Express News:
2025-09-17@23:09:01 GMT

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے ﷺ

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

اﷲ رب العالمین نے انسانیت کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاء و رسلؑ مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے مریضان شرک و ضلالت کو توحید ربانی کے چشمۂ صافی سے سیراب کرکے حیات جاودانی سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد کی۔

تاہم ہر نبی و رسولؑ کی دعوت محدود اثرات کی حامل تھی۔ اس پر ستم یہ کہ اکثر لوگوں نے نہ صرف اپنے انبیاء کی تکذیب کی بل کہ انہیں ناحق قتل تک کر ڈالا۔ اسی طرح صدیوں کا سفر جاری تھا کہ انبیاء کی تعلیمات مسخ کردی گئیں اور سرزمین عرب بالخصوص شرک و بت پرستی کا گڑھ بن گئی اور اﷲ کے بندے اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ اصنام کی پوجا پاٹ میں مصروف ہوگئے۔

بیت اﷲ جسے سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور ان کے فرزند سیدنا اسمعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام نے خالص اﷲ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا وہ 360 معبودان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ غرض یہ کہ ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ کہیں ستاروں کی پوجا ہورہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اﷲ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اﷲ کا گھر اس کے خلیلؑ نے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی، مفہوم: ’’اے ہمارے رب! ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔

بے شک! تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ اور اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوش خبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے‘ پر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ دیگر انبیاء کرامؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمتؐ آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر عبداﷲ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا اور اس کی (نبی مکرم ﷺ) پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔

 بیت اﷲ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہوگئے، آتش کدہ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنات ارضی کو یہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستیؐ کائنات میں تشریف لاچکی جو ہر قسم کی شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔ عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔

وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اﷲ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا: محمدؐ۔ سب لوگ حیران ہوگئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اﷲ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اﷲ کا نام بلند ہوگا۔ اس کے محبوبؐ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔ اﷲ رب العالین نے ارشاد فرمایا: ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جہاں تک میں رب العالمین ہوں وہاں تک میرا پیارا رحمۃ للعالمینؐ ہے۔

نبی مکرم ﷺ کی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیاء سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔ قرآن مجید میں مالک کائنات ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: اﷲ تعالیٰ نے (عالم ارواح میں) نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائیں (یعنی تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے) تو تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے۔ کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا: ہاں ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا: تو اب تم گواہ رہو اور خود میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس اس کے بعد جو بھی پلٹ جائیں وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں۔ (آل عمران)

سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتاب و حکمت بھی عطا کریں گے‘ تو تمام انبیاء و رسل نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی امت کو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمد ﷺ کا زمانہ پاؤ تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیاء نے رسالت محمدی ﷺ کا اقرار کیا اور ان کا امتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔

نبی کریم ﷺ ابراہیمؑ کی دعا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں بل کہ آپؐ کے اندر اﷲ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیے تھے‘ آپؐ محمد ہیں‘ محمود ہیں‘ احمد ہیں‘ بشیر و نذیر‘ حبیب و حلیم‘ رشید و عادل‘ خازن و قاسم‘ سید الخلق‘ امام الانبیاء‘ سید المرسلین‘ رحمۃللعالمینؐ بھی ہیں۔ آپؐ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔

طیب و طاہر‘ حامی و حاشر و عاقب ‘ مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپؐ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: ’’اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ چوں کہ آپ خاتم النبینؐ بن کر آئے لہٰذا آپؐ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیے گئے تھے۔ تمام انبیاء و رسلؑ میں جو اوصاف و کمالات موجود تھے وہ سب آپ ﷺ کی ذات والا صفات میں اکمل و اجمل پیدا کردیے گئے تھے۔

امام کائناتؐ کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو کسی بدترین دشمن کو بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں بھی انگشت نمائی کی جرات نہیں ہو سکتی۔ آپؐ صدق و صفا کے پیکر‘ علم و تواضع کے خوگر‘ نرم گفتار‘ ملن سار‘ خلیق‘ باحیا اور مصائب و آلام پر صبر کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔ کفار مکہ نے ہر طرح سے آپؐ کو آپ کے مشن سے باز رکھنے کے جتن کر لیے مگر آپؐ کے پائے استقامت میں ذرّہ بھر بھی جنبش نہیں آئی بل کہ آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنی دعوت سے باز آنے والا نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ اور آپ کے ساتھیوں کو ڈھائی سال تک شعب ابی طالب میں سماجی مقاطعے کے نتیجے میں محصور رہنا پڑا اور اس دوران ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں مگر اف نہ کی۔

یہاں تک کہ آپؐ کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہُوا اور اﷲ کا کلمہ بلند ہوکر رہا اور رحمت کائنات ؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کرکے دکھا دی جو رہتی دنیا تک کے لیے منارۂ نور ہے۔ غلاموں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں، مہمانوں حتیٰ کہ جان کے دشمنوں کے ساتھ بھی صلۂ رحمی، عفو و درگزر اور رواداری جیسے اوصاف حمیدہ کے ذریعے برتاؤ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بل کہ ایسا حسن سلوک وہی کر سکتا ہے جس میں اﷲ نے صبر و استقامت اور رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہو۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے جہاں کائنات میں توحید ربانی کا علم بند کیا اور بیت اﷲ کو معبودان باطلہ سے پاک کر کے قیامت تک کے لیے خالص اﷲ کی عبادت کے لیے خاص کردیا۔ وہیں اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہر ہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لیے منبعٔ رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔

ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو خالص قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار‘ عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریۂ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں اور کام رانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تمام انبیاء علیہ السلام اﷲ تعالی بیت اﷲ کے لیے اور اس کا نام اور ان

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • چینی کے بحران پر قابو پانے کےلئے سرکاری قیمت 177 فی کلو مقرر
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • پارک ویو سٹی کے حفاظتی بند کی تعمیر کا افتتاح کر دیا
  • ملک میں عاصم لا کے سوا سب قانون ختم ہو چکے،عمران خان
  • پاکستان اور ایران میں دو طرفہ تجارت بڑھانا ناگزیر ہے، رحمت صالح بلوچ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • سابق ورلڈ چیمپئن باکسر رکی ہیٹن 46 برس کی عمر میں چل بسے
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • یہ وہ لاہور نہیں