6 ٹیمیں 0 خوف! چیئرمین پی سی بی نے بھارت کو اپنے انداز میں ٹرول کرڈالا
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی نے بھارت کو ٹرول کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے بقیہ میچز کی بحالی کا اعلان کردیا۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر ٹوئٹ کرتے ہوئے محسن نقوی نے پاکستان کی جانب سے حالیہ کشیدگی کے دوران 6 بھارتی طیارے گرانے اور پاکستان کا کوئی طیارہ نہ گرنے کا تذکرہ یوں کیا کہ "لیگ پھر سے وہاں سے شروع ہو رہی ہے جہاں سے رُکی تھی۔ 6 ٹیمیں، 0 خوف۔"
انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن کے بقیہ 8 میچز 17 سے 25 مئی تک ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل 10کے باقی میچز کا شیڈول جاری
محسن نقوی نے کہا ہے کہ ہم ایک بار پھر کرکٹ کے اسپرٹ کا جشن منانے جارہے پیں، تمام ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
قبل ازیں پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان سپر لیگ 10 کو ملتوی کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: آسٹریلوی کرکٹرز بھارت جانے سے کترانے لگے، وارنر پاکستان واپسی کو تیار
واضح رہے کہ پاکستان نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارتی جارحیت کے دفاع کرتے ہوئے 5 طیارے اور ایک ڈرون مار گرایا تھا، ان طیاروں میں 3 رافیل اور ایک ایک مگ 29 اور سخوئی ایس یو 30 شامل تھے۔
مزید پڑھیں: شکست خوردہ بھارتیوں نے آسٹریلوی کرکٹر کو بھی نہ بخشا
دوسری جانب دنیا بھر میں 3 رافیل طیاروں کے زمین بوس ہونے اور جعلی خبریں پھیلانے پر دنیا بھر میں ہندوستان کو شدید ٹرولنگ کا سامنا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جنرل اسمبلی سے خطاب، وزیراعظم نے جذباتی انداز اپنالیا، ڈائس پر مکّے برسادیے
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے جذباتی انداز میں ڈائس پر مکّے برسادیے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی۔ اس دوران جذباتی انداز میں ڈائس پر مکے برسائے، جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ہر سال موسمیاتی تبدیلی کے باعث تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس نقصان کے ازالے کے لیے مزید قرض لیں۔ شہباز شریف نے پُرعزم لہجے میں کہا کہ ”یہ کسی صورت انصاف نہیں ہے“۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر کس طرح ایسے ممالک سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قرضوں کا بوجھ بڑھائیں جب کہ موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں ان کا کوئی کردار نہیں۔