بجٹ 2025ء اور ابن آدم کی ٹوٹی کمر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مجھے آج سے 40 سال پہلے کا بجٹ بھی یاد ہے جب جون کے مہینے میں تمام عوام کو بجٹ کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ سرمایہ دار بجٹ سے پہلے اُن اشیا پر سرمایہ لگاتا تھا جس کا اُس کو اندازہ ہوتا کہ آنے والے بجٹ میں اس اشیا پر پیسے بڑھیں گے۔ سرکاری ملازم کو انتظار ہوتا کہ اُس کی تنخواہ بڑھنے والی ہے، پنشنرز کو انتظار ہوتا کہ اُس کی پنشن میں اضافہ ہوگا۔ اُس زمانے میں اتنے ٹیکس بھی نہیں ہوتے تھے آج تو عوام ٹیکس پر ٹیکس ادا کررہی ہے۔ KE کے خلاف عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو اللہ کی مخلوق نے ایک درخواست پیش کی جس میں تحریر ہے کہ کے ای سمیت ملک بھر میں تمام الیکٹرک سپلائز کمپنیز سے درج ذیل 13 نکاتی ٹیکسز کی وضاحت طلب کی جائے۔
-1 بجلی کی قیمت ادا کردی تو اس پر کون سا ٹیکس؟
-2 کون سے فیول پر کون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟
-3 کس پرائس پر الیکٹر سٹی پر کون سی ڈیوٹی؟
-4 کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟
-5 بجلی کے یونٹس کی قیمت ’’جو ہم ادا کرچکے‘‘ پر کون سی ڈیوٹی اور کیوں؟
-6 ٹی وی کی کون سی فیس، جبکہ ہم الگ سے پیسے دے کر کیبل استعمال کرتے ہیں؟
-7 جب ماہانہ بل ادا کیا جاتا ہے تو یہ کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟
-8 کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟
-9 جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کررہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
-10 کس چیز کے اور کون سے Further ’’اگلے‘‘ چارجز؟
-11 ودہولڈنگ چارجز کس شے کے؟
-12 میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟
-13 بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟
-14 اگر گزشتہ 6 ماہ میں ایک دفعہ بھی آپ کے یونٹ 200 کو ٹچ کرجائیں تو اگلے 6 ماہ آپ کے یونٹ کا ریٹ پہلے 200 یونٹ والا ہی ہوگا۔ جبکہ ہر مہینے ادائیگی کرنے پر بار بار ادائیگیاں۔ یہ کون سا ظلم کا فارمولا ہے۔ اس کے علاوہ ہر 100 یونٹ کے بعد ایک سلیب الگ بنا رکھا ہے۔ اتنے ظالمانہ ٹیکس لینے کے بعد بھی ہوس نہیں بھری تو ہر 100 یونٹ کے بعد 500 کا بھتا الگ رہتا ہے۔ یہ ظلم کا ایسا نظام ہے جو ہمارے ملک کے سوا کسی اور ملک میں رائج نہیں، مگر شاباش ہے حکومت اور حکومتی اداروں کو جن کو یہ ظلم نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی لوڈشیڈنگ الگ۔ ابن آدم سوچ رہا تھا کہ شاید موجودہ حکومت کو اپنے عوام پر ترس آجائے مگر بجٹ 2025ء نے ابن آدم کی اس سوچ کو تبدیل کردیا، موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جس کو صرف حکومت نے پیش کیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام، ان کی تعداد، شرح اور انہیں جمع کرنے کا طریقہ کار ہمیشہ سے حکومت اور صنعتی و تجارتی حلقوں کے درمیان تنازعات کا باعث رہا۔ فی الواقع کاروباری برادری ٹیکس دینا چاہتی ہے، فکس ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن اکثر لوگ نظام سے خوفزدہ ہیں۔ صرف ایک بجلی کے بل پر کئی کئی مدوں میں ٹیکس لاگو ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا ٹیکس نظام عوام دوست بنایا جائے مگر حکومت اس میں ناکام نظر آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سال کا پیش کردہ وفاقی بجٹ کبھی بھی عوامی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتا لیکن اس سال کا وفاقی بجٹ تو سرے سے ہی عوام توقعات اور خواہشات سے مطابقت نہیں رکھا۔ دنیا بھر کے ممالک عوام کو ریلیف دینے کے بجٹ میں اقدامات اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر دفعہ بجٹ میں غریب عوام سے قربانی مانگ کر ملک کے 15 فی صد اشرافیہ کو ریلیف دینے کے لیے بجٹ آتا ہے۔
حالیہ بجٹ بھی پہلے بجٹ کی طرح ایک گورکھ دھندا نظر آتا ہے۔ اس مرتبہ حکومت نے سرکاری ملازمین کو ہری جھنڈی دیکھا دی کہ آئی ایم ایف بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کو تیار نہیں تو دوسری طرح بجٹ کے اعلان سے پہلے ہی ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی وفاقی و صوبائی وزرا مشیران اسپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور الائونس میں تقریباً 300 سے بھی کہیں زیادہ اضافہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا کہ حکومت صرف اپنا پیٹ بھر رہی ہے اُسے ملک کے غریب عوام سے کوئی دلچسپی، مجھے محمود خان اچکزئی کی تجویز بہت پسند آئی کہ جو حکومتوں میں رہے ان کی وسائل سے زیادہ جائدادیں ضبط کرکے آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کیا جائے۔ بات ہے بھی سچ اس وقت اگر صرف 3 سیاسی پارٹیوں کے وزرا، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے کو اگر دیکھیں تو ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ پاکستان کا سارا قرضہ باآسانی اُتر سکتا ہے۔ اول جماعت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان آج یہ سب ارب پتی بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان میں تو اختیارات کی رسا کشی آج بھی جاری مگر اتنی ہمت کرے گا کون کیونکہ ان کو تو عوام لے کر آئے نہیں ہیں ان کی تو راتوں رات لاٹری نکل آئی جو شخص علاقے کے کونسلر کے قابل نہیں تھا وہ اسمبلیوں میں جا کر بیٹھ گیا، ملک میں حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں ہے لہٰذا ان کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بس اداروں کو فروخت کرنے کی تیاری میں لگے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اوپر والے نہیں چاہتے کہ اس قوم کی حالت بدلے، واحد جماعت اسلامی ہے جو عوام کا درد رکھتی ہے باقی تو ملک کو تباہ کرنے والی کمپنی کے ملازم ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے مطابق اگر آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے تو بجلی کی فی یونٹ قیمت آدھی ہوسکتی ہے۔ مگر حکومت نے آپ کے دھرنے پر وعدہ کیا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا آپ کو دوبارہ سے میدان میں آنا ہوگا عوام کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ امیر نے کہا کہ جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت پر خاموش نہیں رہ سکتی، آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا اداروں کے اپنے مفاد میں ہے۔ بجٹ میں مراعات یافتہ طبقہ پر مزید مراعات کی بوچھاڑ کی گئی ہے۔ تنخواہ دار، کسان، مزدور اور عام آدمی کے لیے بجٹ میں رتی برابر سہولت نہیں، حکومت اشیا ضروریہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے عام آدمی کو سہولت دے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنی جدوجہد سے ملک میں موجود قیادت کے خلا کو پُر کرسکتی ہے۔ عوامی حقوق کی جدوجہد سے جماعت اسلامی کے قدم آگے بڑھے ہیں، یہ چومکھی جدوجہد ہے جو جماعت کے کارکن کو کرنی ہے اور معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد رکھنی ہے۔ ہم نے رائے عامہ کو بہترین حکمت عملی سے تبدیل کرکے اپنا حامی بنانا ہے۔ معاشرے میں موجود ظالمانہ نظام کا خاتمہ کرکے منصفانہ نظام قائم کرنا ہے، کارکن اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں کامیابی ضرور ملے گی۔
ابن آدم کہتا ہے آج کے پرآشوب دور میں فلسفہ انسانیت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جو آپ کو جماعت اسلامی کے اندر نظر آتا ہے آخر میں فیس بک کی اس پوسٹ کے ساتھ کالم ختم کرتا ہوں۔ بجٹ میں صحت کے لیے ’’ہوالشافی‘‘، تعلیم کے لیے ’’ربّ زدِنی علما‘‘ اور روزگار کے لیے ’’واللہ خیر الرزاقین‘‘ کے وطائف مختص کیے ہیں، حکومت کی اعلیٰ ظرفی قابل تحسین ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی پر کون کون سی کے لیے
پڑھیں:
گھر بنانے یا فلیٹ خریدنے والوں کیلئے خوشخبری، حکومت نے بڑی سہولت دے دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں گھر بنانے یا فلیٹ خریدنے والوں کے لیے خوشخبری آ گئی ہے۔ اب شہری آسانی سے اپنے گھر کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں، کیونکہ حکومت نے فنانس بل کے تحت انہیں ٹیکس کریڈٹ کی بڑی سہولت فراہم کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2500 اسکوائر فٹ تک فلیٹس خریدنے یا گھر تعمیر کرنے پر اب ٹیکس کریڈٹ دیا جائے گا۔ اس سہولت کے تحت مارگیج فنانسنگ اسکیم کے ذریعے حاصل کردہ قرض پر ادا کیے جانے والے سود کا 30 فیصد تک ٹیکس کریڈٹ حاصل کیا جا سکے گا، جس سے گھریلو مالی بوجھ میں واضح کمی آئے گی۔
اجلاس میں رجسٹرڈ کاروباروں کے لیے ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی مدت بھی محدود کر دی گئی۔ اب کسی بھی رجسٹرڈ کاروبار کو نقصان کی صورت میں صرف 2 سال تک ہی ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ہو گی، جبکہ اس سے قبل یہ مدت 3 سال تھی۔
نئے فنانس بل میں ای کامرس اور ای بزنس کو بھی انکم ٹیکس قوانین میں باقاعدہ شامل کر لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، 20 لاکھ روپے تک کے ٹیکس کیسز کو آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن (ADR) میں نہ بھیجنے کی شق بھی نئے قانون کا حصہ بنائی گئی ہے۔
یہ تمام اقدامات حکومت کی اس کوشش کا حصہ ہیں کہ عام شہریوں کو رہائشی سہولیات فراہم کی جائیں اور ٹیکس نظام کو زیادہ مؤثر اور واضح بنایا جا سکے۔