Daily Ausaf:
2025-07-25@13:16:00 GMT

پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میں پی ایچ ڈی پی ایچ ڈی کے پی ایچ ڈی کی سکتا ہے کی ڈگری کرتا ہے ہوتا ہے کے لئے

پڑھیں:

سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا

کراچی(شوبز ڈیسک) پاکستانی اداکارہ و ماڈل کومل میرنے فلرز یا کسی قسم کی کاسمیٹک سرجری کی تردید کرتے ہوئے اپنی حالیہ تبدیلی کی وجہ وزن میں اضافہ بتایا ہے۔

کومل میر نے جب“مس ویٹ پاکستان“ سے شوبز میں قدم رکھا تو وہ دبلی پتلی جسامت اور معصوم شکل کے باعث مداحوں میں فورا توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ مگر حالیہ دنوں میں ان کی کچھ تصاویر وائرل ہوئیں جن میں ان کا چہرہ خاصا مختلف نظر آ رہا تھا۔

اس اچانک تبدیلی نے سوشل میڈیا پر چہ مگوئیوں کو جنم دیا اور مداح یہ سوال کرنے لگے کہ آیا یہ تبدیلی وزن بڑھنے کا نتیجہ ہے یا پھر چہرے پر فلرز کروائے گئے ہیں؟

کومل میر نے اب ایک انٹرویو میں اپنے وزن اور چہرے میں نظر آنے والی تبدیلی کی حقیقت بیان کردی۔

کومل میر نے پہلی بار اس حوالے سے وضاحت سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے چہرے کی تبدیلی دراصل وزن میں اضافے کی وجہ سے ہوئی، نہ کہ کسی کاسمیٹک پروسیجر یا فلرز کی وجہ سے۔

انہوں نے کہا کہ “میں ہمیشہ انڈر ویٹ رہی ہو اور ماضی میں ایٹنگ ڈس آرڈر کا شکار بھی رہی ہوں۔ میری عادت رہی تھی اگر کچھ دن کھالوں تو اگلے دن بھوک کا احساس نہیں ہوتا تھا اور جب مجھ پر وزن کم ہونے کے حوالے سے تنقید کی جاتی تو اسے سنجیدہ نہیں لیتی تھی۔

وزن بڑھانے کا خیال کیسے آیا اس کے بارے میں کومل میر نے کہا کہ جب میں فلموں کا رخ کیا تو مجھے لگا کہ میں بڑی اسکریں پر بہت دبلی پتلی نظر آوں گی اسی لیے مجھے مشورہ دیا گیا کہ اگر بڑی اسکرین پر آنا ہے تو تھوڑا صحت مند دکھنا چاہیے۔ میں نے کھانے پینے کا خاص خیال نہیں رکھا، بس نارمل طریقے سے چھ کلو وزن بڑھ گیا، جو زیادہ تر چہرے پر چڑھ گیا۔“

کومل نے کہا کہ جیسے ہی ان کی نئی تصاویر منظر عام پر آئیں، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ان پر فلرز کروانے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے چہرے پر کچھ نہیں کروایا، اور یہ صرف فطری وزن بڑھنے کا نتیجہ ہے۔

کومل کا کہنا ہے کہ، مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے خود کو اسکرین پر دیکھا۔ اگرچہ مجھے حقیقت میں خود کو دیکھ کر اچھا لگ رہا تھا، مگر کیمرے پر چہرہ تھوڑا بھرا بھرا لگ رہا تھا۔ لیکن اب میں بہتر محسوس کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا سوشل میڈیا پر بھی مجھ پر طنز کی بوچھاڑ کی گئی لیکن میں ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ میں اپنی زندگی اپنے اصولوں پر گزار رہی ہوں۔

کومل میر نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں ان کے دُبلے پن اور مختلف چہرے کی بنا پر انہیں کئی بار ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں طرح طرح کے باتیں سنے کو ملیں۔ بعض اوقات ان کی خوبصورتی کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ لیکن اب اپنے موجودہ لک پر خوش اور زیادہ پُراعتماد ہیں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں سمندری ہواؤں کی رفتار میں کمی، کیا درجہ حرارت بڑھے گا؟
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • دیرپا کیمیکل سے ذیابیطس کا خطرہ 31 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، تحقیق
  • سرجری یافلرز، کومل میر کا چہرہ کیوں بدلا؟ اداکارہ نے سب کچھ بتادیا
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
  • زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • موجودہ مون سون سسٹم کراچی کومتاثر نہیں کرے گا: ڈی جی محکمۂ موسمیات