سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی 69ویں سالگرہ22جون کو منائی جائیگی
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
جڑانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 جون2025ء) سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی 69ویں سالگرہ22جون کو منائی جائے گی اس سلسلے میں جڑانوالہ سمیت دیگر علاقوں میں منعقدہ سالگرہ تقریبات میں مخدوم شاہ محمود قریشی کی فوری رہائی اور درازی عمر کیلئے دعائیں مانگی جائیں گی۔جنوبی پنجاب کے شہر ملتان کے اہم سیاسی و مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی22جون 1956ء کو پیدا ہوئے وہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پنجاب کے گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی کے فرزند ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نی1985ء سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیاوہ ملتان سے ایم پی اے منتخب ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی صوبائی کابینہ میںبطور وزیر خزانہ شامل ہو گئے۔(جاری ہے)
1993ء کے عام انتخابات کے موقع پر وہ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہوئے اور وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی کابینہ میں وزیر زراعت بنی2001ء میں وہ ملتان کے ضلع ناظم بنے فروری2008ء میں وہ جہانیاں سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعدازاں ملتان سے ایم این اے بنے اور مارچ2008ء میں وہ وزیر خارجہ بن گئیوہ9فروری2011ء وزیر خارجہ رہے نومبر 2011ء میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا وہ 27نومبر 2011کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے،وہ سابق وزیر خارجہ ہیں مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان میں درگاہ عالیہ بہائوالدین زکریا اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے سجادہ نشین اور روحانی پیشوا بھی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مخدوم شاہ محمود قریشی
پڑھیں:
سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور عالمی سطح پر اسرائیل کو درپیش تنہائی کے پیش نظر صہیونی ریاست کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایہود اولمرٹ نے عالمی برادری کو درپیش سنگین مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا اور غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے کو ایک ’جرم‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو کی حکومت اندرونی و بیرونی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست اپیل کی کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے آفس بلائیں اور میڈیا کے سامنے انہیں واضح الفاظ میں کہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے، ختم کرو یہ سب۔
یہ مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی جنگ کے جاری رہنے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔اولمرٹ کا یہ بیان جو ایک سابق سربراہ حکومت کی حیثیت سے سامنے آیا ہے، نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نیتن یاہو کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک وزیرِاعظم کی حیثیت سے نیتن یاہو کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حملے کے بعد عالمی برادری نے ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی، لیکن صورتحال اس وقت پلٹ گئی جب نیتن یاہو نے جنگ بندی ختم کر کے فوجی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی اور اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کے اس اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔
اولمرٹ کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، جس کا خمیازہ اسرائیل کو دنیا میں تنہا ہو کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جو نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ نیتن یاہو پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر جنگ روک دی گئی تو ان کے اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے، جس کے نتیجے میں دوبارہ الیکشن کرانا پڑیں گے۔
سابق وزیراعظم نے پیش گوئی کی کہ ایسے کسی بھی الیکشن میں نیتن یاہو کی شکست واضح ہو گی۔ یہ سیاسی تجزیہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے اندرونی ڈھانچے اور نیتن یاہو کی قیادت کو درپیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے۔