ترکیبی وعدہ صادق 3 صیہونی حکومت کی آج کی برائیوں اور جارحیت کے جواب میں صیہونی لڑاکا طیاروں کے ایندھن کی پیداواری تنصیبات اور توانائی کی فراہمی کے مراکز کو ڈرونز اور میزائلوں کی ایک جھنڈ سے نشانہ بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے دوسرے اعلامیے میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں کے ایندھن کی پیداواری تنصیبات اور توانائی کی فراہمی کے مراکز کو وعدہ صادق 3 کی نئی لہر میں ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کا دوسرا اعلامیہ بڑے پیمانے پر جارحانہ ڈرون میزائل آپریشن صادق وعدہ 3 کی نئی لہر کے بارے میں شائع ہوا۔ اعلان کا متن حسب ذیل ہے:

بسم‌ الله الرحمن الرحیم
فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَیْکُمْ۔۔۔۔ سوره بقره (آیه ۱۹۴)
جارحانہ کارروائی کے تسلسل میں۔۔۔۔ ترکیبی وعدہ صادق 3 صیہونی حکومت کی آج کی برائیوں اور جارحیت کے جواب میں صیہونی لڑاکا طیاروں کے ایندھن کی پیداواری تنصیبات اور توانائی کی فراہمی کے مراکز کو ڈرونز اور میزائلوں کی ایک جھنڈ سے نشانہ بنایا گیا۔ اگر شرارتیں اور جارحیتیں جاری رہیں تو مسلح افواج کا جارحانہ آپریشن ج۔ا، مزید بھیانک اور وسیع تر ہوتا جائے گا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا ایرو اسپیس ڈیفنس سسٹم، مربوط نیٹ ورک اور ملک کے مشترکہ فضائی دفاعی ہیڈکوارٹر کی کمان میں، مختلف علاقوں میں صہیونی فوج کے 3 کروز میزائلوں، 10 ڈرونز اور درجنوں چھوٹے طیاروں کو روکنے اور تباہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈرونز اور مراکز کو

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی پر سینسرشپ کی مغربی تلوار

اسلام ٹائمز: محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔ تحریر: محمد انیسی تہرانی
 
"غزہ میں فلسطینی شہریوں کے دکھ اور بھوک ناقابل بیان ہے۔ اگرچہ گذشتہ طویل عرصے سے غزہ کی صورتحال بہت نازک تھی لیکن اب وہ شدید بحرانی صورت اختیار کر چکی ہے اور روز بروز بری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔" یہ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کے سوشل میڈیا ایکس پر پیغام کا ایک حصہ ہے۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ کے پاس دنیا کے معروف ترین میڈیا ذرائع موجود ہیں لیکن جب ہم 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ جنگ سے متعلق اس کی فعالیت اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غزہ میں انجام پانے والے اسرائیلی مجرمانہ اقدامات کی کوریج کے لحاظ سے اس کی کارکردگی نہ فقط انتہائی ناقص ہے بلکہ قابل مذمت ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے نہ صرف غزہ میں صیہونی جرائم فاش نہیں کیے بلکہ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
 
اگرچہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے واضح اور ناقابل انکار شواہد موجود ہیں اور اس کی تصدیق عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ نیز ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس میں بھی ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے غاصب صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی۔ اس کے بعد موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نہ صرف اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت اور مدد پر مبنی پالیسی جاری رکھی بلکہ غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینیوں کو جبری طور پر نکال باہر کر کے وہاں امریکی تسلط کا مطالبہ بھی کر دیا۔ دوسری طرف مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ جیسے نیویارک ٹائمز، ایسوسی ایٹڈ پریس، رویٹرز، بی بی سی وغیرہ نے غزہ جنگ کے دوران صرف اور صرف جرائم پیشہ صیہونی حکمرانوں کے گناہ دھونے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔
 
فلسطینیوں کی نسل کشی میں برطانوی معاونت کو چھپانا
2025ء میں جمی رابرٹز اور یوسف حماش نے مل کر غزہ جنگ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جس کا نام ہے "غزہ: ایک جنگ زدہ علاقے میں کس طرح زندہ رہیں؟"۔ یہ فلم بی بی سی کی درخواست پر بنائی گئی ہے اور اس میں غزہ کے چار جوان فلسطینی شہریوں پر فوکس کیا گیا ہے۔ بی بی سی نے یہ بہانہ بنا کر اس دستاویزی فلم کو اپنے پروگرامز سے نکال دیا کہ اس کا مرکزی کردار ایک ایسا فلسطینی جوان ہے جو حماس کی حکومت میں فعالیت انجام دے چکا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ فلسطینی جوان ایک سائنسدان کا بیٹا ہے جس نے غزہ میں حماس حکومت کی زراعتی پالیسیوں کا اجراء کیا تھا اور اس کا نام ایمن الیازوری تھا۔ اس بارے میں کوئی شواہد نہیں پائے جاتے کہ ایمن الیازوری حماس میں فوجی یا حتی سیاسی فعالیت انجام دیتا تھا۔
 
دراصل صیہونی رژیم کی حامی لابیز کا دباو اس بات کا باعث بنا کہ بی بی سی اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرے۔ اسی طرح اس دستاویزی فلم کی دوسری قسط کی فلم بندی مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دی گئی۔ صیہونی رژیم کے حق میں حقیقت پر پردہ ڈالنے کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ بی بی سی نے ایک اور دستاویزی فلم "غزہ: حملے کا شکار ڈاکٹرز" بھی نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فلم میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ میں طبی مراکز کے 1600 کارکنوں کے قتل عام کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ بی بی سی کے اس اقدام پر ردعمل دکھاتے ہوئے خود بی بی سی کے ہی سو کارکنوں نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی خط لکھا جس میں اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرنے کی مذمت کی گئی تھی اور اس اقدام کو "خوف" اور "فلسطین مخالف نسل پرستی" کا شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی کی پہلی ترجیح برطانیہ اور امریکہ میں جاری تعاون کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔
 
18 مارچ کے قتل عام کی اسرائیل کے حق میں تفسیر
18 مارچ 2024ء کی صبح غاصب صیہونی فوج نے غزہ کے شہری علاقوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا جس کے ابتدائی لمحات میں ہی 412 فلسطینی شہید اور 500 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے۔ اخبار لوموند کے مطابق اس حملے میں 52 جگہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے اس حملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اسرائیل کے حق میں تفسیر کی اور اسرائیلی موقف کو دہرایا کہ یہ حملہ حماس سے وابستہ فوجی کمانڈرز کو نشانہ بنانے کے لیے انجام پایا ہے۔ لیکن کسی بھی مغربی میڈیا نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا ایک شہری علاقے میں ہزار کے قریب عام شہریوں کو شہید اور زخمی کر دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے ہم نے "فوجی اہداف" کو نشانہ بنایا ہے؟ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں یہ حملہ جنگی جرم ہے۔ مغربی ذرائع نے "مزید تحقیق" کا بہانہ بنا کر اس واقعے پر مٹی ڈال دی۔
 
غزہ میں قومی صفایا
محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نتین یاہو غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے، اسرائیلی اخبار
  • اقوام متحدہ کانفرنس؛ فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے 15 ماہ کا وقت طے، اسرائیل امریکا برہم
  • ’جن طیاروں کی پوجا لیموں اور مرچ سے کی گئی تھی، وہ کہاں گئے‘؟ بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ
  • خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ آگئی، اعلامیہ جاری
  • 22 ماہ سے جاری وحشیانہ صیہونی حملے، فلسطینی شہداء کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرگئی
  • غزہ سے سوڈان تک بھوک کو جنگی ہتھیار نہیں ہونا چاہیے، یو این چیف
  • فلسطینیوں کی نسل کشی پر سینسرشپ کی مغربی تلوار
  • وزیراعظم شہباز شریف نے شاہزیب رند سے کیا گیا انعام کا وعدہ نبھا دیا
  • غزہ میں متحدہ عرب امارات اور اردن کے طیاروں نے ٹنوں وزنی امدادی سامان گرایا
  • چین نے طاقتور ترین ایئر ڈیفنس میزائل ’ ایچ کیو-29 ‘ ایجاد کر لیا