ہائیکورٹ بینچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں، جسٹس اعجاز اسحاق
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے زیرسماعت کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے پر توہینِ عدالت ازخود کیس میں عدالتی معاون کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کا بینچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں۔
عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔ توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پر آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کا 17 مارچ کا آرڈر ریکارڈ پر لایا عدالت نے آرڈر کو سمجھنے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کی درخواست کی۔
چیف جسٹس کے آرڈر کے پہلے پیرا کے مطابق درخواست گزار نے ٹرانسفر کی اپنی استدعا پریس نہیں کی، آرڈر کے دوسرے پیرا سے ایسا لگتا ہے کہ درخواستیں یکجا کر کے ٹرانسفر کا ریلیف دیدیا گیا۔
ظاہری بات ہے کہ کیس ٹرانسفر کیے بغیر یکجا نہیں کیے جا سکتے تھے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریر کیا کہ شاید میں آرڈر درست نہیں پڑھ رہا، شاید اسے پڑھنے کا کوئی اور طریقہ ہو، ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر معاونت کریں۔
عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے سی پی سی کی سیکشن 24 کی درخواست دائر کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن اعتراف کر لیا کہ سیکشن 24 کی درخواست بنتی ہی نہیں تھی۔
ہائیکورٹ کا بنچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کی ماتحت عدالت نہیں، رجسٹرار آفس نے اسی وجہ سے یہ درخواست اعتراض کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے مقرر کی۔
چیف جسٹس کے لارجر بنچ بنانے کے آرڈر میں دکھائی نہیں دے رہا کہ اعتراض دور کرنے کی وجوہات لکھی گئی ہوں، اعتراض دور کرنے کی وجوہات تحریر نہ کرنا بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریکٹس اور پروسیجر کے خلاف ہے۔
شفافیت کیلئے بالخصوص درخواست قابلِ سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات دور کرنے کی وجوہات تحریر کی جاتی ہیں آفس کے تجربہ کار جوڈیشل افسران ناقابلِ سماعت درخواستیں کیلئے پہلے فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، آفس کے اعتراضات کو زیرغور لا کر جج کو انہیں دور کرنے کی وجوہات تحریر کرنی چاہئیں۔
حکمنامہ کے مطابق عدالت سے زیرسماعت کیس واپس لینے کی فی الحال کوئی قانونی نظیر پیش نہیں کی جا سکی ایڈووکیٹ جنرل نے لاہور ہائیکورٹ رولز کی بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک شق بتائی لیکن وہ غیرمتعلقہ ہے وکلاء عدالت کی معاونت کریں اور عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں۔
یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ ہر کیس پر اپلائی ہونے والے اصول کا ہے، یہ کیس چیف جسٹس کے کسی بھی جج سے انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیار سے متعلق ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ آئندہ تاریخ پر عدالتی معاونین مقرر کیے جائیں گے اور وہ بھی معاونت کرینگے،ایڈووکیٹ جنرل کا شکریہ کہ انہوں نے واضح طور پر عدالتی آداب کا خیال کیا، ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں۔
توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا،کیس کی آئندہ سماعت 11 اپریل کو ہو گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قائم مقام چیف جسٹس دور کرنے کی وجوہات ایڈووکیٹ جنرل چیف جسٹس کے عدالت کیس کا اختیار عدالت کی عدالت نے رولز میں کی عدالت کے آرڈر کے ساتھ
پڑھیں:
چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں
(وقاص عظیم) چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں گوہر اعجاز نے آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف کی سفارش کر تے ہوئے کہا کہ کسنٹرکشن میں مقامی سرمایہ کاری کے لیے مراعات کا اعلان کیا جائے۔
بلوچستان میں زلزلے کے جھٹکے
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے آئندہ بجٹ کے حوالے سے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ مین ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جائے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کیا جائے ،حکومت 5سالہ انڈسٹریل اور ایکسپورٹ پالیسی کا اعلان کرے ۔
گوہر اعجاز نے تجویز دی ہے کہ کسنٹرکشن میں مقامی سرمایہ کاری کے لیے مراعات کا اعلان کیاجائے، کنسٹرکشن انڈسٹری ملک کے لیے انجن آف گروتھ ہے، کنسٹرکشن اینڈ ہاوسنگ انڈسٹری کو ترجیحی صنعت کا درجہ قرار دیا جائے، کنسٹرکشن انڈسٹری سے 50 سے زائد صنعتیں وابستہ ہیں کنسٹرکشن انڈسٹری لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہے،کنسٹرکشن انڈسٹری بھاری ٹیکسز کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے،کنسٹرکشن انڈسٹری پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جائے ،ٹیکس رجسٹرڈ افراد پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کیے جائیں۔
عید کا دوسرا روز ؛ لاہوریوں نے پارکس اور سینما گھروں کا رخ کرلیا
گوہر اعجاز نے سفارش کی ہے کہ شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جائے، صنعتوں کو توانائی 9 سینٹ فی یونٹ پر فراہم کی جائے 10 فیصد سالانہ ایکسپورٹ بڑھانے پر ایکسپورٹرز کو 6 فیصد ٹیکس رعایت فراہم کی جائے ، گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومت بجٹ میں برآمدات پر مبنی معاشی اصلاحات کا اعلان کرے، آئندہ بجٹ میں معاشی استحکام کی سفارشات کو شامل کیا جائے، سپر ٹیکس کو کم کیا جائے اور اس کا اطلاق سالانہ 10 ارب روپے کا منافع کمانے والی کارپوریشنز پر کیا جائے ،امپورٹ ٹیرف کو بتدریج کم کیا جائے۔
عیدالاضحیٰ پر کھالیں اکھٹی کرنیوالی کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائیاں، 3 ملزم گرفتار
سابق نگران وزیر نے تجویز دی ہے کہ آئندہ بجٹ میں زرعی شعبہ کو ٹیکس ریلیف فراہم کیا جائے ،زررعی شعبہ ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے گندم ، کپاس اور مکئی سمیت اہم فصلوں کی پیداوار کم ہوچکی ہے، کسانوں کو پیداواری لاگت کو کم کر کے ریلیف فراہم کیا جائے ،کاشتکاروں اور کسانوں کو جدید ریسرچ فراہم کی جائے ایکسپورٹ فسیلیٹیشن سکیم کی وجہ سے مقامی صنعت تباہ ہوچکی ہے ، حکومت آئندہ بجٹ میں مقامی صنعتوں کا تحفظ یقینی بنائے ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم کے ذریعے مقامی کپاس پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا جب کہ ای ایف ایس اسکیم میں درآمدی کپاس کو ٹیکس فری قرار دیا جائے ای ایف ایس اسکیم کی وجہ سے صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔
لیہ؛ تیز رفتار مسافر بس اُلٹ گئی، 3 افراد جاں بحق، 38 زخمی