حال ہی میں شنگریلا ڈائیلاگ میں بریفنگ دیتے ہوئےچیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا حل ناگزیر ہے۔

ان کے اس بیان میں عالمی طاقتوں کےلیے کھلا پیغام ہے کہ اس خطے میں خصوصاً پاک بھارت تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ درحقیقت یہ خطرہ اب سب ہی محسوس کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کو پاک بھارت کی حالیہ پیدا ہوتی جنگ کو فوراً ہی سیز فائر کی جانب لانے کےلیے درمیان میں آنا پڑا حالانکہ اس سے چندروز قبل ہی وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پاک بھارت معاملے میں ’نیوٹرل‘ رہیں گے۔

بلاشبہ خطے کے ان نئے حالات کا سب کو ادراک ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ( سربراہ عوام پاکستان پارٹی) نے بھی گزشتہ روز ’ہیمون پیس فورم انٹرنیشنل‘ کے زیر اہتمام ’جنوبی ایشیا کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال میں پاکستان کو درپیش چیلنج‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان حال ہی میں سرحدوں کے محاذ پر بھارت کو شکست دے چکا ہے اور دنیا میں ہماری فوج کی برتری ثابت ہوچکی ہے لیکن دیگر محاذ پر ہمیں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گو کہ ہماری فوج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے مگر اس موقع پر بھی بہت سے ممالک پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہے کیونکہ ان کے بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کو مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بھی فروغ دینا ہوگا اور پڑوسیوں سے بھی برابری کی سطع پر اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔

اس موقع پر مفتاح اسمٰعیل اور ڈاکٹر شجاعت حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا سمیت تمام لوگوں کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ان حالات کو نہ صرف بین الاقوامی برادری سمجھے اور اپنا فعال کردار ادا کرے بلکہ خود بھارت اس صورتحال کو اور ان زمینی حقائق کو سمجھے۔ اب نہ تو دنیا اس پرانے ’دو قطبی‘ نظام والے دور میں ہے کہ اپنے اتحادیوں کی پشت پناہی سے پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جاسکے اور نہ ہی پاکستان دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور ہے کہ کوئی ’سرجیکل آپریشن‘ کرکے پاکستان کو دباؤ میں لایا جاسکے۔

بات سیدھی سی ہے کہ اب دونوں ملکوں کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں امن قائم ہو، آپس میں نہ صرف تجارت ہو بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت ہو، بالکل اسی طرح جس طرح کہ پاکستانی اور بھارتی عوام دیگر کسی ممالک میں سفر کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام بے شمار مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے دانشور ایک دوسرے کے ملک میں ہونے والے پروگراموں میں نہیں جاسکتے، دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کا ہونا بھی دشوار ہے، سگے رشتے دار برسوں میں بھی اپنے پیاروں سے مل نہیں سکتے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی ماضی میں کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر جب بھی یہ کوشیشیں کامیاب ہونے لگتی ہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما ہوجاتا ہے کہ جس سے یہ ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دورے حکومت میں بس سروس اور تجارت کے حوالے سے اچھی کوششیں کی تھیں مگر یہ بھی کسی واقعے کی نذر ہوگئیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت لوگوں کی ہجرت تاریخ کی ایک سب سے بڑی ہجرت تھی کہ جس میں لاکھوں خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہوگئے۔ شروع کی دہائی میں تو یہ خاندان بغیر ویزے کے ایک دوسرے ملک میں باآسانی اپنے رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے تھے مگر رفتہ رفتہ دونوں ملکوں کی پالیساں سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئیں اور اب یہ حال ہے کہ ویزے کا حصول ہی ناممکن ہوگیا ہے۔

دنیا اب بدل رہی ہے، حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ بنگلہ دیش کے بھی حالات تبدیل ہوئے ہیں اور وہ بھی پاکستان کے ساتھ سفری آسانیاں پیدا کر رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے عوام باآسانی ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں اور تجارت بھی کرسکیں۔ تجارت کے حوالے سے تو پاکستان اور بھارت کے صرف تاجروں کو ہی نہیں، دونوں اطراف کے عوام کو بھی بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بہت ساری اشیاء پاکستانی عوام کو سستی مل سکتی ہیں اور اسی طرح بھارتی عوام کو بھی بہت ساری اشیاء سستی مل سکتی ہیں۔ گویا امن اور محبت کا راستہ دونوں ملکوں کےلیے نہایت مفید ہے لیکن اس کو اپنانے کےلیے پہلے ایک دوسرے کے وجود کو دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔

بھارت کا اصل مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، جس کی ایک وجہ یقیناً بھارت کی سیاسی صورتحال ہے کہ جہاں ووٹ کے حصول کے انتہا پسند جماعتیں پاکستان دشمنی کے نعرے کو استعمال کرتی آرہی ہیں۔ بہرحال پاکستان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان سے جاری ہونے والے بیانیے خواہ وہ فوج کی جانب سے ہوں یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے، سب نے امن، محبت اور برابری کے تعلقات کی بات کی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی حال ہی میں یہی پیغام دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین برابری کی بنیاد پر، اچھے دوستانہ اور تجارتی تعلقات بھی ہونے چاہئیں، اب بھارت کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے، جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم یا دوستانہ تعلقات؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک دوسرے کے پاکستان کے کے عوام عوام کو کو بھی

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں تو اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔اسی لئے پاکستان نے مزاکرات میں یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ آفغان طالبان کے امیر پاکستان میں حملوں کے خلاف فتویٰ دیں۔دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک پریشر tool کے طور پر استعمال کر کے بین الاقوامی منظر نامے پر زیر بحث رہ کر پاکستان اسلامی ممالک چین اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اسکا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کاروائیاں روکنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں لہذا ان کی اس سلسلے میں مطلوبہ امداد فراہم کی جائے اس طرح سے چین جس کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس کا ایک صوبہ بھی افغان علاقے سے دراندازوں کی کاروائیوں کا شکار ہے اور اسلامی ممالک امریکہ اور یورپ سے معاشی فوائد حاصل کئے جائیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغان طالبان انڈیا سے معاشی فوائد حاصل کرکے اس کی پراکسی کے طور پر یا کھلی جھڑپوں کے ذریعے انڈیا کو دفاعی سطح پر فائدہ پہنچا رہا ہے۔

کیونکہ اس وقت انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک میں فوجی مشقیں شروع کی ہوئی ہیں اور انکے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سیاسی ذمہ داراں پاکستان کو سبق سکھانے اور آپریشن سیندور کے جاری رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لہذا اس طرح سے دو سرحدی محاذوں اور اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیذریعے پاکستان کو الجھا کر بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہے گا۔اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اس کے مطابق مناسب وقت پر کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی افغان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان وارئیر گروہ کی ہر طرح کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو گزشتہ چار سالوں سے ان کی طرف سے مسلح شدت پسندی کا سامنا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ’ویندا فلباب براؤن‘ کی رائے ہے کہ طالبان حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی طالبان حکومت کے لئے نظریاتی یا عسکری خطرہ نہیں تب تک افغان طالبان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔

دوسری طرف سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان میں موجود مقیم غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اٹھارہ روز سے جاری تجارتی بندش کو دباوء برھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور طالبان رجیم کو کھلم کھلا غیر جمہوری قرار دے کر اس کے مخالفین کو تھپکی دی جا رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اور سفارتی و فوجی دباو اسلامی ممالک کی ناراضگی کا خطرہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔بہر صورت پاکستان کو اس پیچیدہ صورت حال سے احسن طریقے سے نمٹنے کیلئے امریکہ'چین 'سعودی عرب ایران' ترکیہ قطر سمیت اپنے تمام دوست اور برادر اسلامی ممالک سے مشاورت اور تعاون کے ساتھ ایسی متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دشمن ممالک کے ناپاک عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • پاکستان اور جنوبی افریقا کی ٹیمیں فیصل آباد پہنچ گئیں
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہونا خوش آئند اقدام ہے، حنیف طیب
  • ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری
  • امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ، خطے میں نئی صف بندی کا آغاز
  • امریکا اور بھارت نے 10 سال کے لیے دفاعی معاہدہ کرلیا