شمالی افغانستان اور پاکستان سے متصل علاقوں میں، داعش مدرسوں میں بچوں کو شدت پسند نظریات سکھا کر خودکش مشن کے لیے تیار کر رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً 14 سال ہیں۔ اگرچہ طالبان کی کارروائیوں سے داعش کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ گروہ اب بھی نسبتاً آزادی سے کام کر رہا ہے اور اس کے جنگجوؤں میں وسطی ایشیائی، خواتین اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی دہشتگرد گروہوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بن سکتی ہے، جس سے خطے کی سلامتی مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 22 اپریل کے حملے کے بعد خطے کی صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایک نگرانی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشتگرد گروہ ان کشیدہ حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔   یہ تجزیہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کمیٹی کو رواں ہفتے پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی ٹیم کی چھتیسویں رپورٹ میں شامل ہے، جو جنوری تا جون 2025 کی مدت پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشتگرد گروہ، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو استعمال کر کے نہ صرف اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں بلکہ حملوں میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔   رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی دنوں تک گولہ باری اور میزائل فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ حملے کی ابتدائی ذمے داری دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی، مگر بعد میں انکار کر دیا، جس کے بعد اس گروہ کے مبینہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) سے روابط پر بحث چھڑ گئی۔   رپورٹ کے مطابق ایک رکن ملک نے کہا کہ یہ حملہ لشکرِ طیبہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا اور ٹی آر ایف کے ساتھ اس کے تعلقات تھے، جب کہ دوسرے ملک نے ٹی آر ایف کو لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا نام قرار دیا۔ تاہم، ایک اور رکن ملک نے ان خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لشکرِ طیبہ اب غیر فعال ہے، اختلاف رائے رکھنے والے ملکوں کے نام رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔   افغانستان کی سپورٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان کے عبوری حکام سے بھرپور لاجسٹک اور آپریشنل مدد حاصل ہے اور اس کے داعش خراسان، القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی روابط ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک آزاد ماحول میں کام کرنے کی اجازت حاصل ہے، جہاں وہ جدید اسلحے تک رسائی رکھتے ہیں، جس سے ان کی کارروائیوں کی تباہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے پاس تقریباً 6 ہزار جنگجو موجود ہیں۔   رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں مختلف گروہوں نے نیٹو معیار کے ہتھیار اور دیگر سامان سرحد پار اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کے ذریعے حاصل کیے۔ رکن ممالک نے رپورٹ کیا کہ ان میں سے بعض گروہوں نے پاکستانی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے، جن میں سبی (بلوچستان) اور ماچھی (پنجاب) شامل ہیں۔ اگرچہ افغان طالبان کی قیادت میں ٹی ٹی پی سے فاصلہ رکھنے پر داخلی بحث جاری ہے، رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتیں اب بھی مضبوط ہیں۔   رپورٹ میں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹی ٹی پی کی جانب سے تربیت دینے اور افغانستان کے جنوب میں مشترکہ کیمپوں کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں دہشتگردوں کو تربیت دی اور انہوں نے بی ایل اے کے ساتھ چار کیمپ شیئر کیے، جن میں والیکوٹ اور شورابک شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان گروہوں کو القاعدہ کی طرف سے نظریاتی اور اسلحہ کی تربیت بھی دی گئی۔

تاہم کچھ رکن ممالک نے اس اتحاد کو محض ایک غیر جارحانہ معاہدہ قرار دیا، نہ کہ مکمل اتحاد۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے داعش خراسان سے بھی ٹیکٹیکل سطح پر روابط قائم رکھے ہیں، جو ان کی علاقائی کارروائیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں ایک بار پھر افغانستان کی طالبان حکومت پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت نے مختلف دہشتگرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رکھا ہے، جو وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔   داعش بڑھتا ہوا خطرہ رپورٹ کے مطابق، جنوبی و وسطی ایشیا میں سب سے بڑا موجودہ خطرہ داعش خراسان ہے، جس کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 2 ہزار ہے اور اس گروہ کی قیادت سنااللہ غفاری کر رہا ہے۔ داعش خراسان افغانستان، وسطی ایشیا اور روسی شمالی قفقاز میں سرگرم ہے اور یہ شیعہ برادری، غیر ملکیوں اور طالبان حکام کو نشانہ بناتی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ داعش بچوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کر رہی ہے۔

شمالی افغانستان اور پاکستان سے متصل علاقوں میں، داعش مدرسوں میں بچوں کو شدت پسند نظریات سکھا کر خودکش مشن کے لیے تیار کر رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً 14 سال ہیں۔ اگرچہ طالبان کی کارروائیوں سے داعش کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ گروہ اب بھی نسبتاً آزادی سے کام کر رہا ہے اور اس کے جنگجوؤں میں وسطی ایشیائی، خواتین اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔   القاعدہ کی کمزور موجودگی رپورٹ کے مطابق، القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کافی کم ہو چکی ہے، اس کے وسائل محدود ہو گئے ہیں اور وہ صرف چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل تک محدود ہو گئی ہے۔ رکن ممالک نے اندازہ لگایا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اس وقت علاقائی ممالک کے لیے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔ تاہم، القاعدہ کا عالمی نیٹ ورک اب بھی فعال ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیف العادل، جو اس گروہ کا غیر اعلانیہ سربراہ مانا جاتا ہے، اس نے عراق، شام، لیبیا اور یورپ میں خفیہ سیل دوبارہ متحرک کرنے کی ہدایت دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) نے بھی 2025 میں اسامہ محمود کی قیادت میں خود کو منظم کیا ہے اور اس کی خود اعتمادی اور عزائم میں اضافہ ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رپورٹ کے مطابق دہشتگرد گروہ کیا گیا ہے کہ ہے اور اس کے وسطی ایشیا رپورٹ میں اور دیگر شامل ہیں ٹی ٹی پی اب بھی کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی وزیراعظم سمیت دیگر اعلیٰ حکام غزہ میں نسل کشی کر رہے ہیں: اقوامِ متحدہ رپورٹ

اسرائیلی وزیراعظم سمیت دیگر اعلیٰ حکام غزہ میں نسل کشی کر رہے ہیں: اقوامِ متحدہ رپورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز

اقوام متحدہ کی انکوائری کمیشن نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کرنے اور اس عمل کو بھڑکانے میں نیتن یاہو سمیت اعلیٰ اسرائیلی حکام کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یو این انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کرنے کے ساتھ جان بوجھ کر وہاں تباہی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ 72 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس قانونی تجزیے میں غزہ میں قتلِ عام کی وسعت، انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں، جبری بے دخلی اور ایک فَرٹیلیٹی کلینک کی تباہی جیسے شواہد شامل کیے گئے ہیں۔

کمیشن کے مطابق یہ تمام عوامل نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ نتیجہ ان انسانی حقوق کی تنظیموں کے موقف کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں۔

کمیشن کی سربراہ اور سابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جج ناوی پلے نے کہا ہے کہ، ”غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان جرائم کی ذمہ داری اسرائیلی حکام پر عائد ہوتی ہے جو بڑے پیمانے پر تقریباً دو برس سے ایک منظم مہم چلا رہے ہیں، جس کا مقصد فلسطینی عوام کو برباد کرنا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سن 1948 کے کنونشن برائے انسداد نسل کشی میں بیان کردہ پانچ میں سے چار کام انجام دیے ہیں جن میں قتل و غارت گری، جسمانی و ذہنی اذیت، جان بوجھ کر نسلی یا مذہبی گروپ کو مکمل تباہ کرنا اور پیدائش کو روکنے کی تدابیر شامل ہیں۔

کمیشن نے ثبوت کے طور پر متاثرین اور عینی شاہدین کے انٹرویوز، ڈاکٹروں کی گواہیاں، اوپن سورس دستاویزات اور سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے کو بھی شامل کیا ہے۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی حکام کے بیانات ”نسل کشی کے ارادے کا براہ راست ثبوت“ ہیں۔ خاص طور پر نیتن یاہو کا وہ خط جو نومبر 2023 میں اسرائیلی فوجیوں کو لکھا گیا تھا، جس میں غزہ کی کارروائی کو عبرانی بائبل میں درج ”مکمل صفایا کی مقدس جنگ“ سے تشبیہ دی گئی تھی۔

رپورٹ میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ اور سابق وزیرِ دفاع یوآو گیلنٹ کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔

تاہم اسرائیل نے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جنیوا میں اسرائیلی سفارتی مشن نے کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ اس کا اسرائیل کے خلاف ایک سیاسی ایجنڈا ہے۔

اسرائیل فی الحال ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کو رد کرتا ہے اور اپنے دفاع کا حق پیش کرتا ہے، جس کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 افراد یرغمال بنائے گئے تھے۔

تاہم غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق غزہ کے کچھ حصے قحط کا شکار ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس میں بڑی پیشرفت جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس میں بڑی پیشرفت سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی پنجاب میں مون سون کا 11واں اسپیل، کن شہروں میں بارش کا امکان؟ ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار پاک بھارت ٹاکرے کے متنازع میچ ریفری ’اینڈی پائی کرافٹ‘ کون ہیں؟ وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر سے 25 ستمبر کو ملاقات کا امکان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے. عاصم افتخار
  • افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہ سب سے بڑا خطرہ، پاکستان
  • افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سب سے سنگین خطرہ ہے: عاصم افتخار احمد
  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے ، عاصم افتخار
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • ملائیشیا میں تودے گرنے سے متعدد افراد جاں بحق
  • پی ٹی آئی میں منافق لوگ موجود، پارٹی کو کمزور کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور
  • اسرائیلی وزیراعظم سمیت دیگر اعلیٰ حکام غزہ میں نسل کشی کر رہے ہیں: اقوامِ متحدہ رپورٹ
  • جعلی کمپنیوں والا فراڈ گروہ گرفتار