عمران خان کی پارٹی قیادت کو 10 محرم کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
راولپنڈی:
عمران خان نے پارٹی قیادت کو دس محرم کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایت کردی۔
راولپنڈی اڈیالہ جیل کے قریب اپنی بہنوں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج میری بہنوں کو 15 منٹ ملاقات کا وقت ملا، ایک وکیل ظہیر عباس کو ڈیڑھ منٹ ملاقات کی اجازت ملی، ان کے علاوہ سلمان صفدر، سلمان اکرم راجہ، نیاز اللہ نیازی کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی کوششیں ہیں جس سے بانی کو مائنس کیا جارہا ہے، بانی نے 26 ویں ترمیم کی بات کی ہے اور اس ترمیم کے نتائج واضح ہورہے ہیں، عمران خان نے کہا ہے آپ لوگوں کا ووٹ چوری کرلیں اور کہیں کہ ووٹ کی اہمیت نہیں تو اس کا مطلب مارشل لا لے آئے ہیں، عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنادیں اور ججز کے ساتھ ایسا کریں تو رول آف لاء ختم ہوچکی ہے بانی نے کہا کہ اس کے ساتھ اخلاقیات ختم ہوچکی ہیں۔
علیمہ خان کے مطابق بانی نے کہا ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ ووٹ سے نہیں آئے، میڈیا کی آواز بند کردی گئی ہے، 27 ویں ترمیم لائی جارہی ہے اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیں کیوں کہ لوگوں کی آواز ختم کردی گئی ہے، ہندوستان سے آزادی کے بعد پاکستان کلمہ کے نام پر بنا تھا یہ کلمہ تھا جس کی وجہ سے آج پاکستان قائم ہے قوم کو مکمل طور پر غلام بنایا جارہا ہے اس غلامی سے بہتر ہے میں ساری زندگی جیل میں رہوں۔
علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ 10 محرم کے بعد اس غلامی کے نظام کے بعد تحریک شروع کردیں، بانی نے پنجاب اسمبلی میں مزاحمت کی تعریف کی اور اپوزیشن لیڈر کی تعریف کی اور کہا کہ اس وقت 26 اراکین ہیں جن پر پابندیاں عائد ہیں، اس سے بہتر ہے کہ ہمارے ممبران اسمبلی کے باہر اپنی اسمبلی لگادیں، انھوں نے پارٹی کو کہا ہے کہ 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کریں، بانی نے پارٹی کے لیے ہدایات دے دی ہیں جو سلمان اکرم راجہ کو بتادی ہیں۔
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بانی کو تنہائی میں قید کر رکھا ہے بانی کو جیل میں ان کے حقوق نہیں مل رہے، کتابیں بھی نہیں دے رہے، بانی کہہ رہے تھے 22 گھنٹے تک بند رکھا جاتا ہے اور صرف 2 گھنٹے ملتے ہیں، 10 محرم کے بعد پارٹی احتجاج کا لائحہ عمل دے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محرم کے بعد نے کہا کہا ہے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری
موجودہ وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی مدد سے ڈیڑھ سال پورا کر لیا ہے اور موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک بھر میں فوری طور پر عام انتخابات منعقد ہوتے بھی نظر نہیں آ رہے اور ان ڈیڑھ سالوں میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں سے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جیسی انتخابات سے قبل پیدا ہوتی ہے۔
حکومت پنجاب نے صوبے میں سیلابی صورت حال برقرار ہوتے ہوئے بھی ایسے ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا ہے جب کہ سیلاب متاثرین ابھی تک گھروں سے محروم ہیں یا ان کے گھر ابھی رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ متاثرین کے گھر اور کھیت ابھی تک ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی بحالی کے بغیر پنجاب کے کسی ضلع میں کسی نئے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب و سندھ میں الیکشن سر پر ہے اور مقابلہ ہو رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کا پیپلز پارٹی کے خلاف رویہ جارحانہ ہوگیا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ڈیڑھ سال میں پہلی بار پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ سے واک آؤٹ کیا اور حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے دی ہے جب کہ پی پی کا کہنا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ نہیں، صرف حمایت کر رہی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے مزاحمت اور پی پی مخالف جو تقاریر سامنے آئی ہیں اس میںاگر سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے اور پیپلز پارٹی اپنی حکومتیں برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن کی محتاج نہیں بلکہ (ن) لیگ اپنی وفاقی حکومت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی محتاج ہے مگر نہ جانے کیوں وفاقی حکومت کو خطرے میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کو تنہا اور پیپلز پارٹی کو ناراض کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس موقع کی تاک میں ہے کہ پی پی (ن) لیگ سے ناراض ہو کر اس سے آ ملے جس کی پی ٹی آئی نے پی پی کو پیش کش بھی کی تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کے ساتھ اپوزیشن میں آن بیٹھے اور اب موقعہ ملتے ہی پی پی ایسا کر بھی سکتی ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے لیے یہ کوئی نیا موقعہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کی (ن) لیگی بلوچستان حکومت کو دونوں پارٹیوں نے مل کر ہٹایا تھا اور ایک نئی بلوچستان عوامی پارٹی کا وزیر اعلیٰ اور چیئرمین سینیٹ منتخب کرا چکی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کے مطابق توقع نہ تھی کہ پنجاب حکومت کے اس قسم کے بیانات سننے پڑیں گے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات نے بھی ناراضگی کا اظہار کیااور پی پی کے سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے ہم پنجاب حکومت کے غلط کاموں کی نشان دہی کریں گے اور تنقید بھی کریں گے۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ختم ہونے کی تو پی ٹی آئی شدت سے منتظر ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اختلافات ضرور ہیں مگر پی ٹی آئی (ن) لیگ کو اپنا مخالف سمجھتی ہے جس کے ساتھ بیٹھنے کو وہ کبھی تیار نہیں ہوگی اور مخالفانہ بیانات دونوں پارٹیوں کو قریب آنے کا موقعہ دے رہے ہیں اور سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کا اصل انتخابی مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہی ہونا ہے۔
اس وقت ملک کے دو اہم عہدے صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جو آئینی عہدے ہیں جنھیں ہٹانے کی (ن) لیگ کے پاس طاقت ہے ہی نہیں جب کہ سندھ و بلوچستان کی حکومتیں پیپلز پارٹی کے پاس اور کے پی کی حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور دونوں مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہیں جس کی کامیابی بیرونی قوتوں کی حمایت سے ممکن ہے مگر ایسا ہوگا نہیں اور اگر بات یونہی بڑھتی رہی تو صدر مملکت وفاقی حکومت کے لیے مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔