چیف جسٹس بلاک حملہ کیس؛ تمام 36 وکلاء کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک پر حملے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام 36 وکلاء کے خلاف جاری توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی۔
قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے 8 فروری 2021 کے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک پر حملہ کیس کی سماعت کی۔
مقدمے میں ملوث وکلاء کے بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے۔ وکلاء کی جانب سے ممبر اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی، بابر اعوان اور بارایسوسی ایشن کے عہدیداران عدالت میں پیش ہوئے۔
عادل عزیز قاضی نے دلائل میں کہا کہ 2021 کا کیس ہے، آخری سماعت پر عدالت نے بیان حلفی مانگے تھے جو جمع کروا دیے گئے تھے، اسلام آباد بار کونسل سے بھی کیس ڈسچارج ہوگیا تھا۔
ایڈووکیٹ بابر اعوان نے کہا کہ ایک واقعہ ہوا جو ہڑتال کی وجہ سے ہوا لیکن پولیس نے کچھ زیادہ ہی بنا دیا، پانچ سال سے زائد ہوگیا کیس چل رہا ہے، اب ختم کر دیا جائے۔
کیس میں سابق صدر ہائیکورٹ بار راجا زاہد سمیت دیگر وکلاء شامل تھے جبکہ سابق سیکرٹری تصدق حنیف کو عدالت پہلے ہی ڈسچارج کر چکی ہے۔
ہائیکورٹ بار کا اعلامیہ
ہائیکورٹ حملہ کیس میں وکلاء کے خلاف توہین عدالت کارروائی ختم ہونے پر ہائیکورٹ بار نے اعلامیہ جاری کر دیا۔ اعلامیہ چوہدری منظور احمد حجہ سیکرٹری اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے جاری کیا۔
اعلامیے کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد بار کے معزز وکلاء کے خلاف میرٹ پر توہین عدالت کی تمام کارروائیوں کو خارج کر دیا۔ سید واجد علی شاہ گیلانی صدر ہائیکورٹ بار اور کابینہ کی طرف سے بار ممبران کے لیے اپنے دور کے آغاز میں ایک اچھی کامیابی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور بینچ کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی اور ہموار تعلقات کی بحالی کے لیے یہ ایک مثبت قدم ثابت ہوگا۔ صدر اور سیکرٹری اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جانب سے تمام معزز وکلاء صاحبان کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں، وکلاء نے بہادری سے عدالتی کاروائی کا مقابلہ کیا اور آج کیس ختم ہونے پر سرخرو ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہائیکورٹ بار توہین عدالت اسلام آباد چیف جسٹس وکلاء کے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔