نواز شریف نے جب بھی مزاحمت کی ڈیل کرنے کے لیے کی
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 جون 2025ء ) جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے جب بھی مزاحمت کی ڈیل کرنے کے لیے کی، عمران خان ابھی تک اس نظام کے خلاف لڑ رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے سینئر ترین سیاستدان جاوید ہاشمی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نواز شریف نے جب بھی مزاحمت کی، ڈیل کرنے کے لیے کی۔ نواز شریف کے گھر میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔
عمران خان کے ساتھ میں نے ڈسکشنز کی ہیں، وہ بہت زیادہ پڑھا ہوا ہے۔ 8 فروری کو انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود، پولنگ ایجنٹس تک نہ ہونے کے باوجود، عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا، اور وہ ابھی تک اس نظام کے خلاف لڑ رہا ہے۔ جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شوباز شریف تو اپنی مرضی سے پانی نہیں پی سکتا، اس سے مذاکرات کرنے کا کیا فائدہ؟ خان ٹھیک ہی کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیے جائیں، جو اس نظام پر قابض ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کے موقف کو درست سمجھتا ہوں، ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی تو ملک چلے گا، عمران خان رہائی نہیں مانگ رہا وہ رول آف لا مانگ رہا ہے۔ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کو اس وقت چھوڑا تھا جب وہ جرنیلوں کے قریب ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی سیاسی بندہ رہ ہی نہیں گیا، کون سی پارٹی ہے جس کو سیاسی پارٹی کہا جائے، جو آئین اور جمہوریت کی بات نہیں کرتا وہ سیاست نہیں کر رہا۔ جاوید ہاشمی نے ہابرڈ نظام حکومت کی تعریف کرنے پر وزیر دفاع خواجہ آصف کو بھی ناصرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ساتھ ساتھ سنگین الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ سینئر سیاستدان کا کہنا ہے کہ "خواجہ آصف کا باپ بھی ضیاء الحق کے قدموں میں بیٹھا کرتا تھا اور اس کی نوکری کرتا تھا۔ خواجہ آصف بھی اس لیے ہائبرڈ نظام کو اچھا کہہ رہا ہے کیونکہ وہ وزیراعظم بننے کا خواہشمند ہے۔".ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جاوید ہاشمی نے نواز شریف رہا ہے کہا کہ
پڑھیں:
حزب اللہ کے ہتھیار لبنان کی دفاعی ڈھال
اسلام ٹائمز: حزب اللہ لبنان نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خود کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کن موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے اسلحے اور ہتھیاروں کو ریڈ لائن قرار دیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ایک طاقتور اور خودمختار قومی فوج نہ ہونے کے ناطے اسلامی مزاحمت بیرونی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کے دفاع کا واحد ذریعہ ہے۔ دوسری طرف لبنان حکومت جو شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کا شکار ہے، مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے ناجائز مطالبات پورے کر کے مالی امداد وصول کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبنان حکومت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ سوائے تناو میں اضافے اور اندرونی سطح پر مختلف گروہوں میں ٹکراو کے کچھ نہیں نکلے گا۔ اگر اسرائیل یہ محسوس کر لے کہ اسلامی مزاحمت ختم یا کمزور ہو چکی ہے تو وہ پوری طاقت سے دوبارہ حملہ کرے گا اور لبنان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ تحریر: رسول قبادی
ایسے وقت جب لبنان بدستور سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، وزیراعظم نواف سلام کی جانب سے لبنان آرمی کے ذریعے تمام ہتھیار حکومت کی تحویل میں لے لینے کے منصوبے کے اعلان نے ملک بھر میں تناو اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ فیصلہ جو بظاہر حکومت رٹ قائم کرنے کی خاطر انجام پایا ہے حزب اللہ لبنان کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بنا ہے۔ حزب اللہ نے حکومت کے اس فیصلے کو اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کی دفاعی طاقت کمزور کرنے کے امریکی اسرائیلی منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے۔
اندرونی بحران کے سائے تلے بیرونی دباو
جوزف عون کی سربراہی میں کابینہ اجلاس کے بعد نواف سلام کی جانب سے تمام ہتھیار حکومت کی تحویل میں دینے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ نواف سلام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حکومتی فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 سمیت بین الاقوامی قراردادوں کو لاگو کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس قرارداد میں لبنان میں تمام غیر حکومتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے اور سرحد پر صرف فوج تعینات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ فیصلہ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب لبنان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شدید سیاسی اور اقتصادی دباو کا شکار ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق لبنان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی تھامس براک نے لبنانی حکام کے ساتھ اپنے مذاکرات میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کو اسرائیل کی جانب سے جنوبی لبنان پر حملے روکنے اور لبنان کو بین الاقوامی امداد کی فراہمی کی شرط قرار دیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل گذشتہ کئی عشروں سے حزب اللہ لبنان کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے اقتصادی اور سفارتی ہتھکنڈوں کے ذریعے لبنان حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالتے آئے ہیں۔
اسلامی مزاحمت کے ہتھیار، حزب اللہ لبنان کی ریڈ لائن
حزب اللہ لبنان جو خطے کا طاقتور ترین سیاسی مسلح گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے، نے حکومت کے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ حزب اللہ نے اپنے بیانیے میں حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے "عظیم غلطی" قرار دیا جس کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کے کمزور ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ حزب اللہ نے کابینہ کے اجلاس سے اپنے اور امل تحریک کے وزرا کے واک آوٹ کو اس فیصلے کی شدید مخالفت کا عکاس قرار دیا اور اسے تمام قوموں اور جماعتوں پر مشتمل لبنانے معاشرے کے وسیع حصے کا ترجمان جانا۔ حزب اللہ نے عوام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "یہ بحران بھی گزر جائے گا، ہم صبر اور فتح کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسلامی مزاحمت اس حکومتی فیصلے کو امریکی ایلچی کی ڈکٹیشن کا نتیجہ سمجھتی ہے۔"
حزب اللہ کی مخالفت کی وجوہات
حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1)۔ اسرائیل سے درپیش خطرات کا دفاع: حزب اللہ لبنان نے 1982ء میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک مسلسل صیہونی غاصبانہ قبضے اور جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ 2000ء میں جنوبی لبنان کی آزادی اور 2006ء میں اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں اس تنظیم کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ لہذا اب ایسے حالات میں جب اسرائیل بدستور لبنان کی قومی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے حزب اللہ لبنان اپنے پاس موجود اسلحہ اور ہتھیاروں کو لبنان کے دفاع کا ضامن سمجھتی ہے اور انہیں کھونا نہیں چاہتی۔
2)۔ مزاحمت کے تشخص کا تحفظ: حزب اللہ محض ایک فوجی طاقت نہیں بلکہ عوامی حمایت کی حامل ایک سماجی سیاسی تحریک بھی ہے۔ اس گروہ کے پاس موجود اسلحہ مغربی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت اور اس کے تشخص کا حصہ ہے۔ اس کا غیر مسلح ہونا اس کا تشخص کمزور ہو جانے کے مترادف ہے۔
3)۔ فوج اور حکومت پر عدم اعتماد: حزب اللہ لبنان اور اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ لبنان آرمی مغربی طاقتوں کے سیاسی اثرورسوخ اور اقتصادی لحاظ سے مغرب پر انحصار کی بدولت بھرپور انداز میں لبنان کے قومی مفادات کا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔ گذشتہ تجربات جیسے اسرائیلی فوجی جارحیت کے دوران موثر انداز میں ردعمل ظاہر نہ کرنا وغیرہ بھی اس عدم اعتماد کو مزید فروغ دیتے ہیں۔
4)۔ بیرونی دباو اور مڈل ایسٹ منصوبہ: حزب اللہ لبنان کی نظر میں تمام گروہوں کو غیر مسلح کر کے ان کا اسلحہ حکومتی تحویل میں لینے کا منصوبہ درحقیقت امریکہ اور اسرائیل کے اس گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کا حصہ ہے جو خالصتاً امریکی اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی خاطر بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 1990ء میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں ایران اور حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا اور خطے پر اسرائیلی تسلط قائم کرنا شامل ہے۔
مزاحمت یا تسلیم؟
حزب اللہ لبنان نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خود کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کن موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے اسلحے اور ہتھیاروں کو ریڈ لائن قرار دیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ایک طاقتور اور خودمختار قومی فوج نہ ہونے کے ناطے اسلامی مزاحمت بیرونی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کے دفاع کا واحد ذریعہ ہے۔ دوسری طرف لبنان حکومت جو شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کا شکار ہے، مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے ناجائز مطالبات پورے کر کے مالی امداد وصول کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبنان حکومت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ سوائے تناو میں اضافے اور اندرونی سطح پر مختلف گروہوں میں ٹکراو کے کچھ نہیں نکلے گا۔ اگر اسرائیل یہ محسوس کر لے کہ اسلامی مزاحمت ختم یا کمزور ہو چکی ہے تو وہ پوری طاقت سے دوبارہ حملہ کرے گا اور لبنان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔