Islam Times:
2025-06-16@11:21:32 GMT

F-35 گرا کر ایران نے جنگی مساوات تبدیل کر دی

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

F-35 گرا کر ایران نے جنگی مساوات تبدیل کر دی

اسلام ٹائمز: صیہونی لڑاکا طیارہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاعی نظام کا مقابلہ کرنے میں زیادہ موثر اور کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ تقریباً 100 ملین ڈالر لاگت کا یہ لڑاکا طیارہ اسرائیل کے الیکٹرانک جنگی سازوسامان اور تربیت یافتہ پائلٹوں سے لیس ہے، جسے ایران کے ایک مقامی دفاعی نظام کے ساتھ اپنے پہلے سنگین تصادم میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ جس چیز نے صیہونی حکومت کو ایران کے خلاف امید پیدا کی اور جسے اسلامی جمہوریہ ایران کی روایتی فوجی طاقت کے مقابلے میں ٹرمپ کارڈ سمجھا جا رہا تھا وہ اس حکومت کی فضائیہ کی برتری تھی۔ F-35 کو مغربی ایشیائی خطے میں صہیونی فضائیہ کی برتری کا "تاج" سمجھا جاتا تھا۔ خصوصی رپورٹ

اسرائیل کی فضائی طاقت، خفیہ اور ناقابل شناخت F-35 لڑاکا طیاروں پر مبنی تھی، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ وہ خطے میں اس کی فوجی برتری کا ذریعہ ہے۔ تاہم ایران کے ساتھ اس لڑاکا طیارے کے پہلے تصادم میں، ایران نے ان میں سے دو کو مار گرایا ہے۔ دنیا کے دفاعی ماہرین کے مطابق ریڈار سے بچ کر حملہ کرنیوالا F-35 لڑاکا جیٹ اس وقت اپنی نوعیت کا بہترین لڑاکا طیارہ ہے۔ یہ لڑاکا طیارہ دنیا میں تحقیق اور ترقی کے طویل ترین دورانیہ پر مشتمل کوشش کا نتیجہ ہے، اس کے ڈیزائن، پیداوار اور فعال ہونے میں تقریباً ایک دہائی لگ گئی۔ اس عمل کے لیے کئی سو ارب ڈالر کے مالی وسائل امریکی، یورپی اور یہاں تک کہ کچھ خلیجی ممالک نے فراہم کیے تھے۔ اس لڑاکا طیارے کو صیہونی حکومت نے جنگ میں استعمال کیا ہے۔

صہیونیوں نے اس لڑاکا طیارے کی کارکردگی کو منفرد اور انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کے لیے قادر کا خطاب منتخب کیا۔ نیتن یاہو نے نواتیم ایئربیس پر تعینات F-35 سکواڈرن کے دورے کے دوران اس لڑاکا طیارے کے بارے میں فخر کیساتھ دعویٰ کیا کہ اب سے وہ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ خیال اس وقت ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا، جب ایرانی فوج نے یہ اطلاع دی کہ اس نے فضائی دفاع کے کامیاب آپریشن میں دو F-35 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا ہے۔ یہ واقعہ اس جنگ میں گیم چینجر کا کام کرے گا جو صیہونی حکومت نے ایرانی عوام کے خلاف شروع کی ہے۔

لاک ہیڈ مارٹن نے "F-35I Adir" (عبرانی میں Adir کا مطلب قادر اور توانا ہے) کے نام سے اس کا ایک ورژن تیار کیا ہے اور اسے اسرائیلی فضائیہ کو فراہم کیا ہے۔ نو F-35 لڑاکا طیاروں کی پہلی کھیپ دسمبر 2017 میں فورس کو دی گئی تھی۔ 13 نومبر 2022 تک، اسرائیلی فضائیہ 36 F-35 طیاروں کے ساتھ مسلح ہو چکی ہے، جس کا ایک اہم حصہ نواتیم ایئربیس پر تعینات ہے۔ تین اسکواڈرن، 140ویں، 161ویں اور 117ویں، اسرائیلی فضائیہ میں اس فائٹر کے اہم استعمال کنندہ ہیں۔ مختلف اسرائیلی حکام نے اس طیارے کی بہت مبالغہ آمیز وضاحتیں کی ہیں۔ ان میں حکومت کی فضائیہ کے سابق کمانڈر امیر ایشل بھی ہیں۔

جنہوں نے F-35 کو "گیم چینجر" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ صہیونیوں نے 2017 کے اوائل میں ایک ہی پرواز کے دوران اس لڑاکا طیارے کے ساتھ بہت اہم معلومات جمع کی تھیں، جنہیں دیگر ذرائع سے معلومات کی اتنی مقدار کو اکٹھا کرنے میں چند ہفتوں سے زیادہ کا وقت لگا تھا۔ جولائی 2019 میں، نواتیم ایئربیس کے دورے کے دوران، نیتن یاہو نے تہران کو "خبردار کیا" کہ "اسرائیل کو اپنے F-35 جیٹ طیاروں کے سکواڈرن پر انحصار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی مقام تک رسائی حاصل ہو گی، جس میں ایران اور یقیناً شام بھی شامل ہے۔" ایک اور صہیونی اہلکار نے بھی اعلان کیا کہ F-35I کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ "اس میں اسرائیلی مخصوص صلاحیتیں موجود ہیں۔"

اگرچہ امریکہ نے ابتدا میں اس طیارے میں اسرائیلی برقی جنگی سازوسامان کے انضمام کی مخالفت کی تھی، لیکن بعد میں اس نے صہیونیوں کو ایسی اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ اسرائیلی ورژن کے لیے پائلٹ کا ہیلمٹ بھی صہیونیوں نے خود ڈیزائن اور تیار کیا تھا لیکن امریکی فنڈنگ ​​سے۔ توقع ہے کہ یہ طیارہ کم از کم 30 سے ​​40 سال تک صیہونیوں کی طاقت شمار ہو گا۔ لڑاکا طیارہ اسرائیلی ساختہ الیکٹرانک جنگی سازوسامان سے لیس ہے۔ مارچ 2022 تک، نواتیم ایئربیس پر F-35 طیاروں کی تعداد 33 تک پہنچ گئی۔ اسی سال جون میں، F-35 لڑاکا طیارے نے فضائی ایندھن بھرنے کی ضرورت کے بغیر ایران پر حملہ کرنے کی ایک مشق کی اور 12 نومبر کو مزید 3 F-35 طیارے مقبوضہ علاقوں پر قابض رجیم کو دیئے گئے۔

جو نواتیم بیس پر 141 ویں سکواڈرن میں شامل ہو گئے، جس سے صیہونی حکومت کے پاس ان جنگی طیاروں کی تعداد 36 ہو گئی۔ صیہونی حکومت درحقیقت اس "طاقت ور" جنگی طیارے کی واحد آپریشنل آپریٹر ہے۔ صیہونی حکومت نے ایران کے اندر براہ راست اہداف پر حملے کے لئے طویل فاصلے تک پرواز کرنے اور دکھائی دیئے بغیر لڑنے والے طیارے سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت کے پیش نظر F-35 حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کی اور جب کہ یہ طیارہ اب بھی تحقیق و ترقی کے مراحل میں ہے، یہ اسے استعمال بھی کر رہے ہیں، کامیابی کے دعوے بھی کر رہے ہیں، اسی دوران ایران نے اسے نشانہ بنا کر گرا لیا ہے۔

اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ "طاقتور" صیہونی لڑاکا طیارہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاعی نظام کا مقابلہ کرنے میں زیادہ موثر اور کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ تقریباً 100 ملین ڈالر لاگت کا یہ لڑاکا طیارہ اسرائیل کے الیکٹرانک جنگی سازوسامان اور تربیت یافتہ پائلٹوں سے لیس ہے، جسے ایران کے ایک مقامی دفاعی نظام کے ساتھ اپنے پہلے سنگین تصادم میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ جس چیز نے صیہونی حکومت کو ایران کے خلاف امید پیدا کی اور جسے اسلامی جمہوریہ ایران کی روایتی فوجی طاقت کے مقابلے میں ٹرمپ کارڈ سمجھا جا رہا تھا وہ اس حکومت کی فضائیہ کی برتری تھی۔ F-35 کو مغربی ایشیائی خطے میں صہیونی فضائیہ کی برتری کا "تاج" سمجھا جاتا تھا۔

فضائی جنگوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی فضائی دفاعی نظام نے F-35 لڑاکا طیاروں کی شناخت اور انہیں تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے پہلے، یہ طیارے صرف آپریشنل غلطی یا دوستانہ فائر کی شدت (اندرونی دفاعی علاقوں میں) کی وجہ سے گر کر تباہ ہوئے ہیں۔ یوکرین روس جنگ میں بھی، اگرچہ روس نے F-35 طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس دعوے کی کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلے میں اس معاملے میں ایرانی فضائی دفاعی افواج کی کارکردگی نے ایرانی فوج کی جانب سے سرکاری تصاویر اور رپورٹس کے اجراء کے ساتھ، اسے عالمی فضائی دفاع میں ایک تاریخی ریکارڈ کے طور پر پیش کرنے کے لیے ضروری ساکھ فراہم کی ہے۔

F-35 لڑاکا طیاروں نے، اپنے سمارٹ کیموفلاج ڈیزائن کے ساتھ، روایتی ریڈاروں کی کھوج کی صلاحیتوں کو سختی سے محدود کر دیا ہے۔ یہ بہت کم ریڈار کراس سیکشن (RCS) کے ساتھ اہداف کا پتہ لگانے اور ان سے باخبر رہنے میں مقامی ایرانی ریڈار اور میزائل سسٹم جیسے Bavar-373 کی نمایاں پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کے ریڈار سسٹم، ڈیٹا پروسیسنگ، اور گائیڈڈ میزائلوں کے درمیان ہم آہنگی جدید دفاعی ڈھانچے کی ترقی کی نشاندہی کرتی ہے جو الیکٹرانک جنگ اور متعدد حملوں جیسے پیچیدہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ کارروائی نہ صرف فضائی جارحیت کے خلاف ایران کی فضائی دفاعی افواج کی مکمل تیاری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ دشمنوں کو ایک قاطع  پیغام بھی دیتی ہے کہ ایران فضائی برتری کے ذریعے تزویراتی متبادل پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تزویراتی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر صیہونی حکومت کی جانب سے ایرانی اسٹریٹجک اہداف پر حملہ کرنے کے لیے F-35 طیاروں کے استعمال کے تناظر میں۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ دیگر ممالک کے لیے ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے جو جدید فضائی دفاع میں سرمایہ کاری کر کے جدید خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

یہ کارروائی دنیا کی فوجی تاریخ میں اولین آپریشن تصور کی جائے گی جس میں F-35 لڑاکا طیاروں کو زمینی فضائی دفاعی نظام کے ذریعے تباہ کیا گیا تھا۔ یہ کامیابی نہ صرف علاقائی اور عالمی سطح پر ایران کی تکنیکی آپریشنل برتری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ جدید فضائی دفاع کے لیے کثیرالجہتی اور مربوط دفاعی نظام کی ضرورت ہے۔ یہ فتح، ایک مبینہ بڑے سائبر حملے کی شکست کے ساتھ، ایران کی جدید جنگ کے تمام پہلوؤں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران فضائیہ کی برتری F 35 لڑاکا طیاروں نواتیم ایئربیس جنگی سازوسامان اس لڑاکا طیارے الیکٹرانک جنگ صیہونی حکومت کا مقابلہ کر لڑاکا طیارہ فضائی دفاعی دفاعی نظام فضائی دفاع طیاروں کی F 35 طیاروں حکومت کی ایران کے کی فضائی ایران کی کے ساتھ کے خلاف کرنے کی کرتی ہے کی اور کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ایران کے آگے جھک گیا، نیتن یاہو کا اعتراف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">یروشلم: صیہونی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ ’’اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام ’ایران کے نئے میزائل حملے‘ کے سامنے جھک گئے‘‘، ایران کے داغے گئے میزائلوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بارود سے بھری ایک بس اسرائیل کے شہر سے ٹکرانے والی ہو۔

 

برطانوی اخبار ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ الفاظ بینجمن نیتن یاہو نے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں کہے ہیں، جو ہفتے کے اختتام پر اسرائیل پر داغے گئے تھے۔

اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق، تہران جمعہ سے اتوار تک اسرائیل پر 200 سے زاید میزائل داغ چکا ہے اور ایران کے داغے گئے بیشتر میزائل اسرائیل کے مشہور فضائی دفاعی نظام ’’تھاڈ‘‘ اور ’’آئرن ڈوم‘‘ کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف پر گرے، جس کے بعد فوج کو عوام کو خبردار کرنا پڑا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام ’’ناقابلِ تسخیر نہیں‘‘ ہے۔

تل ابیب کی سڑکوں پر تباہی کے مناظر نے اسرائیل کے اس دفاعی نظام پر تشویش پیدا کردی ہے، جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا

متعلقہ مضامین

  • فلپائن کا جنوبی کوریا سے جدید لڑاکا طیاروں کا معاہدہ
  • اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ایران کے آگے جھک گیا، نیتن یاہو کا اعتراف
  • اسرائیل کے توانائی کے جنگی سپلائی مراکز کو تباہ کر دیا گیا ہے، سپاہ پاسداران کا اعلامیہ نمبر2
  • اسرائیل کے توانائی کے جنگی سپلائی مراکز کو تباہ کر دیا گیا ہے، سپاہ پاسداران کا اعلامیہ نبمر 2
  • برطانیہ کا مزید جنگی طیارے مشرق وسطیٰ بھیجنے کا اعلان
  • بجٹ اور دولت کی تقسیم عدم مساوات
  • بڑی خبر، ایران نے اسرائيل کے کم سے کم 2 ایف-35 طیارے مار گرائے
  • ایران کا اسرائیل کے 2 جنگی طیاروں کو مار گرانے، خاتون پائلٹ کو حراست میں لینے کا دعویٰ
  • ایران پر اسرائیلی حملے، پی آئی اے نے فلائٹ پلان تبدیل کردیا