بھارت اور پاکستان کا موسم ایک جیسا ہے۔ دہلی میں فضائی آلودگی بڑھی ہے۔ بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں تو لاہور اور اطراف کے شہروں میں سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب پاکستانی پنجاب میں کسان فصلوں کی باقیات کو نذرِ آتش کرتے ہیں تو لاہور اور قصور وغیرہ تو متاثر ہوتے ہی ہیں، لیکن سرحد کی دوسری طرف امرتسر اور بین الاقوامی سرحد کی دوسری طرف کے دیہات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب جموں اور مقبوضہ کشمیر میں ریکارڈ توڑ بارش ہوتی ہے تو سیالکوٹ اور نارووال وغیرہ میں سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے، اگر سیالکوٹ اور نارووال وغیرہ میں مسلسل بارش ہوجائے تو پھر لاہور تک میں پانی ہی پانی ہوتا ہے۔
جب بھارتی علاقے میں بہنے والے دریائے بیاس اور دریائے ستلج میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو پھر ان دونوں دریاؤں کے پانی سے وسیب کے علاقے میں سیلاب آجاتا ہے۔ آج پنجاب کا بیشتر علاقہ اسی صورتحال کی وجہ سے سیلاب کا شکار ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور پھر کلائمیٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے دونوں ممالک میں تعاون زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان چونکہ اپنے قیام کے بعد ہی سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا تو تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا شعبہ بھی نظرانداز رہا۔ 1972 میں اسٹاک ہوم میں موسمیاتی اثرات کے موضوع پر عالمی سربراہوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ بھارت کے وفد کی قیادت وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے کی تھی۔ پاکستان کا ایک اعلیٰ ترین وفد بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔ پاکستانی وفد کی قیادت خاتون اول بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔ اس کانفرنس میں مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے دنیا کے مختلف خطوں پر اثرات کا بغور جائزہ لیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے وطن واپسی کے بعد مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے آئینی اقدامات کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، یوں 1976میں بھارت کے آئین میں42ویں ترمیم کی گئی۔
اس ترمیم کے تحت National Council for Environmental Policy and Planningکا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس قومی کونسل نے مستقبل میں ماحولیاتی مسائل کے تدارک کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ بھارتی یونین کے آرٹیکل 48-A کے تحت ریاست کی ذمے داریوں اور شہریوں کے حقوق کا تعین کیا گیا تھا۔ بھارتی آئین میں 73ویں اور 74ویں ترامیم کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے بنیادی پالیسیوں کی تیاری کا کام شروع کیا گیا۔
واٹر اینڈ ایئر پولوشن ایکٹ اور Central and State Pollution Control Actنافذ کیا گیا۔ اس کے ساتھ تین سطح پنچایتی راج کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان میں 1972میں اربن افیئرز ڈویژن کا قیام عمل میں آیا، مگر بھارت کی طرح آئینی اقدامات کرنے کے بجائے محض شہریوں کی ترقی کے نام پر منصوبہ بندی کے لیے بیوروکریسی کو اربن افیئرز ڈویژن میں مزید افسروں کی بھرتی کا موقع مل گیا۔
1992 میں Rioearth Summit میں کلائمیٹ چینج کی جامع تعریف پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے بعد بہت بعد کام شروع کیا ہوا مگر برسر اقتدار حکومتوں نے سال میں کئی دفعہ درخت لگاؤ مہم کا چرچا کرنا شروع کیا۔
اس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے پختون خوا میں بلین ٹری کا نعرہ لگایا مگر جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو سوات، بونیر اور دیگر علاقوں میں دریائے سوات کے کنارے اور بعض مقامات پر دریا کے اندر مکانات اور کئی منزلہ ہوٹل تعمیر ہونے لگے، یوں پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں بے پناہ رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ یہی صورتحال پنجاب کے مختلف شہروں میں ہے۔ دریاؤں کے کنارے تعمیر کردہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں تباہ ہورہی ہیں اور اس کے ساتھ غریبوں کی بستیاں بھی برباد ہو رہی ہیں۔ کلائمیٹ چینج پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دریاؤں اور نالوں پر قائم ہونے والی تجاوزات ہیں۔
یہ مسئلہ صرف گلگت بلتستان اور پختون خوا تک محدود نہیں بلکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔دریائے راوی میں آنے والے سیلاب کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے کہا کہ لاہور میں دریائے راوی کے ساتھ کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر ہوئی ہیں۔ ان میں پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے افسروں اور ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان تجاوزات کا مسئلہ اب قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے ایک خصوصی اجلاس میں اراکین اتنے جذباتی ہوگئے تھے کہ یہ مطالبہ کیا گیا کہ تجاوزات قائم کرنے والے افراد اور تجاوزات کو این او سی جاری کرنے والے افسروں کو سزائے موت دی جائے، مگر یہ سزائے موت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اب وزیر اطلاعات نے یہ اعلان کیا ہے کہ دریاؤں کے راستے میں آنے والی تجاوزات کے مالکان کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا، البتہ تجاوزات کے تدارک کے لیے ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس پر عملدرآمد بھی کیا جاسکے۔ بہرحال ان اراکین کی یہ بات درست ہے کہ قانون سخت ہونا چاہیے۔
اس صدی کے آغاز پر ماحولیات سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کئی ماہرین نے اس نکتے پر زور دیا تھا کہ سیاچن میں بارود کے مسلسل استعمال سے گلیشیئرکی صحت متاثر ہوئی اور گلیشیئر کے پگھلنے کا عمل تیز ہوجائے گا۔ گلگت اور اطراف کے علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے ایک نئی تباہی کا آغاز ہوا۔
ایک ماہر نے ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ ٹمپریچر کے مسلسل بڑھنے سے گلیشیئرکے پگھلنے کا عمل تیز ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ ایک موسم میں نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں اور ٹمپریچر بڑھتا رہا تو اگلے 50 برسوں کے دوران بیشتر گلیشیئر پگھل جائیں گے، یوں ان گلیشیئر کے ختم ہونے کے اثرات صرف گلگت بلتستان میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے ساحلی شہر ٹھٹھہ تک متاثر ہوسکتا ہے۔ اس ملک میں ریاست کی بے حسی کی سیکڑوں مثالیں دی جاتی ہیں مگر گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ریاست نے گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچنے کے لیے وزراء اعلیٰ اور وزراء نے محض بیانات پر اکتفاء کیا۔
صرف گلگت ہی کی مثال لے لی جائے تو حکومت گلیشیئرز کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم کرنے والا جدید نظام قائم نہیں کرسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑ پر خیمے میں سوتے ہوئے دو گڈریوں کو ایک خطرناک آواز سنائی دی۔ ان دونوں گڈریوں کے شور مچانے پر ایک گاؤں کے 600 لوگوں کی زندگیاں بچ گئیں ۔ پختون خوا صوبہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی حکومت سارے سال وفاق سے جنگ میں مصروف ہے۔ سیلابی پانی کے حملہ کے بارے میں بونیر اور دیگر علاقوں میں سیلاب کی اطلاع دینے کا جدید نظام موجود ہوتا تو سیکڑوں لوگوں کی جانیں بچ سکتی تھیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اگلے7برسوں کے دوران ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ (موجودہ سیلاب کے نقصانات سے اس رقم میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ) اس رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ عالمی ڈونرز نے 2022 میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے تدارک کے لیے 109 ارب ڈالر کی امداد دینے کے اعلانات کیے تھے مگر پاکستان اس کا صرف 20 فیصد حصہ لینے میں کامیاب ہوا۔ عالمی ڈونرز کی بے حسی کی مختلف وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہماری بیورو کریسی ان ڈونرز کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے راغب نہ کرسکے۔
اس دفعہ پھر صورتحال بھارت اور پاکستان میں مسلسل بارشوں اور پانی کے فطری راستوں میں رکاوٹوں کی بناء پر پیدا ہوئی ہے۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے تعاون کر کے کلائمیٹ چینج کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت اس وقت تنہائی کا شکار ہے۔ چین کی مدد سے بھارت کو اس مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ محض انتہا پسند بیانات سے صورتحال مزید گنجلک ہوجائے گی، ایسے ہی موقع پر ’’دانش ‘‘ کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں کلائمیٹ چینج کے پگھلنے کرنے والے میں سیلاب کے اثرات اثرات سے کیا گیا کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
چترال: وزیراعظم شہبازشریف دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد دعا کررہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default"> جسارت نیوز
گلزار