Islam Times:
2025-05-18@22:20:09 GMT

پاکستان کا انڈین فضائی اڈوں پر حملہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

پاکستان کا انڈین فضائی اڈوں پر حملہ

اسلام ٹائمز: ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریر: ثقلین امام واسطی

نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس، انڈیا مزید حملے کرے گا
پاکستان نے ہفتے کی صبح انڈیا میں متعدد فوجی اہداف پر میزائل حملے کیے، جس سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کرنے والے ادارے کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جو حالات کی سنگینی یا پینِک کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی حملوں کی تفصیلات:
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کے یہ حملے انڈیا کی جانب سے “مسلسل اشتعال انگیزی” کے جواب میں کیے گئے ہیں، جن میں انڈین فوج نے پاکستان کے اندر تین فضائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے “فتح” میزائل استعمال کرتے ہوئے انڈیا کے صوبوں گجرات، پنجاب، راجستھان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 25 سے زائد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن میں فضائی اڈے اور اسلحہ ذخیرہ گاہیں شامل تھیں۔

انڈین بیان:
دوسری جانب انڈین فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں پاکستانی حملوں کو “کھلی جارحیت” قرار دیا اور کہا کہ ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے حملے کیے گئے، جنہیں انڈین فضائی دفاعی نظام نے فوری طور پر تباہ کر دیا۔ نئی دہلی میں ہنگامی مشاورت جاری ہے۔ انڈیا کے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی، جبکہ وزیرِاعظم نریندر مودی نے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ الگ ملاقات کی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق ایک مربوط فوجی و سفارتی حکمتِ عملی پر غور ہو رہا ہے۔ انڈین حکومت نے پاکستانی حملے سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کی تصدیق نہیں کی، تاہم سرکاری سطح پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار ہے اور تمام حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

آپریشن بنیان المرصوص:
پاکستانی فوج کے مطابق یہ کارروائی “عملی اور محدود” تھی اور اسے “عملیات بنیان المرصوص” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نام قرآن سے لیا گیا ہے، جس میں مؤمنوں کی صفوں کی مضبوطی کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل طور پر جڑی ہوئی ہو۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے انڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ انڈین فضائی حملوں میں راولپنڈی کے نور خان ایئربیس، مرید اور شورکوٹ شامل تھے۔ حکومت پاکستان نے ان اقدامات کو انڈیا کی بلا اشتعال جارحیت کا جواب قرار دیا ہے۔

نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس:
اس پیشرفت کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی (National Command Authority) کا اجلاس طلب کیا، جو کہ جوہری ہتھیاروں اور قومی سلامتی سے متعلق اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت پر مشتمل ادارہ ہے۔ اس اجلاس کا انعقاد صورت حال کی سنگینی اور ممکنہ اسٹریٹیجک فیصلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں حالیہ دہشت گرد حملے میں 26 ہندو یاتری مارے گئے تھے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم لشکرِ طیبہ پر لگایا اور جواباً پاکستانی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔

دونوں ملکوں کی بحریہ بھی تیار:
بحری طاقت (naval power) کے مظاہرے میں نمایاں اضافے کے طور پر انڈیا نے سپرسونک کروز میزائلوں سے لیس اپنے جنگی بحری جہاز پاکستانی پانیوں کے قریب تعینات کر دیئے ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی براہِ راست انڈین حملے کی زد میں آگیا ہے۔ ٹیلی گراف اور دیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین نیوی کے مغربی بیڑے میں جدید ڈسٹرائرز اور فریگیٹس شامل ہیں اور اب انہوں نے بحیرۂ عرب کے شمالی حصے میں پاکستان کے ساحل سے چند سو میل دور پوزیشنز سنبھال لی ہیں۔ اس تعیناتی میں وہ جہاز بھی شامل ہیں، جو براہموس میزائلوں سے لیس ہیں، جو انڈیا کی طویل فاصلے تک ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

حالیہ بحری مشقوں میں انڈین نیوی نے بحرۂ عرب میں کئی اینٹی شپ میزائل فائر کرکے اپنی تیاری کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ جوابی طور پر پاکستان نے بھی اپنی نیوی افواج کو بحرۂ عرب میں مزید گہرائی میں تعینات کر دیا ہے، جن کی پوزیشنز پاکستان کے ساحل سے 300 سے 400 میل دور بتائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس تعیناتی کی سرکاری تفصیلات محدود ہیں، لیکن اس قدم کو کشیدہ حالات میں ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بحری سرگرمیاں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں اور عسکری کارروائیوں کے تناظر میں سامنے آئی ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنی فوجی تیاری کی سطح بلند کر دی ہے۔ انڈیا میں آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس منعقد کیے ہیں۔

عالمی سطح پر تحمل کی اپیل:
بین الاقوامی مبصرین نے موجودہ صورت حال میں مزید کشیدگی کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورت حال کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے سفارتی بات چیت کا آغاز کریں۔ اقوامِ متحدہ اور جی-7 ممالک نے انڈیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے ٹیلیفونک فون پر رابطہ بھی کیا ہے اور دونوں ملکوں تحمل کی اپیل کی ہے۔ چین نے نے جنگ کو روکنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے باعث خطے اور عالمی استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور صورتحال مزید بگڑنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی ماہرین صورتحال کو نہایت حساس قرار دے رہے ہیں۔

جوہری جنگ کے امکانات کم ہیں:
ٹام شارپ، جو کہ ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں، ان کی زیادہ تر شناخت ان کی نیوکلیئر اسٹرٹیجی (جوہری حکمت عملی) اور بین الاقوامی دفاعی تعلقات پر تجزیہ لکھنے کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنی ایک رائے میں کہا ہے کہ انڈیا کی نئی نیوکلیئر آبدوزیں (nuclear submarines) پاکستان کے ساتھ ایٹمی جنگ کے امکانات کو کم کر دیتی ہیں، کیونکہ اس سے انڈیا کے پاس جوابی حملے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے پاس نیوکلیر ہتھیار ہوں، تو دونوں ایک دوسرے پر جوہری حملہ کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ جوہری جنگ کا نتیجہ بہت تباہ کن ہوگا اور دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ یہاں آبدوزوں کا کردار سمجھنا ضروری ہے۔ انڈیا کی جوہری آبدوزیں ایسے میزائلوں سے لیس ہیں، جو پاکستان کے زیادہ تر حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور یہ آبدوزیں پانی میں رہ کر غائب رہتی ہیں، اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر انڈیا نے پاکستان پر جوہری حملہ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوں گے اور وہ بھی جوابی حملہ کرسکے گا، جو اتنا ہی تباہ کن ہوگا۔

ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔

مختصر یا طویل جنگ:
سکیورٹی اور دفاعی تجزیہ کار مائیکل کلارک نے اسکائی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور پاکستان جوہری اعتبار سے ایک جیسے ہیں، دونوں کے پاس تقریباً 170 جوہری ہتھیار موجود ہیں، جنہیں فاصلے کی کمی کی وجہ سے فوری طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کلارک نے مزید کہا کہ عالمی عسکری طاقت کی درجہ بندی کے مطابق انڈیا کا نمبر چوتھا ہے جبکہ پاکستان بارہویں نمبر پر ہے۔ “اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کی روایتی فوجی صلاحیتوں میں واضح فرق ہے۔ انڈیا کی مسلح افواج، اہلکاروں اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان سے تقریباً دو گنا بڑی ہیں۔” انہوں نے کہا، “اگر مکمل جنگ ہوئی تو انڈیا غالب آئے گا۔ لیکن اگر معاملہ محدود فوجی تصادم تک رہا تو پاکستان یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سٹریٹجک فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔” جنگ مختصر ہو یا طویل، نقصان دونوں ملکوں کو پہنچے گا۔ مگر طویل جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچے گا، جو انھیں کئی برس پیچھے دھکیل دے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دونوں ممالک ایک دوسرے نیوکلیئر آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے دونوں ممالک جنگ کے امکانات دونوں ممالک کے پاکستانی فوج دونوں کے لیے میزائلوں سے دونوں ملکوں نشانہ بنایا پاکستان نے پاکستان کے نے پاکستان جوہری حملے جوہری جنگ ٹام شارپ کے مطابق کا اجلاس کہ جوہری کو نشانہ انڈیا کی ہے کہ ان کے ساتھ حملے کی ہوتا ہے ہیں اور گیا ہے سے لیس اور اس کے پاس

پڑھیں:

پاک بھارت کشیدگی لیکن اس دوران ایران کا کیا کردار رہا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کردیا

راولپنڈی (ویب ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حالیہ پاک-بھارت تنازع میں ایران کی امن کوششوں کو سراہا اور پڑوسی ملک کو اُن قوتوں سے خبردار کیا جو دونوں ممالک کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام واقعے کے فوراً بعد بغیر کسی ثبوت کا اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، اسی دوران ایران نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔

ترجمان پاک فوج لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایرانی خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا تہہ دل سے شکر گزار ہے اور ہم بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران جیسے برادر ممالک کے شکر گزار ہیں۔

بنگلہ دیشی ائیر لائن کا پہیہ دوران پرواز غائب ہوگیا  

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ خطے میں کچھ قوتیں، بیرونی عناصر کی مدد سے برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور دوستوں اور بھائیوں کے درمیان دراڑ ڈالنا چاہتی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے تہران کی کوششوں اور حمایت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی برادری اور برادر ممالک خصوصاً ایران، کی تمام کوششوں سے خوش ہیں جنہوں نے کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کیا"۔

ٹرمپ کی بیٹی بچے کی ماں بن گئی  

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے ’بہت تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور دونوں ہمیشہ ہر آزمائش میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل چوہدری نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک ’ہمسایہ اور دوست ممالک ہیں جو کئی شعبوں اور معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ خواہش اور پالیسی ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر امن اور دوستی ہو جب کہ تہران اور اسلام آباد ’خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے باہمی تعاون کر رہے ہیں‘۔

پاکستانی طیارے گرانے کی خبر غلط تھی : بھارتی صحافی کا امریکی اخبار کو اعتراف

یادرہے کہ حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے دورہ پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں، جس کے بعد وہ بھارت گئے اور وہاں بھی انہوں نے متعدد رہنماؤں سے ملاقات کے دوران تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • امن کا راستہ ہی واحد حل
  • سیز فائر 18 مئی کے بعد بھی جاری رہیگا، انڈین آرمی
  • بھارتی میڈیا کی انڈیا سمیت دنیا بھر میں کریڈبیلیٹی صفر ہوگئی، فیک نیوز واچ ڈاگ کی رپورٹ جاری
  • ایران اور پاکستان کے بہت تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ترجمان پاک فوج
  • پاک بھارت کشیدگی لیکن اس دوران ایران کا کیا کردار رہا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کردیا
  • پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور طالبان کے درمیان پسِ پردہ رابطے سامنے آ گئے
  • 7 مئی کا تاریخی معرکہ: مختلف ممالک کی پاک فضائیہ میں دلچسپی بڑھ گئی
  • افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟
  • پاکستان بھارتت ڈی جی ایم اور کا تیسری بار ہاٹ لائن پر رابطہ ، جنگ بندی برقراررکھنے پر اتفاق
  • 7؍ مئی کا تاریخی معرکہ: مختلف ممالک کی پاک فضائیہ میں دلچسپی بڑھ گئی