اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس نے بدھ کو سینئر ججز کی سخت مخالفت کے باوجود ’ہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ (اپائنٹمنٹ اینڈ کنڈیشنز آف سروس) رولز، 2025‘ منظور کر لیے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ رولز معمولی اکثریت سے منظور ہوئے جبکہ 2 ججز کی جانب سے اجلاس کے ایجنڈے میں تبدیلی کی تجویز مسترد کر دی گئی۔

ایجنڈے کے مطابق فل کورٹ کو 3 کلیدی امور پر غور کے لیے طلب کیا گیا تھا جن میں تعدد ازدواج سے متعلق قانون میں ترمیم، ہائی کورٹ بلڈنگ میں ڈھانچہ جاتی نقائص اور سروس رولز کی منظوری شامل تھی۔

اجلاس میں تمام 11 ججز شریک ہوئے جن میں چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس خادم حسین سومرو، جسٹس ثمن رفعت امتیاز، جسٹس محمد اعظم خان، جسٹس محمد آصف اور جسٹس راجا انعام امین منہاس شامل تھے۔

تعدد ازواج اور بلڈنگ کے نقائص
ذرائع نے بتایا کہ فل کورٹ نے متفقہ طور پر تعدد ازواج سے متعلق قانون میں ترمیم کی منظوری دی، جس کے تحت اب ایسے مقدمات ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے بجائے فیملی کورٹس میں سنے جائیں گے۔

اس کے علاوہ فیصلہ کیا گیا کہ ہائی کورٹ بلڈنگ سے متعلق معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا جائے تاکہ دیرینہ مسائل کی مکمل چھان بین ہو سکے، محکمہ پبلک ورکس کی جانب سے کی گئی انکوائری میں لفٹس کے کئی نقائص کی نشاندہی کی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ لفٹس میں وہ خصوصیات موجود ہی نہیں جن کا پروٹوٹائپ اور اسپیسفیکیشن میں وعدہ کیا گیا تھا، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ناقص تنصیب اور دیکھ بھال کا ذمہ دار کون ہے۔

لفٹس کے علاوہ آئی ایچ سی بلڈنگ میں کئی اور مسائل بھی موجود ہیں، جن میں ناقص کولنگ سسٹم اور وکلا و سائلین کے لیے ناکافی پارکنگ کی سہولت شامل ہے۔

ججز نے رائے دی کہ معاملے کو براہِ راست قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کو بھیجنے کے بجائے وفاقی حکومت کو کہا جائے کہ وہ جامع تحقیقات کر کے اصلاحی اقدامات کرے۔

چیف جسٹس کے اختیارات
ان دو ایجنڈا آئٹمز کے برعکس، مجوزہ آئی ایچ سی رولز 2025 نے ججز کو تقسیم کر دیا، چیف جسٹس نے ان رولز کی بھرپور حمایت کی جبکہ سینئر ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ان کی مخالفت کی اور ترامیم کا مطالبہ کیا۔

اجلاس سے ایک روز قبل جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے اپنے ساتھی ججز کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے خدشات ظاہر کیے کہ انتظامی اختیارات کو اختلاف کرنے والے ججز کو نظر انداز کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

دونوں ججز نے نئے سرکلر پر شدید اعتراض کیا جس کے تحت ججز کو غیر ملکی سفر کے لیے چیف جسٹس سے این او سی لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کی تقسیم اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ ججز فائدے میں ہوں جو چیف جسٹس کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل ہوئے جبکہ ان کے تبادلے کی مخالفت کرنے والے مستقل ججز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

خط میں یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ چیف جسٹس نے ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے زیرِ سماعت مقدمات دوسرے بینچز کو منتقل کر دیے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے نئے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز (پی پی آر)‘ پر بھی اعتراض کیا اور ساتھی ججز کو یاد دلایا کہ پی پی آر پہلے ہی بغیر منظوری اور فل کورٹ میں باقاعدہ بحث کے گزٹ میں شائع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ 600 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم دستاویز اجلاس سے صرف ڈیڑھ دن پہلے فراہم کی گئی، جس سے مشاورت ایک رسمی کارروائی بن گئی اور بامعنی رائے دینے کا موقع نہیں ملا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے مطالبہ کیا کہ 5 اضافی نکات بشمول یہ اعتراضات ایجنڈے میں شامل کیے جائیں تاکہ فل کورٹ اجلاس میں ان پر باقاعدہ بحث ہو سکے، اور انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ وہ اس تنازع کو نظرانداز نہیں ہونے دیں گے۔

ووٹنگ اور اعتراضات
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایجنڈے میں کسی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے ووٹنگ کرائی، 6 ججز بشمول چیف جسٹس نے رولز کی حمایت کی جبکہ 5 نے مخالفت کی اور طے کیا کہ وہ اپنے اختلافات تحریری طور پر ریکارڈ کرائیں گے۔

کارروائی کے دوران مخالف ججز نے سوال اٹھایا کہ کیا رولز کے حق میں ووٹ دینے والے ججز نے واقعی نئی دستاویز پڑھی ہے؟ ذرائع کے مطابق جواب نفی میں آیا۔

کچھ ججز نے اس ضخیم دستاویز کے باعث اجلاس مؤخر کرنے کی درخواست بھی کی، مگر ان کی تجویز مسترد کر دی گئی، بالآخر ’ہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ (اپائنٹمنٹ اینڈ کنڈیشنز آف سروس) رولز، 2025‘ نہایت معمولی اکثریت سے منظور ہو گئے، جس سے فل کورٹ گہرے اختلافات کا شکار ہو گیا۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ہائی کورٹ کے مطابق چیف جسٹس کیا گیا فل کورٹ کے لیے گیا کہ ججز کو

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی ورک سے روک دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔

تحریری حکم نامے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کسی بھی کیس کی سماعت نہیں کر سکیں گے۔

عدالت نے اس معاملے میں مزید معاونت کے لیے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے، جب کہ اٹارنی جنرل کو بھی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر رائے دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامیہ نے نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کر دیا ہے۔ 17 سے 19 ستمبر تک جاری ہونے والے اس روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کا نام شامل نہیں ہے، جس کے تحت انہیں سنگل بینچ اور ڈویژن بینچ دونوں میں کیسز کی سماعت سے روک دیا گیا ہے۔

یہ اقدام اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جو اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز  ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہو گئے: جسٹس محسن کیانی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ، چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کے کیس میں اہم پیش رفت
  • ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، جسٹس محسن کیانی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود کو کام سے روکنے کے حکم کے بعد ایک اور اہم پیش رفت
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روک دیا گیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا