پاکستانی طالبان کے حملے میں سات فوجی ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مارچ 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستان کی پولیس کے حوالے سے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ افغان سرحد سے متصل ایک علاقے میں سات فوجی مارے گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ 'مسلح طالبان‘ ایک گھر میں چھپے ہوئے تھے، جہاں سے انہوں نے فوجی قافلے پر اچانک حملہ کر دیا۔ فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں آٹھ جنگجو ہلاک جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔
کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں فوج کو جنگی ہیلی کاپٹرز کی معاونت بھی حاصل رہی۔
اے ایف پی کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح گروہوں کے حملوں میں 190 سے زائد افراد ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فوجی شامل تھے۔
(جاری ہے)
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مارچ کے وسط میں سکیورٹی فورسز کے خلاف 'اسپرنگ کمپین‘ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ سال پاکستان میں تقریباً ایک دہائی کا سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوا۔ اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس دوران سولہ سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان میں سے تقریباً نصف سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ یہ تشدد زیادہ تر پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں تک ہی محدود ہے۔
بلوچ نیشنل پارٹی کے لانگ مارچ کے دوران 'خود کش حملہ‘بلوچستان کے ضلع مستونگ میں لک پاس کے علاقے میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں کم ازکم ایک شخص زخمی ہو گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آور غالبا وہاں جاری نیشنل بلوچ پارٹی (بی این پی) کے دھرنے کی طرف جانے کی کوشش میں تھا تاہم اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔
بی این پی کے رہنما اختر مینگل اور دیگر رہنما وڈھ سے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا ترک کیا جائے جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔بی این پی نے الزام عائد کیا ہے کہ لانگ مارچ میں رکاوٹین ڈالی جا رہی ہیں جبکہ ڈھائی سو کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ تاہم اختر مینگل کا اصرار ہے کہ وہ کوئٹہ تک پہنچ کر ہی رہیں گے۔
متوقع طور پر لانگ مارچ کے تحت وہ اور ان کے حامی ہفتے کے دن کوئٹہ پہنچ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہوئی ہے جبکہ علیحدگی پسند عناصر اکثر پولیس اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پاکستانی سکیورٹی فورسز کو براہ راست نشانہ بنانے کی کوشش تیز کر چکی ہے۔
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لانگ مارچ
پڑھیں:
گوادر میں بہادری کی مثال، شہید سپاہی محمد خماری بلوچ کو قوم کا سلام
گوادر میں 10 مئی کی رات کو دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوے 8 گولیاں لگنے کے باوجود دہشت گردوں کو آخری مقام تک پہنچایا اور علاقے کو بڑے سانحے سے بچا لیا، لیکن خود زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 11 مئی 2025ء کو جام شہادت نوش کر گئے۔ انہوں نے دشمنوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ایک دہشت گرد کو واصلِ جہنم بھی کیا۔ اسلام ٹائمز۔ گوادر میں پولیس کانسٹیبل نے فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کے حملے کے خلاف جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا، اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، سپاہی محمد عرف خماری بلوچ نے جان پر کھیل کر دشمنوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ایک دہشت گرد کو واصلِ جہنم بھی کیا۔ 10 مئی کی رات بارہ بجے کے قریب گوادر کے علاقے بلال مسجد کے نزدیک رہائشی کوارٹرز پر 2 دہشت گردوں نے دستی بم سے حملہ کیا، پولیس کے ایگل سکواڈ میں تعینات سپاہی محمد عرف خماری قریبی علاقے میں ڈیوٹی پر مامور تھے، وہ دھماکے کی آواز سن کر فوراً موقع پر پہنچے۔
اس موقع پر محمد خماری نے نہ صرف دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ 8 گولیاں لگنے کے باوجود دہشت گردوں کو آخری مقام تک پہنچایا اور علاقے کو بڑے سانحے سے بچا لیا، لیکن خود زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 11 مئی 2025ء کو جام شہادت نوش کر گئے۔ سپاہی محمد خماری 3 فروری 2001 کو گوادر کے سہرابی وارڈ میں پیدا ہوئے، دارالعلوم ہائرسیکنڈری سکول سے تعلیم حاصل کی، 27 جنوری 2024 کو گوادر پولیس میں شمولیت اختیار کی، سات ماہ کی ٹریننگ قلات، کوئٹہ میں مکمل کی اور گوادر تھانے میں تعینات ہوئے۔ سپاہی محمد خماری کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔