تباہ کن سیلابی صورتحال، پاکستان غذائی بحران کی دہلیز پر،گندم، چاول، کپاس، سبزیاں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ WhatsAppFacebookTwitter 0 30 August, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )پاکستان ایک بار پھر شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس سے زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں گندم، چاول، کپاس، سبزیاں اور لائیو اسٹاک جیسی بنیادی غذائی اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، جس سے ملک میں غذائی بحران جنم لینے کا خدشہ ہے۔خصوصا پنجاب اس وقت دریائے ستلج، چناب اور راوی میں آنے والے شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث وسیع زرعی علاقے زیرِ آب آچکے ہیں۔ ان علاقوں میں گندم، کپاس، چاول، سبزیاں اور چارہ جیسی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ مال مویشیوں کی ہلاکتوں سے کسان شدید معاشی نقصان سے دوچار ہیں۔دریائے ستلج کے ہیڈ اسلام پر بڑھتے سیلابی ریلے نے قریبی بستیاں اور ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔

کپاس، دھان، تِل، مکئی اور چارہ کی بربادی نے کسانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ایک علاقہ اس قدر متاثر ہوا ہے تو باقی زرعی علاقوں کی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، جہاں لاکھوں ایکڑ زمین زیرِ آب آکر غذائی بحران کے خدشات کو مزید بڑھا رہی ہے۔حکومت کی جانب سے مختلف مقامات پر ہیڈ ورکس پر شگاف لگا کر پانی کا بہا موڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ مزید زرعی زمین کو بچایا جاسکے۔ لاکھوں کیوسک سیلابی پانی اگلے مرحلے میں سندھ میں داخل ہوگا جہاں مختلف زرعی اضلاع میں گندم، چاول اور کپاس جیسی بڑی فصلوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

چیئرمین پاکستان کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس وقت تقریبا 30 سے 35 ہزار گاں سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں جبکہ 20 سے 25 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔خالد حسین باٹھ کے مطابق سب سے بڑا بحران گندم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت ہے، جو صرف تین دنوں میں 2100 روپے سے بڑھ کر 3500 روپے فی من تک جا پہنچی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں گندم کا قحط پڑ سکتا ہے اور روٹی کی قیمت 30 سے 40 روپے تک جا سکتی ہے۔رپورٹس کے مطابق آلو، پیاز، ٹماٹر، دودھ اور انڈے جیسی اشیا سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث ٹیکسٹائل صنعت دبا میں آئے گی اور کپاس کی درآمدات بڑھیں گی

ملک کا درآمدی بل اور زرمبادلہ کے ذخائر مزید کمزور ہوں گے۔ایک نجی اخبار کے مطابق زرعی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے باعث کھاد، پٹرولیم، گاڑیوں اور تعمیراتی شعبے کی طلب کم ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فصلوں کا نقصان زیادہ ہوا تو نہ صرف مہنگائی دوہرے ہندسے میں جا سکتی ہے بلکہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ پاکستان کے تجارتی توازن کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔ماہرین کے مطابق حالیہ صورتحال 2022 کے تباہ کن سیلاب سے مشابہت رکھتی ہے، جب کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ماہانہ اوسطا 3 سے 5 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

اب بھی یہی خدشہ ہے کہ ستمبر سے قیمتوں میں تیزی آ سکتی ہے۔جون تا اگست 2022 کے دوران آنے والے تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں زراعت اور خوراک کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس آفت سے 44 لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ زیرِ آب آگیا، 8 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے اور لاکھوں خاندانوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی۔اس بڑے پیمانے کی تباہی کے نتیجے میں ملک بھر میں خوراک کی شدید کمی اور غذائی عدم تحفظ پیدا ہوا۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے جہاں لاکھوں افراد صاف پانی اور مناسب خوراک تک رسائی سے محروم ہوگئے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبر,پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آبادکا ہنگامی اجلاس بعض عناصرکی طرف سے وزیر صحت کے خلاف میڈیا پروپگنڈہ کی شدید مذمت اگلی خبراسلام آباد کو سیاحتی مرکز کے طور پر متعارف کرانے کے لیے متعدد منصوبے زیر غور انسداد دہشتگردی عدالت نے بھارتی دہشتگرد افغان شہری کو قید کی سزا سنا دی روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کی نجکاری کیلئے آئندہ ماہ کے وسط تک فنانشل ایڈوائزر مقرر کرنے کا فیصلہ ایس آئی ایف سی اور ای سی سی کا اہم اقدام، توانائی کے شعبے میں تاریخی پیشرفت شہباز شریف اہم دورے پر چین پہنچ گئے، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کریں گے اسلام آباد کو سیاحتی مرکز کے طور پر متعارف کرانے کے لیے متعدد منصوبے زیر غور ,پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آبادکا ہنگامی اجلاس بعض عناصرکی طرف سے وزیر صحت کے خلاف میڈیا پروپگنڈہ کی شدید مذمت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں تباہ کن سیلاب سبزیاں اور کے مطابق کا خدشہ

پڑھیں:

سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-06-7

 

 

لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • حکومت بلوچستان کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم، بحران کا خدشہ
  • سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل شدید متاثر
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • سیلاب سے  ایم 5 موٹروے 5 مقامات پر متاثر ،ٹریفک بند
  • سکھر بیراج کا سیلابی ریلا، فصلیں تباہ، بستیاں بری طرح متاثر
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر عوام کا ملا جلا ردعمل
  • سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
  • پختونخوا میں ایک فرد سالانہ کتنے کلو آٹا کھاتا ہے؟ صوبائی وزیر کا حیران کن بیان
  • سیلابی ریلا سندھ کی گیس فیلڈ میں داخل، کئی کنویں تباہ کردیے