ایس سی او اجلاس: چین اور روس کی بڑھتی قربتیں، کیا امریکا نئی صف بندیوں سے خائف ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ اُنہیں روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بہت مایوسی ہوئی۔ اُن کی انتظامیہ روس یوکرین جنگ میں اموات میں کمی لانے کے منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ان کو روس اور چین کے درمیان گرم جوش تعلقات کے بارے میں کوئی فِکر نہیں۔
اس کے بعد چین میں فوجی پریڈ کے موقع پر چین، روس اور شمالی کوریا کے صدور کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہاکہ یہ تینوں امریکا کے خلاف سازش کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین، روس اور شمالی کوریا امریکا کے خلاف سازش کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا الزام
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو ’نمائشی‘ قرار دیتے ہوئے بھارت، چین اور روس پر تنقید کی اور الزام لگایا کہ یہ ممالک روس کی یوکرین جنگ کو مالی طور پر ایندھن فراہم کررہے ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر چین اور بھارت پر زور دیا کہ وہ روس سے سستا خام تیل خرید کر اسے مالی مدد دیتے ہیں، جو امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ انہوں نے خبردار کیاکہ امریکا اور اس کے اتحادی اس حوالے سے سخت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
مبصرین کا تجزیہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ چین اور روس دراصل امریکا کے عالمی اثر کو چیلنج کررہے ہیں، اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز اس بدلتے ہوئے عالمی توازن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس پر زیادہ بات نہیں کی، لیکن حقیقت میں یہ ایک حقیقی اسٹریٹجک مقابلہ ہے، جو صرف طاقت کے توازن کی جنگ ہی نہیں بلکہ عالمی نظام کی لڑائی بھی ہے۔
آج چینی اخبار چائنا ڈیلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی تصویر صفہ اوّل پر شائع ہوئی جو دونوں ملکوں کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نئی صف بندیوں پر تشویش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً امریکا کو روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش ہے، اور پھر حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں بھارت کی شرکت اور پھر جس طرح سے بھارتی وزیراعظم کی روسی اور چینی صدور کے ساتھ قدرے طویل گفتگو کرتے ہوئے جو باڈی لینگوئج تھی، اُس نے بھی امریکا کو تشویش میں مبتلا کر دیاہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت نے امریکا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اُس کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں، اِسی وجہ سے امریکی صدر اِس طرح کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔
کیا امریکا شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی فعال اور متحرک شرکت سے بھی تشویش محسوس کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے، اُس میں کوئی ابہام نہیں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اُصولی مؤقف کے ساتھ کھڑا ہے جس اُصول کے تحت اِس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
’گو کہ روس کافی عرصے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہا ہے لیکن پاکستان اور روس کے تعلقات کی وہ سطح ہر گز نہیں جو بھارت اور روس کے تعلقات کی ہے اور اِسی لیے 18 اگست کو امریکی صدر کے مشیرِ تجارت پیٹر نیوارو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری یوکرین جنگ کو مدد فراہم کر رہی ہے جس کا رُکنا چاہیے، اگر بھارت امریکا کا تزویراتی اتحادی بن کے رہنا چاہتا ہے تو اُس کو اُسی طریقے کا روّیہ اپنانا ہو گا۔‘
چین اور بھارت کے درمیان برف کیسے پگھلی؟مسعود خان نے کہاکہ پاکستان اور بھارت 2017 میں ایک ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہوئے تھے۔ جبکہ 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان پہلے ڈوکلام اور بعد میں گلوان کے مقام پر سرحدی تنازع ہوا جس کے بعد بھارت نے چین دشمنی میں کئی قدم اُٹھائے اور کواڈ تنظیم کا رُکن بھی بنا۔ لیکن اب چین اور بھارت امریکی ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد ایک نقطے پر متفق ہیں کہ یہ ٹیرف غیر منصفانہ ہیں اور ملٹی لیٹرلزم پر مبنی ایک نیا نظام تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔
مودی کے ہوتے ہوئے روس، چین اور بھارت اتحاد قائم نہیں ہو سکتا: سفارتکار وحید احمدپاکستان کے سابق سفیر وحید احمد نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہوتے ہوئے روس، چین اور بھارت اتحاد قائم نہیں ہو سکتا۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی خود کو گلوبل نارتھ کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت روس اور چین کے ساتھ ساتھ خود کو بھی خطے کی اہم طاقت مانتا ہے، لیکن شنگھائی تعاون تنظیم اِجلاس میں جو بھارت کی شمولیت دیکھی گئی اُس سے بھارت کا مقصد صرف یہ ہے کہ آئندہ سال بھارت میں ہونے والے برِکس اِجلاس میں اُسے برِکس اراکین کی حمایت مل جائے کیونکہ برِکس تنظیم میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔
وحید احمد نے کہاکہ بھارت کو اِس وقت روس اور چین کی ضرورت ہے اور بھارت کی چین کے ساتھ قربت بنیادی طور بھارت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی پریڈ: چین نے غیرمعمولی صلاحیتوں سے آراستہ جنگی ڈرونز متعارف کرا دیے
انہوں نے کہاکہ امریکا کی ایک سیکیورٹی ڈاکٹرائن ہے اگر آپ اُس کی پیروی کرتے ہیں تو امریکا آپ کے ساتھ ہے لیکن چین کی اُس طرح سے سیکیورٹی ڈاکٹرائن نہیں۔ ’چین کا نظریہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے، امریکا نے جو بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیے ہیں اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اگر چین سے فیکٹریاں بھارت منتقل ہوتی ہیں تو امریکی اجارہ داری نظام پر فرق نہ پڑے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی ٹیرف امریکی صدر ایس سی او اجلاس بھارت امریکا تعلقات بھارت کے روس اور چین سے تعلقات پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی ٹیرف امریکی صدر ایس سی او اجلاس بھارت امریکا تعلقات بھارت کے روس اور چین سے تعلقات پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز شنگھائی تعاون تنظیم چین اور بھارت کہاکہ بھارت روس اور چین امریکی صدر اور چین کے کرتے ہوئے کررہے ہیں امریکا کو کے درمیان نے کہاکہ کہ بھارت انہوں نے بھارت کی اور روس کے ساتھ
پڑھیں:
حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کوالالمپو ر،نئی دہلی،اسلام آباد(خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوگئے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ ستھ نے گزشتہ روز کوالالمپور میں اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد اس پیش رفت کا اعلان کیا۔ پیٹ ہیگ ستھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیٹ ہیگ سیتھ کے مطابق معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے اشتراک میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں زیادہ گہرے اور مؤثر دفاعی تعلقات کی راہ ہموار کرے گا۔دونوں وزرا کے درمیان ملاقات آسیان ڈیفنس سمٹ کے دوران ہوئی، یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب امریکا نے اگست میں بھارت کی روسی تیل کی خریداری پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ان اضافی محصولات کے بعد بھارت نے امریکی دفاعی سازوسامان کی خریداری کا عمل عارضی طور پر روک دیا تھا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں دفاعی خریداری کے منصوبوں پر نظرثانی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق یہ ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی، جو ہفتہ سے شروع ہونے جا رہی ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگ سیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے، ہمارا اسٹریٹجک اتحاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ و خوشحال بحیرہ ہندبحرالکاہل خطے کے عزم پر قائم ہے۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی 10 سالہ معاہدے پر دستخط کی تصدیق کی اور ہیگ ستھ کے ساتھ اپنی ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں راج ناتھ نے کہا،کوالالمپور میں میرے امریکی ہم منصب پیٹر ہیگ سیتھ کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی،ہم نے 10 سالہ امریکابھارت بڑی دفاعی شراکت داری کے فریم ورک پر دستخط کیے ہیں۔راج ناتھ سنگھ نے مزید زور دیا کہ یہ فریم ورک بھارت امریکا دفاعی تعلقات کے پورے اسپیکٹرم کو پالیسی کی سمت اہمیت فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پہلے سے مضبوط دفاعی شراکت داری میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ یہ ہمارے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک ہم آہنگی کا اشارہ ہے اور شراکت داری کے ایک نئے عشرے کا آغاز کرے گا۔ ہماری شراکت داری آزادانہ اصولوں پر مبنی ہے۔علاوہ ازیںنئی دہلی کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے بھارت کو ایران میں واقع اسٹریٹجک چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کی چھوٹ دے دی گئی ہے، جو افغانستان جیسے خشکی میں گھرے ملک تک رسائی کا ایک اہم راستہ ہے۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال نئی دہلی اور تہران نے چاہ بہار منصوبے کو ترقی دینے اور اسے جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت بھارت کو بندرگاہ کے استعمال کے لیے 10 سال کی رسائی حاصل ہوئی تاہم امریکا نے ستمبر میں ایران کے جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے اقدامات کے تحت اس منصوبے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، امریکی قانون کے مطابق جو کمپنیاں چاہ بہار منصوبے سے وابستہ رہیں گی ان کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کیے جا سکتے تھے اور ان کے امریکی لین دین روک دیے جاتے۔بھارت نے کہا کہ پابندیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نئی دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہمیں امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کے لیے استثنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ استثناحال ہی میں دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اپریل 2026 تک مؤثر رہے گا۔یہ رعایت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب پاکستان اور افغانستان حالیہ ہفتوں میں اپنی غیر مستحکم سرحد پر جھڑپوں کے بعد نازک امن بات چیت میں مصروف ہیں۔امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کو بمشکل قبول کیا تھا، کیونکہ وہ نئی دہلی کو کابل حکومت کی حمایت میں ایک قیمتی شراکت دار سمجھتا تھا، جو 2021 میں تحلیل ہو گئی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائی۔افغانستان کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے زد میں آنے والے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے رواں ماہ بھارت کا دورہ کیا، جس کے بعد نئی دہلی نے کابل میں اپنا سفارتی مشن دوبارہ مکمل سفارتخانے کی سطح پر بحال کر دیا۔دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ طاہر انداربی نے کہا کہ خطے پر امریکا بھارت دفاعی معاہدے کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ طاہر اندرابی نے مزید کہا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے؟ بھارت سے پوچھنا چاہیے، حقیقت بھارت کے لیے شاید بہت تلخ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لیے معنی نہیں رکھتی۔ قبل ازیںبھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔گزشتہ دنوں افغانستان میں برسراقتدار طالبان رجیم کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے وزارت توانائی کو چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر جلد از جلد ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔افغان میڈیا کے مطابق سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا تھا کہ ڈیم کیلیے ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں اور غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار نہ کیا جائے۔اب بھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کی تعمیر میں افغانستان کی مدد کیلیے تیار ہے، دونوں ممالک میں پانی سے متعلق معاملات میں تعاون کی ایک تاریخ ہے، ہرات میں سلما ڈیم کی مثال موجود ہے۔دوسری جانب افغان طالبان نے بھارتی اعلان کا خیرمقدم کیا اور قطر میں طالبان کے سفیر سہیل شاہین نے دی ہندو سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔خیال رہے کہ دریائے کنڑ چترال سے نکلتا ہے اور تقریباً 482 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد دریائے کابل میں شامل ہو کر واپس پاکستان آتا ہے۔
خبر ایجنسی
گلزار