حال ہی میں شنگریلا ڈائیلاگ میں بریفنگ دیتے ہوئےچیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا حل ناگزیر ہے۔

ان کے اس بیان میں عالمی طاقتوں کےلیے کھلا پیغام ہے کہ اس خطے میں خصوصاً پاک بھارت تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ درحقیقت یہ خطرہ اب سب ہی محسوس کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کو پاک بھارت کی حالیہ پیدا ہوتی جنگ کو فوراً ہی سیز فائر کی جانب لانے کےلیے درمیان میں آنا پڑا حالانکہ اس سے چندروز قبل ہی وہ کہہ رہے تھے کہ وہ پاک بھارت معاملے میں ’نیوٹرل‘ رہیں گے۔

بلاشبہ خطے کے ان نئے حالات کا سب کو ادراک ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ( سربراہ عوام پاکستان پارٹی) نے بھی گزشتہ روز ’ہیمون پیس فورم انٹرنیشنل‘ کے زیر اہتمام ’جنوبی ایشیا کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال میں پاکستان کو درپیش چیلنج‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان حال ہی میں سرحدوں کے محاذ پر بھارت کو شکست دے چکا ہے اور دنیا میں ہماری فوج کی برتری ثابت ہوچکی ہے لیکن دیگر محاذ پر ہمیں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گو کہ ہماری فوج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے مگر اس موقع پر بھی بہت سے ممالک پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہے کیونکہ ان کے بھارت کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کو مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بھی فروغ دینا ہوگا اور پڑوسیوں سے بھی برابری کی سطع پر اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔

اس موقع پر مفتاح اسمٰعیل اور ڈاکٹر شجاعت حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل شمشاد مرزا سمیت تمام لوگوں کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ان حالات کو نہ صرف بین الاقوامی برادری سمجھے اور اپنا فعال کردار ادا کرے بلکہ خود بھارت اس صورتحال کو اور ان زمینی حقائق کو سمجھے۔ اب نہ تو دنیا اس پرانے ’دو قطبی‘ نظام والے دور میں ہے کہ اپنے اتحادیوں کی پشت پناہی سے پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جاسکے اور نہ ہی پاکستان دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور ہے کہ کوئی ’سرجیکل آپریشن‘ کرکے پاکستان کو دباؤ میں لایا جاسکے۔

بات سیدھی سی ہے کہ اب دونوں ملکوں کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں امن قائم ہو، آپس میں نہ صرف تجارت ہو بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت ہو، بالکل اسی طرح جس طرح کہ پاکستانی اور بھارتی عوام دیگر کسی ممالک میں سفر کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام بے شمار مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے دانشور ایک دوسرے کے ملک میں ہونے والے پروگراموں میں نہیں جاسکتے، دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کا ہونا بھی دشوار ہے، سگے رشتے دار برسوں میں بھی اپنے پیاروں سے مل نہیں سکتے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی ماضی میں کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر جب بھی یہ کوشیشیں کامیاب ہونے لگتی ہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما ہوجاتا ہے کہ جس سے یہ ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دورے حکومت میں بس سروس اور تجارت کے حوالے سے اچھی کوششیں کی تھیں مگر یہ بھی کسی واقعے کی نذر ہوگئیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت لوگوں کی ہجرت تاریخ کی ایک سب سے بڑی ہجرت تھی کہ جس میں لاکھوں خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہوگئے۔ شروع کی دہائی میں تو یہ خاندان بغیر ویزے کے ایک دوسرے ملک میں باآسانی اپنے رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے تھے مگر رفتہ رفتہ دونوں ملکوں کی پالیساں سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئیں اور اب یہ حال ہے کہ ویزے کا حصول ہی ناممکن ہوگیا ہے۔

دنیا اب بدل رہی ہے، حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ بنگلہ دیش کے بھی حالات تبدیل ہوئے ہیں اور وہ بھی پاکستان کے ساتھ سفری آسانیاں پیدا کر رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے عوام باآسانی ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں اور تجارت بھی کرسکیں۔ تجارت کے حوالے سے تو پاکستان اور بھارت کے صرف تاجروں کو ہی نہیں، دونوں اطراف کے عوام کو بھی بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بہت ساری اشیاء پاکستانی عوام کو سستی مل سکتی ہیں اور اسی طرح بھارتی عوام کو بھی بہت ساری اشیاء سستی مل سکتی ہیں۔ گویا امن اور محبت کا راستہ دونوں ملکوں کےلیے نہایت مفید ہے لیکن اس کو اپنانے کےلیے پہلے ایک دوسرے کے وجود کو دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔

بھارت کا اصل مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، جس کی ایک وجہ یقیناً بھارت کی سیاسی صورتحال ہے کہ جہاں ووٹ کے حصول کے انتہا پسند جماعتیں پاکستان دشمنی کے نعرے کو استعمال کرتی آرہی ہیں۔ بہرحال پاکستان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان سے جاری ہونے والے بیانیے خواہ وہ فوج کی جانب سے ہوں یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے، سب نے امن، محبت اور برابری کے تعلقات کی بات کی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی حال ہی میں یہی پیغام دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین برابری کی بنیاد پر، اچھے دوستانہ اور تجارتی تعلقات بھی ہونے چاہئیں، اب بھارت کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے، جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم یا دوستانہ تعلقات؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک دوسرے کے پاکستان کے کے عوام عوام کو کو بھی

پڑھیں:

جنوبی ایشیا میں تنازعات کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتے ہیں: جنرل ساحر شمشاد مرزا

سنگاپور (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کئی غیر حل شدہ تنازعات ہیں جو کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے۔

 نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق جنرل ساحر شمشاد مرزا نے یہ بات سنگاپور میں جاری شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران ایک اہم خطاب میں کہی، انہوں نے فورم پر جنوبی ایشیا میں تنازعات کے حل کے حوالے سے 8 اہم نکات پیش کیے۔

انہوں نے کہا کہ ایشیا پیسفک کو مضبوط بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنوبی ایشیا میں دو اہم جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت موجود ہیں جن کے درمیان مسئلہ کشمیر اب تک حل طلب ہے، جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔

مریم نفیس کا کرکٹر اعظم خان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مداح جان کر حیران

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کئی دوسرے حل طلب مسائل بھی پائے جاتے ہیں، یہ تنازعات کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، اس سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ہمیں ادارہ جاتی پروٹوکول، ہاٹ لائنز کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ ایشیا پیسیفک اب اکیسویں صدی کا جیوپولیٹیکل کاک پٹ بن چکا ہے، جہاں سٹریٹجک کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، خطے میں بحرانوں سے نمٹنے کے ادارہ جاتی نظام نہ صرف نازک ہیں بلکہ غیر مساوی بھی ہیں، جس کی وجہ سے تنازعات کی شدت کم کرنے کے لیے مؤثر مکالمہ اور تعاون کا فقدان ہے۔

ایف بی آر کی بینکوں سے کیش نکلوانے پرودہولڈنگ ٹیکس دوگنا کرنے کی تجویز

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے کہا کہ پائیدار کرائسس مینجمنٹ کے لیے باہمی برداشت، واضح ریڈ لائنز اور مساوی رویہ ناگزیر ہے، جب تک فریقین کو برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا، کوئی بھی سٹریٹجک فریم ورک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ایڈہاک اقدامات ناکافی ہیں، خطے کو ایسے ادارہ جاتی پروٹوکولز، فعال ہاٹ لائنز، کشیدگی میں کمی کے لیے طے شدہ طریقہ کار اور مشترکہ کرائسس مینجمنٹ مشقوں کی ضرورت ہے۔

جنرل ساحر شمشاد نے زور دیا کہ مصنوعی ذہانت، سائبر حملے اور رئیل ٹائم بیٹل فیلڈ سرویلنس جیسے جدید حربے سٹریٹجک فیصلوں پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، اس لیے کرائسس مینجمنٹ میکنزم میں ان جدید حقیقتوں کو شامل کیا جانا چاہئے۔

پاک ایران تعلقات میں نئی بلندیاں، باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر طاقت اور مفادات اب اخلاقیات، اصولوں، ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت، انسانی حقوق اور انصاف جیسے اقدار سے بالاتر ہو چکے ہیں، نظریاتی یا علاقائی اختلافات کو دبانے سے نہیں بلکہ پُراعتماد مکالمے اور مؤثر سٹریٹجک کمیونیکیشن سے ہی حل کیا جا سکتا ہے، غلط فہمیاں اور گمراہ کن معلومات کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور آگاہ کیا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے۔

بابراعظم کی فینز سے اُلجھنے کی وجہ بھی بالآخر سامنے آگئی

جنرل ساحر شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ پاکستان بھارت سے باعزت، برابری اور احترام پر مبنی مستقل امن کا خواہاں ہے، مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل جنوبی ایشیا میں امن کی بنیاد ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے، جس کا حل ناگزیر ہے، پاکستان اصولوں پر مبنی ایسا عالمی نظام چاہتا ہے جو خودمختاری اور ضبط و تحمل پر قائم ہو۔

انہوں نے کہا کہ پہلگام کے بعد پاک بھارت جنگ کی صورتحال خطے کی ترقی کو خطرے میں ڈال رہی ہے، بحران سے نمٹنے کا مؤثر نظام نہ ہونے سے عالمی طاقتیں بروقت مداخلت سے قاصر ہیں، پاکستان کے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوشش قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔

سب سے زیادہ عازمین کو حج پر بھیجنے والے 10 ممالک میں پاکستان  اس دفعہ کس نمبر پر رہا؟ پتہ چل گیا

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عام شہریوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا، پاکستان مسلسل بھارت اور عالمی برادری سے باضابطہ مذاکراتی نظام کی بحالی کا مطالبہ کر رہا ہے، برابری، اعتماد اور حساسیت کی پاسداری کے بغیر کوئی بھی بحران مؤثر طور پر حل نہیں ہو سکتا۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • وسط ایشیائی ریاستیں، تجارتی تعلقات کی نئی راہیں
  • پاکستان اور اٹلی کے درمیان سفارتی تعلقات کی ایک بھرپور اور قابل فخر تاریخ ہے،عطاء تارڑ
  • پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ
  • پاکستان اور افغانستان کا سفارتی تعلقات اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان اور بنگلا دیش کو قریب لانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے: صدر مملکت
  • جنوبی ایشیا میں تنازعات کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتے ہیں: جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • جنوبی ایشیائی خطے میں نیوکلیئر تصادم کا خطرہ موجود ہے، جنرل شمشاد مرزا
  • سعودی عرب امریکا سے پہلے پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے متحرک تھا، سفارتکار جاوید حفیظ
  • آئندہ تصادم ہوا تو پورے پاکستان، بھارت میں ہو گا: جنرل ساحر