر میں قانونی ٹیم اور معزز عدلیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اس کے علاوہ عدالتوں میں اے ڈی آر سے متعلق ایک مقدمے کو مذاکراتی تصفیہ کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔
انرجی ریفارمز
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے پاور سیکٹر کے شعبے کی اہمیت مسلمہ ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملکی صنعت کے لیے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ مستحق اور پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر بھی نظرثانی کی ہے جس کے نتیجے میں 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہوگی، اس طریقہ کار پر عمل کرکے ہم ماحول کے لیے نقصان دہ 3 ہزار میگاواٹ گنجائش سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ مستقل بنیادوں پر بہتری لانے کے لیے پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں، ہم نے آگے بڑھتے ہوئے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی 3 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا تقریباً آدھا عمل مکمل کر لیا ہے اور ان کی نجکاری کے تمام ضروری لوازمات پورے کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے این ٹی ڈی سی کو موثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے 3 نئی کمپنیوں میں تقسیم کردیا ہے، یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ اِن اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پروفیشنل بورڈز کے سپرد ہے، ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے، پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ انشااللہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جب کہ بجلی کے شعبے میں مسابقتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جب کہ اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کیے گئے ہیں اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے اور 9 ہزار میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار کے ایسے تمام پلانٹس کو بند کر دیا ہے جو جنریشن کمپنیوں کی شکل میں سرکاری ملکیت میں تھے، ان پلانٹس کے فالتو آلات کی فروخت کا عمل شروع ہو گیا ہے تا کہ ان اداروں کے باعث ملکی خزانہ پر 7 ارب روپے سالانہ سے زائد کے بوجھ کا خاتمہ ہو سکے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں ہدف پر مبنی اصلاحات کیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ، اور اسٹریٹیجک تنوع کے بل بوتے پر نمایاں ترقی ہوئی ہے جب کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے شعبے میں مسابقتی بولیوں میں خاص طور پر ترک پیٹرولیم سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی خاصی دلچسپی رہی، جو طویل عرصے کے بعد آن شور سیکٹر میں قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آف شور ایکسپلوریشن بڈ 2024 کا آغاز ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد عمل میں آیا، جس سے آف شور سیکٹر میں ای اینڈ پی سرگرمی بحال ہوئی جب کہ تیل اور گیس کی کی متعدد دریافتوں سے درآمدات کے متبادل میں مدد ملی اور انرجی سیکیورٹی میں بہتری آئی، ای اینڈ پی کمپنیوں نے مستقبل میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جب کہ پہلے سے رواں فیلڈز پر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔ پیٹرولیم پالیسی 2012 ٹائٹ گیس پالیسی میں ترامیم، مناسب قیمتوں سمیت متعدد پالیسی اصلاحات سے مسابقت میں بہتری آئی۔
انہوں نے کہا کہ ریفائننگ اور ڈاؤن اسٹریم سیکٹر میں پاکستان ریفائنگ پالیسی 2023 کے ذریعے تحرک دیکھنے میں آیا ہے، جس سے یورو-وی اپ گریڈز اوراستعداد میں توسیع لانے میں معاونت ملی، ایندھن کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی جانب اقدامات کا مقصد مسابقت اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں، حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی اور اس منصوبے کی متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلوز حاصل ہوں گے جب کہ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔
مزید کہا کہ منصوبے سے کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری ماحولیاتی حفاظتی اقدامات اور معاونت کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے جب کہ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریکوڈک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل وحمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔
قبل ازیں، قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر ایوان میں پہنچ گئے، پی ٹی آئی اراکین نے ہاتھوں میں احتجاجی پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں، جن پر عمران خان کی رہائی کے نعرے درج ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو ہوئے کہا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہونا چاہیے، بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔
اس موقع پر رانا ثنا اللہ سے صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ تو عوامی لیڈر ہیں عوام آپ سے کیا توقع رکھے؟ جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں وزیر خزانہ کے لیے رہنے دیں، انشاء اللہ بہتر ہوگا، بجٹ تقریر سے پہلے کچھ نہیں بتا سکتا۔
قبل ازیں، وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی تھی، جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی بجٹ میں نان فائلرز کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی کیش خریداری کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جبکہ ہر قسم کی کیش خریداری پر بھی اضافی ٹیکس کی تجویز ہے۔
مزیدپڑھیں:شاہ اللہ دتہ کے غاروں کے تحفظ اور ڈویلپمنٹ کے منصوبہ کے لئے 32.074ملین روپے مختص