پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں پی ایچ ڈی پی ایچ ڈی کے پی ایچ ڈی کی سکتا ہے کی ڈگری کرتا ہے ہوتا ہے کے لئے
پڑھیں:
پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
اداکارہ و ٹی وی میزبان مشی خان نے پہلگام حملے کی مذمت کرنے والے پاکستانی اداکاروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان میں عزتِ نفس ہونی چاہیے انڈیا ہمارے خلاف بول رہا ہے اور آپ خوشامد میں لگے ہیں۔
مشی خان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ کہیں بھی جان و مال کا نقصان قابلِ مذمت ہے اور وہاں کے لوگوں کے درد میں ان کا ساتھ دینا چاہیے لیکن پاکستان میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے تب تو ہمارے اسٹارز بولتے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام میں حادثہ ہوا تو فواد خان، ہانیہ عامر اور دیگر فنکار بول رہے ہیں تو کیا آپ کو صرف وہاں کا درد ہی محسوس ہو رہا ہے، کیا آپ لوگوں میں کوئی خوداری نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کو لعن طعن کر رہے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
مشی خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کسی پوسٹ میں فلسطین تو آپ کو کبھی یاد نہیں رہا، پاکستان میں اتنے گھناؤنے واقعات ہوئے اس پر کبھی نہیں بولے لیکن وہاں کا درد آپ لوگ محسوس کر رہے ہیں جبکہ وہ لوگ آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ انسان میں عزتِ نفس بھی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس چیز کی کمی ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیار محبت تب ہوتا ہے جب یہ دو طرفہ معاملہ ہو، ہر وقت دوسروں کی خوشامد کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلم بائیکاٹ کا خطرہ، پہلگام حملے پر فواد خان کا ردعمل بھی سامنے آگیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو شرم آنے چاہیے کہ بھارت کے اینکرز ہمیں کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں اور آپ لوگ چپ بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ کو بند ہونا چاہیے اور ہمیں کہنا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں کھیلیں گے، ہمیں پہلے ایسی چیزوں کے لیے منع کرنا چاہیے وہ کیوں پہل کرتے ہیں ہم کیوں نہیں کر سکتے ایٹمی پاور تو ہم بھی ہیں لیکن ہم میں عزتِ نفس کی کمی ہے۔ خود کی عزت کرنا سیکھیں اور اپنے لیے کھڑے ہونا سیکھیں۔
مشی خان کی پوسٹ پر صارفین ان سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کو انڈیا ہی چھوڑ آنا چاہیے جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ان اداکاروں کے انڈیا میں کام چاہیے اس لیے ان کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں نے اس کی شدید مذمت کی تھی جس میں فواد خان، ہانیہ عامر، فرحان سعید اور ماورا حسین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج
مشی خان ایک معروف پاکستانی ٹیلی ویژن اداکارہ اور میزبان ہیں، ان کے قابل ذکر ٹیلی ویژن پروجیکٹس میں عروسہ، عجائب گھر، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، سات پردوں میں اور دیگر شامل ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کے ٹو ٹی وی پر مارننگ شو کی میزبانی کر رہی ہیں اور اکثر حالات حاضرہ، تنازعات اور شوبز کے تازہ ترین واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پہلگام حملہ فرحان سعید فواد خان ماورا حسین مشی خان ہانیہ عامر