انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرزنے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کامرتکب قراردے دیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی پر تحقیق کرنے والی علمی تنظیم “انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینو سائیڈ اسکالرز” (IAGS) نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق انجمن نے ایک باقاعدہ قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات اقوام متحدہ کے 1948ء کے نسل کشی کنونشن کے تحت نسل کشی کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
قرارداد کے اہم نکات:
انجمن کے 500 ارکان میں سے 86 فیصد نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کو قانونی طور پر نسل کشی قرار دیا گیا۔
قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ:
فلسطینی شہریوں، خاص طور پر بچوں، پر حملے بند کرے
انسانی امداد، پانی، خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی روکے بغیر جاری رکھے
جبری بے دخلی اور جنسی تشدد جیسے اقدامات بند کرے
اسرائیل پر عالمی تنقید میں اضافہ
تنظیم کی صدر، پروفیسر میلانی اوبرائن نے کہا کہ یہ بیان ماہرین نسل کشی کی طرف سے ایک علمی اور حتمی موقف ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی ہے۔
اس وقت اسرائیل بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں بھی مقدمے کا سامنا کر رہا ہے، جہاں اس پر نسل کشی کے الزامات زیرِ سماعت ہیں۔
حماس پر بھی تنقید
قرارداد میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والی حماس کی کارروائیاں — جنہوں نے اکتوبر 2023 میں اسرائیلی علاقوں پر حملہ کر کے 1200 افراد کو قتل اور 250 سے زائد کو یرغمال بنایا — بھی بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
فلسطینی ردعمل اور عالمی دباؤ
غزہ کی حکومت کے میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوابہ نے قرارداد کو “باعزت علمی مؤقف” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری پر ایک قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اس نسل کشی کو روکے اور اسرائیلی قیادت کو جوابدہ بنائے۔
ادھر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک کو بھی ان کے اپنے دفتر کے سینکڑوں اہلکاروں نے خط لکھا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ غزہ کی صورتحال کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی کی مقامی حکومتوں سے متعلق آئین میں ترمیم کی قرارداد وفاق کو ارسال
لاہور:پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں سے متعلق آئین میں ترمیم کی قرارداد وفاق کو ارسال کردی۔
آئین کے آرٹیکل 140-A میں ترمیم سے متعلق پنجاب اسمبلی کی قرارداد وفاق کو ارسال کر دی گئی ہے۔ کصوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی یہ قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکریٹری سینیٹ کو بھجوائی گئی ہے۔
قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی، جس میں صوبائی ایوان نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ آئین میں مقامی حکومتوں کے نام سے ایک نیا باب شامل کیا جائے تاکہ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہو سکے۔
قرارداد کے متن کے مطابق مقامی حکومتوں کی مدت، ذمے داریوں اور اختیارات کی آئینی وضاحت کی جائے، جب کہ بلدیاتی انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط آئین میں شامل کی جائے۔ اس کے علاوہ منتخب نمائندوں کو انتخاب کے بعد 21 دن کے اندر اجلاس منعقد کرنے کا پابند بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف 2 سال تک کام کر سکے، جو کہ نظام کے تسلسل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مؤثر اور بااختیار بلدیاتی نظام کا قیام جمہوری استحکام اور عوامی خدمت کے لیے ناگزیر ہے۔
قرارداد کے مطابق سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دے چکی ہے، جب کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں۔
ایوان نے اس بات پر زور دیا کہ بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری کے لیے آئین میں واضح ترامیم کی جائیں۔ قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140-A میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ لاہور چارٹر (سی پی اے) نے بھی مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دسمبر 2022 میں بھی آئینی ترمیم کی سفارش کی تھی تاکہ مقامی حکومتوں کا نظام مستحکم اور پائیدار بنایا جا سکے۔