اقوام متحدہ امن مشنز کو درپیش خطرات پر قابو پانے کی ضرورت ہے، وزیراعظم کا عالمی دن پر پیغام
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ امن مشنز کو درپیش خطرات اور چیلنجز پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے امن دستوں کے عالمی دن پر اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے امن دستوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ یہ دن نہ صرف اقوام متحدہ کے امن دستوں کی جانب سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حصول میں دی گئی لاتعداد قربانیوں کی ایک یاددہانی ہے بلکہ ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال دنیا کے لیے ان امن دوستوں کے اہم کردار کا اعتراف ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشن کی 7 دہائیوں پر محیط تاریخ میں 235,000 سے زائد پاکستانی امن دستوں نے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے 48 مشنز میں امتیازی خدمات انجام دی ہیں جب کہ 181 پاکستانی امن فوجیوں نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے حصول میں اپنی جان کی لازوال قربانیاں دی ہیں۔
یہ دن اقوام متحدہ کی امن فوج کو درپیش بہت سے چیلنجوں کا جائزہ لینے کا ایک مناسب موقع ہے، جیسے بڑھتی ہوئی یکطرفہ پالیسیاں، مالی پابندیاں، اقوام متحدہ کے امن دستوں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات، غلط معلومات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی امن کارروائیوں کو نشانہ بنانا اور نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے غیر مستحکم اثرات وغیرہ۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج کے دن میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی کامیاب پالیسیوں کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کرے اور اقوام متحدہ کی امن فوج کو ان تیزی سے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں کو دوگنا کیا جائے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی ہولناک پامالی اور علاقائی امن و استحکام پر حملہ قرار دیا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ دنیا بھر میں ثالثی اور مذاکراتی عمل کی ساکھ پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی حمایت یافتہ ثالثی میں شامل فریقین کو نشانہ بنانے سے قطر کے بطور ثالث اور فروغ امن کے لیے کام کرنے والے کردار کی حیثیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ Tweet URLانہوں نے کہا کہ ایسے شہریوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے جو براہِ راست جنگی کارروائیوں میں شامل نہ ہوں۔
(جاری ہے)
جب ممالک جنگ کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے تمام شہریوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ حماس کا وفد قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے موجود تھا، جو کہ امن کی جانب نہایت اہم قدم ہے۔ہائی کمشنر نے کہا کہ 'ہمارے دل غزہ کے شہریوں، اسرائیلی یرغمالیوں، ان کے پیاروں اور ان افراد کے لیے رنجیدہ ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں ناجائز قید کاٹ رہے ہیں۔
ماورائے قانون جنگ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں شہریوں کے لیے بے پایاں مظالم اور تکالیف سے بھرپور مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رکن ممالک کو امن کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔'عالمی برادری سے اپیلوولکر ترک نے کہا کہ دوحہ پر اسرائیلی حملہ اس وقت پیش آیا ہے جب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی امید ماند پڑ رہی ہے جبکہ یہی حل پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔
شمالی غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو بیدخل کیا جا رہا ہے جبکہ مشرقی یروشلم میں آبادی کاری منصوبہ جاری ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے حکومتی وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے ہولناک دہشت گرد حملوں اور ان کے بعد پھیلنے والے تشدد کو تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔
اب اس قتل و غارت کو رک جانا چاہیے۔رکن ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کریں اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کریں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ہتھیار شامل ہیں جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستوں کو جنگ بندی، تمام یرغمالیوں اور ناجائز حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر ترسیل کے لیے بھرپور دباؤ ڈالنا چاہیے۔
ریاستی دہشت گردیکونسل سے خطاب کرتے ہوئے قطر کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی المسند نے کہا کہ اسرائیلی حملہ نہ صرف اُن کے ملک کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی تھا اور یہ عمل ریاستی دہشت گردی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد قطری ثالثی نے قابلِ قدر نتائج دیے جن میں 135 یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی شامل ہے جس سے اسرائیلی خاندانوں میں اعتماد اور امید کی بحالی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کو نشانہ بنانا نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے مزید جانیں بچانے اور امن کے حصول کے امکانات کو بھی نقصان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حملہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وسیع مہم کا حصہ ہے۔
یہ ایک ایسی خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو خطے و دنیا کو بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی کی طرف دھکیل سکتی ہے اور جو کچھ دوحہ میں ہوا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔