Express News:
2025-06-23@21:26:49 GMT

کیمبل پور کے قلب میں ضلع اٹک کے ایک سفر کی دلچسپ داستان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

شمشان گھاٹ

خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتے ہی دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ایک پرانی عمارت نظر آئے گی۔ یہ پرانا شمشان گھاٹ ہے جہاں ہندو اپنے مردے جلایا کرتے تھے۔ اب عرصے سے یہ ویران پڑا ہے۔

خیرآباد ریلوے اسٹیشن

پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں داخل ہوئے تو خیرآباد کُنڈ شہر نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ چھوٹا سا شہر تعمیراتی پتھر اور گرینائیٹ کی بہت بڑی منڈی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب مغل شہنشاہ اکبر خیر خیریت سے تند و تیز دریائے سندھ پار کر کے اس جگہ اترا تو اس کے منہ سے ’’خیرآباد‘‘ کے الفاظ نکلے۔ تب سے اس جگہ کا نام خیرآباد رکھ دیا گیا کہ بادشاہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی تو قیمتی ہوتے تھے۔

ہماری پہلی منزل اس کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ خیر آباد کُنڈ کا ریلوے اسٹیشن قلعہ بند ہے اس لیے اس کا کوئی مرکزی دروازہ نہیں۔ سو گھومتے گھماتے ہم نے راستہ تلاش کیا اور اس کے پلیٹ فارم کے ذریعے اندر داخل ہوئے۔

تصاویر اتار رہے تھے کہ اسٹیشن ماسٹر صاحب آئے اور سلام دعا کے بعد اسٹیشن کے بارے بتانے لگے۔ اٹک خورد اور جہانگیرہ روڈ اسٹیشن کے بیچ واقع خیرآباد کنڈ کا ریلوے اسٹیشن برطانوی نوآبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا جہاں اب چند مال گاڑیوں کے علاوہ کوئی مسافر ٹرین نہیں رکتی۔ یہ اسٹیشن چونکہ دریا کنارے حساس جگہ واقع ہے سو اسے ایک قلعہ بند ریلوے اسٹیشن کے طور پہ تعمیر کیا گیا تھا۔

اس اسٹیشن کے قریب کچھ خوب صورت سرنگیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ہم نے یہاں رحمان بابا ایکسپریس ڈاؤن، کی کراسنگ کو فلمایا اور صوابی کے اسٹیشن ماسٹر صاحب سے اجازت لے کر اگلی منزل کی جانب چل دیے۔

کابُل سندھ سنگم

دریائے سندھ پار کریں تو خیرآباد کا شہر آپ کا استقبال کرتا ہے جہاں کچھ اندر کی طرف افغانستان کے کوہ ساروں اور پختونخواہ کے میدانوں سے بہتا ہوا دریائے کابل آ کر کیلاش پربت کے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ یہ جگہ سڑک کے بالکل کنارے واقع ہے جہاں کابل کا گدلا اور سندھ کا شفاف پانی مل کے بھی نا ملتے نظر آتا ہے یعنی یہاں دریا تو ملتے ہیں لیکن کچھ راستے تک ان کا پانی نہیں ملتا۔

اسی کے قریب وہ جگہ ہے جہاں سے دریائے سندھ میں سے سونا ملنے کی خبریں میڈیا پر چلتی نظر آئی تھیں جو درحقیقت درست ہے کہ وہاں کئی کرینیں بیک وقت کام کرتی نظر آئیں۔ خیرآباد جائیں تو کابل کنارے بیٹھ کر کابلی پلاؤ اور چپلی کباب کھانا مت بھولیے گا۔

اٹک خورد پُل

پاکستان ریلوے کا یہ خوب صورت پل دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بیچ واقع ہے جہاں ٹرین ایک صوبے سے دوسرے میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر خیرآباد ضلع نوشہرہ کی پہاڑیاں جب کہ دوسرے پر اٹک خورد کا خوب صورت اور خواب ناک سا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔

جیسے ہی انگریز سرکار نے موجودہ پنجاب و خیبرپختونخواہ کی سرحد کے آس پاس کے علاقوں کو اپنے ساتھ ملایا، تو اٹک میں دریائے سندھ کو پار کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کردیا۔ اٹک کے مقام پر کراسنگ کو فوجی حکمت عملی کی وجہ سے شروع سے ہی بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ 1853 میں، کرنل کروملین نے دو ڈیزائن تجویز کیے، دونوں میں ہی دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے معلق پلوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ ڈیزائن منظور نہ ہوسکا لیکن برطانویوں نے سردیوں کے لیے کشتیوں کا ایک بہتر پل، گرمیوں کے لیے فیری بوٹس اور ڈاک کے لیے ہلکی کشتیاں فراہم کر دیں۔

1859 میں کرنل رابرٹسن کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے سرکار انگلشیہ نے اس جگہ ایک سرنگ بنانے کی منظوری دی لیکن پانی کی لیکیج اور مشینیی حادثوں سمیت دیگر مسائل بڑھتے چلے گئے۔

اب تک برطانوی حکومت 59,300 روپے خرچ کرچکی تھی جو اصل تخمینہ سے کہیں زیادہ تھے۔ سرنگ کی تعمیر اس وقت تک روک دی گئی جب تک کہ تمام مسائل کا سدباب نہ کر لیا جائے۔

جب دریائے سندھ کی تہہ میں بننے والی اس سرنگ پر کام روکا گیا تو بورنگ کے دونوں سروں کے درمیان صرف 258 فٹ کا فاصلہ بچ گیا تھا۔ یہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس منصوبے کے ترک کر دینے کے بعد اگلی دو دہائیوں تک یہاں کوئی کراسنگ نہ بن سکی یہاں تک کہ دوسری افغان جنگ شروع ہوئی اور ریلوے لائن کو پشاور تک پہنچانے کا حکم نامہ آگیا۔

اٹک پل کو اصل میں سر گلڈ فورڈ مولس ورتھ نے ڈیزائن کیا تھا جو سری لنکا ریلوے کے پہلے جنرل مینیجر بھی تھے، جسے اس وقت سیلون ریلوے کہا جاتا تھا۔ اس آہنی ڈھانچے کو مسٹر جانسن اور سر فرانس او کالگہن نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا۔

 یہاں دریا کے بیچ میں ایک بہت بڑی چٹان کو مرکز کے گھاٹ کی بنیاد بنایا گیا جب کہ باقی تمام بنیادیں پانی سے اوپر تعمیر کی گئیں۔ یہ پل لوہے کے پانچ حصوں پرمشتمل تھا، تین 257 اور دو 312 فٹ لمبے۔ اس کے دونوں طرف قلعہ نما داخلی دروازے تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ دروازے پہلے رات ہوتے ہی بند کردیے جاتے تھے اور انہیں تالہ لگا دیا جاتا تھا لیکن ایوب خان کے دور سے یہ بند نہیں کیے گئے۔

اس پل کو مئی 1883 میں ٹریفک کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس کی دوبارہ مرمت 1925 سے 1929 کے دوران کی گئی تھی۔ پل کی تعمیرنو ایک مشکل کام تھا کہ اسے ٹرینوں کے گزرنے کے درمیانی وقفے میں بنایا جاتا تھا جو زیادہ سے زیادہ بلاتعطل تین گھنٹے اور عام طور پر صرف ایک گھنٹہ ہوتا تھا۔

 دوبارہ تعمیر شدہ پل 30 اگست 1929 کو کھولا گیا جس پر سے ایک ہی براڈ گیج لائن گزرتی ہے۔

اٹک خورد ریلوے اسٹیشن

پُل کے قلعہ نما دروازوں کے اس پار اٹک خورد کا ریلوے اسٹیشن ہمارا منتظر تھا۔

آپ سب اس بات سے واقف تو ہوں گے کہ پاکستان میں تقریباً تمام ریلوے لائنیں جو دریائے سندھ کے غربی جانب بچھائی گئی تھیں، ان کا مقصد خالصتاً فوجی اور دفاعی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کے مغرب میں تقریباً تمام سرنگوں اور پلوں پر بْرجوں کے ساتھ قلعہ بند دروازے دیکھے جا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر سکھر کا لینس ڈاؤن پل، کھوجک ٹنل، درہ بولان کی تقریباً تمام سرنگیں، سبی تا ہرنائی روٹ پر تقریباً تمام پل اور اٹک پل۔ یہاں تک کہ لاہور ریلوے سٹیشن کو بھی ایک دفاعی اثاثہ کے طور پر محفوظ رکھنے کے لیے بُرج بنائے گئے تھے۔

اٹک خورد ضلع اٹک کا ایک قصبہ ہے جو اٹک شہر سے الگ ہے (کئی لوگ اسے اٹک سمجھتے ہیں)۔ خورد ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے چھوٹا، یعنی یہ اٹک خورد، چھوٹا اٹک ہے۔ اسی کا مترادف لفظ کلاں ہے جو بڑے علاقوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے چکوال کا بُچل کلاں اور بُچل خورد۔ جب ایک جیسے نام کے دو علاقے قریب قریب واقع ہوں تو ان کی پہچان کورد اور کلاں سے کی جاتی تھی۔

 1885 میں بنایا جانے والا اٹک خورد کا اسٹیشن، برطانوی طرزِتعمیر کا عمدہ نمونہ ہے جو اسٹیشن سے زیادہ کسی برطانوی ڈیوک کا محل یا مہمان خانہ لگتا ہے۔ یہ اسٹیشن، دریائے سندھ، اٹک پل اور قلعہ اٹک سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے خوب صورت ٹرین اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسٹیشن میرا بھی پسندیدہ ہے کہ یہاں کا منظر کسی خوابیدہ جگہ جیسا لگتا ہے۔ ایک طرف پٹڑی کا خم ہے تو دوسری طرف پل، سامنے پہاڑیاں ہیں تو پیچھے دریا۔۔۔ اس جگہ تو ٹرینوں کا میلہ لگنا چاہیے تھا لیکن سواریاں انتہائی کم ہونے کی وجہ سے یہاں کسی ٹرین کا اسٹاپ نہیں ہے۔

راول پنڈی اور پشاور کے بیچ چلنے والی تمام ٹرینیں یہاں سے گزرتی ہیں لیکن رکتی صرف ایک ہے، سفاری ٹرین جو راولپنڈی سے اٹک خورد کے لیے 2024 سے دوبارہ چلائی گئی ہے۔ یہ سفاری ٹرین ہر اتوار راولپنڈی اسٹیشن سے صبح سوا آٹھ چلتی ہے اور گولڑہ شریف، حسن ابدال، اٹک، اٹک خورد سے ہوتے ہوئے شام پانچ بجے واپس پہنچتی ہے۔ اس سفر میں سیاحوں کو مختلف مقامات اور میوزیم دکھانے کے علاوہ چائے اور دوپہر کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے سیاح اس کی بکنگ موبائل ایپ سے کر سکتے ہیں۔

اٹک خورد کے اسٹیشن میں ایک حصے کو گولڑہ اسٹیشن کی طرز پر عجائب گھر کی شکل دی گئی ہے جہاں ریلوے انجنوں کے ماڈل، دفتری سامان، لیمپس اور دیگر آلات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ قریب ہی ماضی میں استعمال ہونے والی دو مسافر بوگیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

آس پاس پہاڑ، دریائے سندھ اور قلعہ نما برجیوں والا پُل اس سٹیشن کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

ہم یہاں شام تک رُکے اور رحمان بابا ایکسپریس کے گزرنے کے بعد اس اسٹیشن کو الوداع کہا اور آگے بڑھ گئے۔

کارتوس مانومنٹ

ہماری اگلی منزل کارتوس مانومنٹ تھا جسے ہم واپسی کے لیے چھوڑ آئے تھے۔

پُل کی طرف جاتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے ایک چبوترے پر مجھے ایک کارتوس بنا نظر آیا جسے ہم نے واپسی پر جا کر دیکھا تو یہ پٹھان رجمنٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی گئی ایک یادگار تھی۔

کارتوس یادگار دریائے سندھ کے کنارے اٹک ریلوے پل اور اٹک قلعے کے بیچ میں واقع ہے۔ یہاں ایک چبوترے پر بڑا کارتوس بنایا گیا ہے جس کے چاروں طرف مختلف تختیاں لگی ہیں۔ یہ تختیاں اردو، انگریزی ہندی اور پشتو زبان میں ہیں جن پر یہ الفاظ کندہ ہیں؛

 یہ یادگار، صاحبان و سرداران و عہدیداران و سپاھیان

پلٹن نمبر 40 پٹھان

جو جنگ میں مارے گئے اور بالخصوص

بہ اعزاز

ان اشخاص کے جنہوں نے جنگِ عظیم میں اپنی جانیں نثار کیں۔

یہ نشان ان کے رفیقوں نے جنگ ایپرس کی چوتھی سالگرہ کے دن

بتاریخ 26 اپریل 1919ء نصب کیا

 

TO THE MEMORY

 OF ALL RANKS BRITISH AND INDIAN OF THE  40TH PATHANS

WHO HAVE FALLEN IN ACTION AND PARTICULARLY

IN HONOUR OF

THOSE WHO CAVE THEIR LIVES IN THE GREAT WAR OF

1914-1948.

THIS MONUMENT WAS RAISED BY THEIR COMRADES

ON THE FOURTH ANNIVERSARY OF

YPRES DAY 26 APRIL 1919.

ان کے علاوہ یہاں نیچے بھی کچھ تختیاں نصب ہیں جن پر دو تلواروں اور ڈھال کے نشان کے ساتھ 40 پٹھان اور ایک پر شہدائے سولہ پنجاب رجمنٹ کے نام، ان کے رینک، جائے شہادت اور تاریخ کے ساتھ درج ہیں۔

 

 ایک تختی پر انگریزی میں لکھا ہے؛

REDESIGNATED

16 TH BN(PATHAN)

THE PUNJAB REGIMENT

ON 14 MAY, 1956.

ایک اور جگہ لکھا ہے کہ؛

THIS TABLET WAS ADDED IN 1947

IN MEMORY OF

ALL RANKS WHO GAVE THEIR LIVES OR WHO DIED IN CAPTIVITY IN THE SECOND WORLD WAR AND ALSO OF THE 5TH BN (PATHANS) 14TH PUNJAB REGIMENT

WHICH WAS SURRENDERED WITH THE GARRISON OF SINGAPORE

ON 15TH FEBRUARY 1942 AND WAS NOT SUBSEQUENTLY RE-RAISED

یہ سب تختیاں دیکھ لینے کے بعد ہم نے سامنے واقع سرنگ کا دورہ کیا جس کے ماتھے پر اس کا نام ’’راجہ ہودی‘‘ اور سنِ تعمیر 1883 جگمگا رہا تھا۔ اس خوب صورت بل کھاتی سرنگ سے گزر کے ٹریک خیرآباد اسٹیشن پہنچتی ہے۔

یہ ہمارے اس سفر کی آخری منزل تھی سو اس کے بعد ہم نے بائیک کو کک لگائی اور راولپنڈی کی جانب منہ کرکے دوڑ لگا دی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا ریلوے اسٹیشن دریائے سندھ کے اسٹیشن کے جاتا تھا تعمیر کی اٹک خورد ہے جہاں واقع ہے گیا تھا کے لیے کے بعد کے بیچ اس جگہ

پڑھیں:

پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے، امت شاہ

بھارتی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نئی دہلی اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کرے گا اور پاکستان جانے والے پانی کا رخ اندرون ملک استعمال کے لیے موڑ دیا جائے گا۔ ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو وہ پانی کبھی نہیں ملے گا جو اسے "ناجائز طور" پر مل رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا، ہم وہ پانی جو پاکستان جا رہا تھا، نہر بنا کر راجستھان لے جائیں گے، پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جو اسے مل رہا تھا۔ امت شاہ نے کہا ہے کہ نئی دہلی اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کرے گا اور پاکستان جانے والے پانی کا رخ اندرون ملک استعمال کے لیے موڑ دیا جائے گا۔ ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو امت شاہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو وہ پانی کبھی نہیں ملے گا جو اسے "ناجائز طور" پر مل رہا تھا۔

یاد رہے کہ بین الاقوامی سطح پر متفقہ طور پر تسلیم شدہ قوانین کے تحت پانی پر زیریں علاقوں کا حق ہوتا ہے یعنی ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا حق ہے اور یہ پاکستان کے دریا ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان متعدد بار کہہ چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں یک طرفہ طور پر دستبرداری کی کوئی گنجائش نہیں اور پاکستان جانے والے دریائی پانی کو روکنا جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔حکومت پنجاب بھارت کی جانب سے معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی کے امکانات بھی تلاش کر رہی ہے۔

پہلگام میں 26 شہریوں کی اموات کا الزام اسلام آباد پر عائد کرکے انڈیا نے سندھ طاس معاہدے میں اپنی شرکت کو معطل کر دیا تھا، 1960ء میں ہونے والا یہ معاہدہ دریائے سندھ کے پانی کے نظام کے استعمال کو کنٹرول کرتا ہے۔ نئی دہلی نے پہلگام واقعے کو دہشت گردی قرار دیا تھا جبکہ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور شفاف تحقیقات کی پیشکش بھی کی جس سے بھارت فرار ہو گیا۔ بعدازاں بھارت نے اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر جارحانہ حملے کیے جس کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تو بھارت نے امریکہ سے درخواست کر کے جنگ بندی کرائی۔

متعلقہ مضامین

  • او آئی سی کا اسرائیلی جارحیت پر سخت ردعمل، سندھ طاس معاہدے کی پاسداری پر زور
  • سندھ کا ترقیاتی بجٹ ملک کے دیگر صوبوں سے نمایاں طور پر زیادہ ہے، مراد علی شاہ
  • موٹروے پر دلچسپ واقعہ، بیوی بھول کر شوہر گاڑی لیکر نکل پڑا، پولیس نے واپس ملوایا
  • بینظیر خیرات فنڈ 715 ارب روپے مختص
  • ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اقبال میمن سندھ نیب میں طلب
  • ڈیجیٹل کار پارکنگ کیس ، اے جے سی ایل کے دو ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد
  • پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے، امت شاہ
  • ریلوے پلیٹ فارمز پر ناقص اشیاء کی فروخت،مسافروں کی صحت کو خطرات لاحق
  • بنوں: دہشت گردوں کا پولیس اسٹیشن پر کواڈ کاپٹر سے حملہ