وزارت پیٹرولیم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان درآمدی ایل این جی کے معاملے پر مذاکرات جاری ہیں اور وفاقی وزیر کی سربراہی میں وفد قطر میں موجود ہے۔

ایکسپریس نیوز کو وزارت پیٹرولیم کے ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر علی پرویز ملک کی قیادت میں وفد قطری حکام سے مذاکرات کر رہا ہے، وفد میں سیکرٹری پیٹرولیم ،ایم ڈی  پی ایس او ،پاکستاں ایل این جی ،ایس این جی پی ایل حکام بھی شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طویل المدتی معاہدے کے تحت پاکستان  قطر سے 108ایل این جی کارگوز سالانہ کی بنیاد پر درآمد کرتا ہے تاہم پاور سیکٹر کی ڈیمانڈ کم ہونے سے ملک میں ایل این جی سرپلس ہوچکی ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان  قطر سے ماہانہ بنیادوں پر دو کار گوز موخر کرنا چاہتا ہے، پاور سیکٹر کے ایل این جی استعمال نہ کرنے سے  ماہانہ کبھی دو کبھی چار کارگوز سرپلس ہو رہے ہیں۔ 

ذرائع کا ہکنا ہے کہ پاور سیکٹر 600 ایم ایم سی ایف ڈی درآمدی ایل این جی استعمال کرتا تھا تاہم اب یہ بھی اضافی ہورہی ہے اور اگست میں صرف دو کارگوز استعمال  کیے گئے ہیں۔

وزارت پٹرولیم قطری حکام سے مذاکرات میں سالانہ 24 کارگوز موخر کرنے کی درخواست کرے گی اور اسی کی خواہش بھی ہے، اگلے مرحلے میں قطری حکام 15 اکتوبر کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ جس کے بعد  کارگوز ڈلیوری پلان فائنل کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر چھ سال میں پاکستان 150کارگوز کو سرپلیس سمجھتا ہے، جس کو کھپانے کے لیے گھریلو صارفین کے لیے گیس کنکشن پر پابندی ہٹانے کی سمری بھجوائی جا چکی ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق پہلے مرحلے میں گھریلو صارفین کو 1 لاکھ 20ہزار ایل این جی کنکشنز دیے جائیں گے، جس میں ماہانہ 10ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کھپائی جا سکے گی، جس کے بعد مزید کنکشنز کا دارومدار صارفین کے رجحان پر ہوگا۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے بتایا کہ 2017 سے 2025 تک ہاؤسنگ سوسائٹیز نے محض  33 ہزار ایل این جی کنکشن لیے گئے ہیں۔ مستقبل میں کنکشن کی قیمت صارفین کو 40 ہزار روپے پڑے گی جبکہ صارفین کو سیکیورٹی ڈیپازٹ کی مد میں 20 ہزار اور ڈیمانڈ نوٹس کی مد میں ہزار روپے جمع کرانے ہوں گے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایل این جی ذرائع کا کے ذرائع

پڑھیں:

مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان

 

 

بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • پاک،افغان مذاکرات، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ترکیہ جائینگے
  • پاک افغان مذاکرات سے قبل اہم سفارتی سرگرمیاں، نائب وزیراعظم ترکی جائیں گے
  • پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان استنبول میں امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرنے پر متفق
  • پنجاب حکومت کابانی پی ٹی آئی کے 11مقدمات اے ٹی سی راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ
  • استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات اختتام پذیر، اعلامیہ جاری
  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • پاک افغان مذاکرات، ترکیہ کی درخواست پر پاکستان کی رضامندی