پاکستان کا انڈین فضائی اڈوں پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریر: ثقلین امام واسطی
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس، انڈیا مزید حملے کرے گا
پاکستان نے ہفتے کی صبح انڈیا میں متعدد فوجی اہداف پر میزائل حملے کیے، جس سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کرنے والے ادارے کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جو حالات کی سنگینی یا پینِک کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستانی حملوں کی تفصیلات:
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کے یہ حملے انڈیا کی جانب سے “مسلسل اشتعال انگیزی” کے جواب میں کیے گئے ہیں، جن میں انڈین فوج نے پاکستان کے اندر تین فضائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے “فتح” میزائل استعمال کرتے ہوئے انڈیا کے صوبوں گجرات، پنجاب، راجستھان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 25 سے زائد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن میں فضائی اڈے اور اسلحہ ذخیرہ گاہیں شامل تھیں۔
انڈین بیان:
دوسری جانب انڈین فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں پاکستانی حملوں کو “کھلی جارحیت” قرار دیا اور کہا کہ ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے حملے کیے گئے، جنہیں انڈین فضائی دفاعی نظام نے فوری طور پر تباہ کر دیا۔ نئی دہلی میں ہنگامی مشاورت جاری ہے۔ انڈیا کے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی، جبکہ وزیرِاعظم نریندر مودی نے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ الگ ملاقات کی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق ایک مربوط فوجی و سفارتی حکمتِ عملی پر غور ہو رہا ہے۔ انڈین حکومت نے پاکستانی حملے سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کی تصدیق نہیں کی، تاہم سرکاری سطح پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار ہے اور تمام حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔
آپریشن بنیان المرصوص:
پاکستانی فوج کے مطابق یہ کارروائی “عملی اور محدود” تھی اور اسے “عملیات بنیان المرصوص” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نام قرآن سے لیا گیا ہے، جس میں مؤمنوں کی صفوں کی مضبوطی کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل طور پر جڑی ہوئی ہو۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے انڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ انڈین فضائی حملوں میں راولپنڈی کے نور خان ایئربیس، مرید اور شورکوٹ شامل تھے۔ حکومت پاکستان نے ان اقدامات کو انڈیا کی بلا اشتعال جارحیت کا جواب قرار دیا ہے۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس:
اس پیشرفت کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی (National Command Authority) کا اجلاس طلب کیا، جو کہ جوہری ہتھیاروں اور قومی سلامتی سے متعلق اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت پر مشتمل ادارہ ہے۔ اس اجلاس کا انعقاد صورت حال کی سنگینی اور ممکنہ اسٹریٹیجک فیصلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں حالیہ دہشت گرد حملے میں 26 ہندو یاتری مارے گئے تھے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم لشکرِ طیبہ پر لگایا اور جواباً پاکستانی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔
دونوں ملکوں کی بحریہ بھی تیار:
بحری طاقت (naval power) کے مظاہرے میں نمایاں اضافے کے طور پر انڈیا نے سپرسونک کروز میزائلوں سے لیس اپنے جنگی بحری جہاز پاکستانی پانیوں کے قریب تعینات کر دیئے ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی براہِ راست انڈین حملے کی زد میں آگیا ہے۔ ٹیلی گراف اور دیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین نیوی کے مغربی بیڑے میں جدید ڈسٹرائرز اور فریگیٹس شامل ہیں اور اب انہوں نے بحیرۂ عرب کے شمالی حصے میں پاکستان کے ساحل سے چند سو میل دور پوزیشنز سنبھال لی ہیں۔ اس تعیناتی میں وہ جہاز بھی شامل ہیں، جو براہموس میزائلوں سے لیس ہیں، جو انڈیا کی طویل فاصلے تک ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
حالیہ بحری مشقوں میں انڈین نیوی نے بحرۂ عرب میں کئی اینٹی شپ میزائل فائر کرکے اپنی تیاری کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ جوابی طور پر پاکستان نے بھی اپنی نیوی افواج کو بحرۂ عرب میں مزید گہرائی میں تعینات کر دیا ہے، جن کی پوزیشنز پاکستان کے ساحل سے 300 سے 400 میل دور بتائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس تعیناتی کی سرکاری تفصیلات محدود ہیں، لیکن اس قدم کو کشیدہ حالات میں ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بحری سرگرمیاں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں اور عسکری کارروائیوں کے تناظر میں سامنے آئی ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنی فوجی تیاری کی سطح بلند کر دی ہے۔ انڈیا میں آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس منعقد کیے ہیں۔
عالمی سطح پر تحمل کی اپیل:
بین الاقوامی مبصرین نے موجودہ صورت حال میں مزید کشیدگی کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورت حال کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے سفارتی بات چیت کا آغاز کریں۔ اقوامِ متحدہ اور جی-7 ممالک نے انڈیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے ٹیلیفونک فون پر رابطہ بھی کیا ہے اور دونوں ملکوں تحمل کی اپیل کی ہے۔ چین نے نے جنگ کو روکنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے باعث خطے اور عالمی استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور صورتحال مزید بگڑنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی ماہرین صورتحال کو نہایت حساس قرار دے رہے ہیں۔
جوہری جنگ کے امکانات کم ہیں:
ٹام شارپ، جو کہ ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں، ان کی زیادہ تر شناخت ان کی نیوکلیئر اسٹرٹیجی (جوہری حکمت عملی) اور بین الاقوامی دفاعی تعلقات پر تجزیہ لکھنے کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنی ایک رائے میں کہا ہے کہ انڈیا کی نئی نیوکلیئر آبدوزیں (nuclear submarines) پاکستان کے ساتھ ایٹمی جنگ کے امکانات کو کم کر دیتی ہیں، کیونکہ اس سے انڈیا کے پاس جوابی حملے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے پاس نیوکلیر ہتھیار ہوں، تو دونوں ایک دوسرے پر جوہری حملہ کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ جوہری جنگ کا نتیجہ بہت تباہ کن ہوگا اور دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ یہاں آبدوزوں کا کردار سمجھنا ضروری ہے۔ انڈیا کی جوہری آبدوزیں ایسے میزائلوں سے لیس ہیں، جو پاکستان کے زیادہ تر حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور یہ آبدوزیں پانی میں رہ کر غائب رہتی ہیں، اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر انڈیا نے پاکستان پر جوہری حملہ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوں گے اور وہ بھی جوابی حملہ کرسکے گا، جو اتنا ہی تباہ کن ہوگا۔
ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔
مختصر یا طویل جنگ:
سکیورٹی اور دفاعی تجزیہ کار مائیکل کلارک نے اسکائی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور پاکستان جوہری اعتبار سے ایک جیسے ہیں، دونوں کے پاس تقریباً 170 جوہری ہتھیار موجود ہیں، جنہیں فاصلے کی کمی کی وجہ سے فوری طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کلارک نے مزید کہا کہ عالمی عسکری طاقت کی درجہ بندی کے مطابق انڈیا کا نمبر چوتھا ہے جبکہ پاکستان بارہویں نمبر پر ہے۔ “اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کی روایتی فوجی صلاحیتوں میں واضح فرق ہے۔ انڈیا کی مسلح افواج، اہلکاروں اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان سے تقریباً دو گنا بڑی ہیں۔” انہوں نے کہا، “اگر مکمل جنگ ہوئی تو انڈیا غالب آئے گا۔ لیکن اگر معاملہ محدود فوجی تصادم تک رہا تو پاکستان یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سٹریٹجک فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔” جنگ مختصر ہو یا طویل، نقصان دونوں ملکوں کو پہنچے گا۔ مگر طویل جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچے گا، جو انھیں کئی برس پیچھے دھکیل دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دونوں ممالک ایک دوسرے نیوکلیئر آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے دونوں ممالک جنگ کے امکانات دونوں ممالک کے پاکستانی فوج دونوں کے لیے میزائلوں سے دونوں ملکوں نشانہ بنایا پاکستان نے پاکستان کے نے پاکستان جوہری حملے جوہری جنگ ٹام شارپ کے مطابق کا اجلاس کہ جوہری کو نشانہ انڈیا کی ہے کہ ان کے ساتھ حملے کی ہوتا ہے ہیں اور گیا ہے سے لیس اور اس کے پاس
پڑھیں:
چین اور روس کے تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، دونوں ممالک کا مشترکہ بیان
چین اور روس کے تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، دونوں ممالک کا مشترکہ بیان WhatsAppFacebookTwitter 0 9 May, 2025 سب نیوز
ماسکو:روسی فیڈریشن کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی دعوت پر عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پھنگ 7 سے 10 مئی 2025 تک روسی فیڈریشن کے سرکاری دورے پر ہیں۔ دونوں سربراہان مملکت نے ماسکو میں مذاکرات کئے اور نئے دور میں چین-روس تعاون کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید گہرا کرنے سے متعلق ایک مشترکہ بیانیہ پر دستخط کیے ۔ جمعہ کے روز جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سال جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ اور سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ ہے۔
چینی عوام اور سوویت عوام نے ایک مشکل جدوجہد کی ہے، ایک دوسرے کی بے لوث مدد کی، بے پناہ قربانیاں دیتے ہوئے عظیم فتوحات حاصل کیں، اور انسانی وقار کے دفاع اور عالمی امن کی تعمیر نو کے لئے عظیم تاریخی خدمات انجام دیں۔بیان میں فریقین نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے عوام نے عالمی فاشسٹ جنگ میں پیدا ہونے والی دوستی اور باہمی تعاون قائم رکھا جس نے نئے دور میں چین اور روس کے درمیان تعاون کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی ٹھوس بنیاد رکھی ہے۔ اس وقت دونوں فریقوں کی مشترکہ کاوشوں سے چین اور روس کے تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر کی مثال قائم کر رہے ہیں ۔بیان میں روس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایک چین کے اصول پر قائم ہے اور دنیا میں صرف ایک چین ہے، تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا اٹوٹ حصہ ہے، اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت پورے چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت ہے۔چین اپنی سلامتی، استحکام، ترقی و خوشحالی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں روس کی حمایت کرتا ہے اور بیرونی قوتوں کی جانب سے روس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔
چین اور روس ایک دوسرے کے اہم تجارتی شراکت دار ہیں اور دونوں فریقوں نے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی تیز رفتار ترقی کی تعریف کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ باہمی فائدہ مند تعاون نے دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔دونوں فریق ثقافتی اور تہذیبی تنوع کی حمایت کرتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ انفرادیت ایک کثیر القطبی دنیا کی بنیاد ہے، اور ممالک اور عوام کی منفرد اقدار کے نظام کا احترام کرتے ہیں.فریقین نے بین الاقوامی قانون بالخصوص اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرنے کا اعادہ کیا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر پر مکمل طور پر عمل کیا جانا چاہئے۔ فریقین شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے فریم ورک کے اندر قریبی تعاون کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں جو نئے دور میں تعاون کی چین اور روس کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے ایک امید افزا سمت ہے۔دونوں فریق غیر قانونی یکطرفہ غنڈہ گردی کے اقدامات اور یکطرفہ تحفظ پسند انہ اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظم و نسق کو شدید کمزور کرتے ہیں اور عالمی صنعتی اور سپلائی چینز پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جیسے اندھا دھند ٹیرف اور برآمدی کنٹرول کا غلط استعمال۔بیان میں فریقین نے عالمی تزویراتی استحکام کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے اور متعلقہ شعبوں میں چیلنجوں اور خطرات سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور روس کا جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے درمیان مسلح تنازعات کی روک تھام پر زور چین اور روس کا جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے درمیان مسلح تنازعات کی روک تھام پر زور چین اور روس کا جامع اسٹریٹجک شراکت داری کا اعادہ چین روس ہیومینٹیز کوآپریشن کمیٹی کی فلم کوآپریشن ذیلی کمیٹی کا 18واں اجلاس ماسکو میں منعقد ہوا آئی ایم ایف نے بھارت کا مطالبہ مسترد کردیا، پاکستان کی غیرمشروط حمایت کا اعلان رواں سال کے لئے “واک ان چائنا” نامی سرگرمی کا ووہان شہر میں آغاز فلپائن چین کے مرکزی مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت بند کردے، چینی وزارت دفاعCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم