Islam Times:
2025-06-12@05:53:05 GMT

پاک افغان سرحد پر دراندازی کی کوشش ناکام، 54 دہشتگرد ہلاک

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

پاک افغان سرحد پر دراندازی کی کوشش ناکام، 54 دہشتگرد ہلاک

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ہمارے پاس یہ معلومات کچھ دن سے تھیں کہ انکے بیرونی آقا ان پر زور ڈال رہے تھے کہ یہ جلد از جلد پاکستان میں گھسیں اور وہاں کوئی سرگرمی انجام دیں، انہی معلومات کی بنیاد پر سرحدوں پر نگرانی اور چیکنگ سخت کر دی گئی تھی اور اسی دوران انکی نشاندہی ہوگئی۔ اسلام ٹائمز۔ پاک فوج نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والے 54 خوارجی دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ دہشتگرد شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں درندازی کی کوشش کر رہے تھے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ہلاک ہونے والے شدت پسندوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا ہے۔ اعلامیے کے مطابق خفیہ اداروں کی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ شدت پسندوں کا یہ گروہ خاص طور پر اپنے بیرونی آقاؤں کے ایما پر پاکستان میں ہائی پروفائل دہشتگردی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اعلامیے کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے، جب انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کس کے ایما پر کام کر رہے ہیں۔

یہ اقدامات ریاست اور اس کے عوام کے خلاف بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔اعلامیے کے مطابق حالیہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی (این ایس سی) میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی توجہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ہٹانا انڈیا کی اسٹریٹجک حکمتِ عملی ہے، تاکہ تحریکِ طالبان پاکستان کو سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے درمیان سانس لینے کا موقع مل سکے۔ اعلامیے کے مطابق یہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران یہ ایک روز میں شدت پسندوں کی سب سے بڑی تعداد ہلاک کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس یہ معلومات کچھ دن سے تھیں کہ ان کے بیرونی آقا ان پر زور ڈال رہے تھے کہ یہ جلد از جلد پاکستان میں گھسیں اور وہاں کوئی سرگرمی انجام دیں۔

انہی معلومات کی بنیاد پر سرحدوں پر نگرانی اور چیکنگ سخت کر دی گئی تھی اور اسی دوران ان کی نشاندہی ہوگئی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ انڈیا جو بھی قدم اٹھا رہا ہے، وہ کہیں نہ کہیں پکڑا جا رہا ہے یا انٹرسیپٹ ہو رہا ہے، ان شدت پسندوں پر بھی وہیں سے زور ڈالا جا رہا تھا کہ پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کریں۔ محسن نقوی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ان (دہشت گردوں) کے پاؤں مسلسل اکھڑ رہے رہیں، پچھلے دو ہفتوں میں مارے جانے اور گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو ہمارے لیے ایک اچھی علامت ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اعلامیے کے مطابق پاکستان میں رہے تھے کی کوشش کے خلاف کہا کہ

پڑھیں:

’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے

’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے‘
 اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)   تجز یہ نگارزاہد حسین  کے مطابق ایک ڈرامائی پیشرفت میں پاکستان اور افغانستان نے اپنے سفارتی تعلقات کو سفارتی سطح پر اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا ہے جو افغان طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد سے پیدا ہونے والے انتہائی کشیدہ دو طرفہ تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
 ڈان کے مطابق یہ اعلان گزشتہ ماہ بیجنگ میں چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان غیر رسمی سہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس حیران کن اقدام کو تیزی سے ترقی پذیر علاقائی جغرافیائی سیاست میں انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے۔
صرف چند ممالک جیسے چین، روس، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان نے 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سفیروں کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے بھی کابل میں قونصل خانے کی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ملک نے طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خواتین کو تعلیم اور کام کے حق سے روکنے کی طالبان کی پالیسی ہے۔ قیادت کونسل میں سخت گیر افراد کے تسلط کے پیش نظر طالبان کی حکومت سے اپنی قدامت پسند پالیسی کو معتدل کرنے کی توقع کرنا مشکل ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ پاک افغان پیش رفت بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازع کے بعد ہوئی ہے جس نے خطے کو ایک وسیع تر بحران کی جانب دھکیلنے کا خطرہ پیدا کردیا تھا۔ اس دوران افغان حکومت بھارت کے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت کرسکتا ہے کہ کیوں بہت سے ماہرین بالخصوص بھارتی میڈیا میں یہ سوچ پائی جارہی تھی کہ تنازعے کے دوران طالبان بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تاہم بیجنگ اجلاس نے حالات کی تبدیلی کا عندیہ دیا۔ جہاں دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے میں چین کا کردار واضح ہے وہیں دونوں جانب سے سفارتی حساسیت کا بھی مظاہرہ کیا گیا جس نے برف کو پگھلانے میں مدد کی۔ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کا فیصلہ واقعی ایک مثبت اقدام ہے۔ یہ مختلف شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ قدم بڑھتے ہوئے روابط، اقتصادی، سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور تجارتی شعبہ جات میں پاک-افغان تعاون کو مزید گہرا کرنے اور دو برادر ممالک کے درمیان مزید تعامل کو فروغ دے گا‘۔ تاہم ان کے درمیان اب بھی سنگین مسائل ہیں جو ان کے تعلقات کو مکمل طور پر بہتر بنانا بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔
طالبان 2.0 کی اقتدار میں واپسی کے ابتدائی چند ماہ کو چھوڑ کر، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بتدریج خراب ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سرحدی جھڑپوں اور تجارت کی بندش کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات دشمنی میں بدل گئے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ سنگین مسئلہ پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کا استعمال ہے۔ زیادہ تر معاملات میں عسکریت پسند نیٹ ورکس بالخصوص کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، افغان طالبان کمانڈرز کی خفیہ حمایت کے ساتھ کارروائی کررہے ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے دہشتگردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ عسکریت پسند اب بہت بہتر طریقے سے مسلح اور تربیت یافتہ ہیں۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو 2021ء میں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑ گئے تھے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے اور پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کا مکمل الزام کابل پر ڈالنا درست نہیں ہے۔
ہماری سر تسلیم خم کرنے کی پالیسی بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ بنی۔ اس سے قبل ریاست نے افغان طالبان انتظامیہ کے اصرار پر نہ صرف کچھ کالعدم عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش کی بلکہ ہزاروں بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت بھی دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکریت پسندوں کو مشرقی سرحد پار سے بھی حمایت مل رہی ہے۔ تاہم غلطی عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں ہماری ناقص اور غیر مربوط حکمت عملی میں بھی ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر بھی بمباری کی ہے۔ ان مایوس کن کارروائیوں کے قابلِ اعتراض نتائج برآمد ہوئے جبکہ سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کابل میں حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنی پوزیشن سخت کرلی۔
پاکستان نے افغان شہریوں پر اس کی سرزمین پر ہونے والے کچھ دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا لیکن ان الزامات کو کابل نے یکسر مسترد کیا ہے۔ جوابی کارروائی کے طور پر اسلام آباد نے لاکھوں غیر قانونی اور یہاں تک کہ دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا ہے جن میں سے کچھ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم تھے۔ اکتوبر 2023ء سے تقریباً 8 لاکھ 45 ہزارافغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ تقریباً 30 لاکھ اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان اس سال انہیں ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسلام آباد کا اسی ناقابلِ فہم اقدام نے کابل کے ساتھ تناؤ میں مزید اضافہ کیا ہے۔
سرحدوں کی بار بار بندش نے بھی پاکستان کے خلاف افغانستان کے غصے کو بھڑکایا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں خلل ڈالا ہے۔ اس صورت حال میں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دبئی میں افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ بھارت کی سفارتی رسائی نے قدامت پسند طالبان حکومت کی جانب اس کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، کابل اور نئی دہلی کے درمیان اعلیٰ سرکاری سطح پر ہونے والی ملاقاتوں نے طالبان کی حکومت کو اصل جواز فراہم کیا۔ طالبان حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے جبکہ انہوں نے بھارت کو ایک ’اہم علاقائی اور اقتصادی طاقت‘ قرار دیا۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں پہلگام دہشتگردانہ حملے کی کابل کی شدید مذمت کی تو کچھ لوگوں نے اس امر کو اس علامت کے طور پر لیا کہ طالبان پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی کارروائیوں کی حمایت کررہے ہیں۔
اس پیش رفت سے بیجنگ اور اسلام آباد میں تشویش کو جنم دیا۔ چین نے طالبان حکومت کے ساتھ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بڑھاتے ہوئے سفیر تعینات کیے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بیجنگ کا کابل اور اسلام آباد دونوں پر مضبوط اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے اسے ثالث کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
جب پاکستان کے وزیر خارجہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے تو سہ فریقی ملاقات کا کوئی طے شدہ شیڈول نہیں تھا۔ افغان وزیر خارجہ خصوصی دعوت پر بیجنگ گئے تھے۔ تاہم ملاقات نے جغرافیائی سیاسی اہمیت کا ایک مثبت نتیجہ نکالا۔ یقیناً کابل پر دباؤ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف سرحد پار سے دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ پھر بھی اسلام آباد کو کابل حکومت کے ساتھ اپنے کثیر جہتی تعاون کو مزید وسعت دینی چاہیے۔

عید الاضحیٰ پر کتنی ہزار شکایات موصول ہوئیں : وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں

مزید :

متعلقہ مضامین

  • بالاکوٹ، پولیس نے 2 افغان اغواکاروں کو ہلاک کرکے کمسن مغوی بچے کو بازیاب کرلیا
  • 11 ماہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 34 اعشاریہ 89 ارب ڈالرز پاکستان بھیجے
  • آئینی بینچز کی مدت میں توسیع کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں سال ریکارڈ ترسیلات بھیجیں؛ سٹیٹ بینک
  • ’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے
  • پاک افغان بارڈر کی بندش، تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالرز سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گیا
  • لکی مروت، اہم دہشتگرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک
  • لکی مروت: پولیس مقابلے میں فتنہ الخوارج کے 3 دہشتگرد ہلاک، پولیس اہلکار شہید
  • پانی کو ہتھیار بنانے کی روایت بننے نہیں دیں گے، پانی روکنا اعلان جنگ تصور ہوگا، بلاول بھٹو کا اسکائی نیوز کو انٹرویو
  • بلی کے ذریعے جیل میں چرس اسمگل کی کوشش ناکام