جب کائنات میں کفر و شرک اور وحشت و بربریت کا گھپ اندھیرا چھایا ہُوا تھا، بارہ ربیع الاوّل کو مکہ مکرمہ میں حضرت سیدتنا آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے مکان رحمت شان سے ایک ایسا نُور چمکا جس نے سارے عالم کو روشن کر دیا اور تاج دار رسالت و محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمام عالمین کے لیے رحمت بن کر مادرِ گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔
آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے ساتھ ہی کفر و ظلمت کے بادل چھٹ گئے، شاہِ ایران کسریٰ کے محل پر زلزلہ آیا، چودہ کنگرے گر گئے، ایران کا آتش کدہ جو ایک ہزار سال سے شعلہ زن تھا وہ بجھ گیا، دریائے ساوَہ خشک ہوگیا، کعبے کو وجد آگیا اور بت سر کے بل گر پڑے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’بے شک! سرور عالم ﷺ کی شب ولادت شب قدر سے بھی افضل ہے، کیوں کہ شب ولادت سرکار مدینہ ﷺ کے اس دُنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے جب کہ لیلۃ القدر آپ ﷺ کو عطا کردہ شب ہے اور جو رات ظہور ذاتِ سرورِ کائنات ﷺ کی وجہ سے مشرف ہو وہ اس رات سے زیادہ شرف و عزت والی ہے جو ملائکہ کے نزول کی بناء پر مشرف ہے۔‘‘
الحمدﷲ! 12ربیع الاول مسلمانوں کے لیے عیدوں کی بھی عید ہے۔ یقیناً حضور انور ﷺ جہاں میں شاہِ بحر و بر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید، عید ہوتی، نہ کوئی شب، شب برأت بل کہ کون و مکان کی تمام تر رونق شان اس جانِ جہان، رحمت العالمین، محبوب رحمن ﷺ کے قدموں کی دھول کا صدقہ ہے۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
جب ابولہب مرگیا تو اس کے بعض گھر والوں نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا، پوچھا: کیا ملا ؟ بولا: تم سے جدا ہو کر مجھے کوئی خیر نصیب نہیں ہوئی۔ پھر اپنے انگوٹھے کے نیچے موجود سوراخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’سوائے اس کے کہ اس میں سے مجھے پانی پلا دیا جاتا ہے کیوں کہ میں نے ثوبیہ لونڈی کو آزاد کیا تھا۔‘‘ حضرت علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں، اس اشارے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے تھوڑا سا پانی دیا جاتا ہے۔
اس روایت کے تحت سیدنا شیخ عبدالحق دہلویؒ فرماتے ہیں، اس واقعہ میں میلاد شریف والوں کے لیے بڑی دلیل ہے جو تاج دار رسالت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی شب ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں یعنی ابولہب جو کہ کافر تھا جب وہ تاج دار نبوت ﷺ کی ولادت کی خبر پا کر خوش ہونے اور اپنی لونڈی (ثوبیہ) کو دودھ پلانے کی خاطر آزاد کرنے پر بدلہ دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو محبت اور خوشی سے بھرا ہُوا ہے اور مال خرچ کر رہا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ محفل میلاد شریف گانے باجوں اور آلاتِ موسیقی سے پاک ہو۔
پیارے اسلامی بھائیو! دھوم دھام سے عید میلاد منائیے کہ جب ابولہب جیسے کافر کو بھی ولادت کی خوشی کرنے پر فائدہ پہنچا تو ہم تو الحمدﷲ مسلمان ہیں۔ ابولہب نے اﷲ عزوجل کے رسول ﷺ کی نیّت سے نہیں بل کہ صرف اپنے بھتیجے کی ولادت کی خوشی منائی پھر بھی اس کو بدلہ ملا تو ہم اگر اﷲ عزوجل کی رضا کے لیے اپنے آقا و مولیٰ محمد رسول اﷲ ﷺ کی ولادت کی خوشی منائیں گے تو کیوں کر محروم رہیں گے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’سرکار مدینہ ﷺ کی ولادت کی رات خوشی منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں فضل و کرم سے جنت النعیم میں داخل فرمائے گا۔‘‘
مسلمان ہمیشہ سے محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور ولادت کی خوشی میں دعوتیں دیتے، کھانے پکواتے اور خوب صدقہ و خیرات دیتے آئے ہیں، خوب خوشی کا اظہار کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں نیز آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے ذکر کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے گھروں کو سجاتے ہیں اور ان تمام افعالِ حسنہ کی برکت سے ان لوگوں پر اﷲ عز و جل کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔
کوئی آیا پا کے چلا گیا، کوئی عمر بھر بھی نہ پا سکا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
جشن ولادت کی خوشی میں مساجد، دکانوں اور سواریوں پر نیز اپنے محلے میں بھی سبز پرچم لہرایے، خوب چراغاں کیجیے۔ ربیع النور شریف کی بارہویں رات حصولِ ثواب کی نیت سے اجتماع ذکر و نعت میں شرکت کیجیے اور صبح صادق کے وقت سبز پرچم اٹھائیے، درود و سلام پڑھتے ہوئے اشک بار آنکھوں کے ساتھ صبح بہاراں کا استقبال کیجیے۔ 12 ربیع الاول کے دن ہو سکے تو روزہ رکھ لیجیے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پیر شریف کو روزہ رکھ کر اپنا یوم ولادت مناتے تھے جیسا کہ حضرت سیدنا ابوقتادہؓ فرماتے ہیں: ’’بارگاہ رسالت ﷺ میں پیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر وحی نازل ہوئی۔‘‘
شارِح صحیح بخاری حضرت سیدنا امام قسطلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اور ولادتِ باسعادت کے ایام میں محفل میلاد کرنے کے خواص سے یہ اَمر مجرب (تجربہ شدہ) ہے کہ اس سال امن و امان رہتا ہے اور ہر مراد پانے میں جلدی آنے والی خوش خبری ہوتی ہے۔ اﷲ عزوجل اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جس نے ماہِ ولادت کی راتوں کو عید بنا لیا۔
چند ضروری احتیاطیں
جشن ولادت کے موقع پر کعبۃ اﷲ شریف کے نقشے میں معاذ اﷲ کہیں کہیں گڑیوں کا طواف دکھایا جاتا ہے، یہ گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں کعبہ شریف میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فتح مکہ کے بعد کعبے کو بتوں سے پاک فرما دیا، لہٰذا نقشے میں بھی بت نہیں ہونے چاہییں۔ ایسے بلب لگانا جائز نہیں جن پر کسی جانور کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جشن ولادت کی خوشی میں بعض جگہ گانے باجے بجائے جاتے ہیں ایسا کرنا شرعاً گناہ ہے۔ نعت پاک کی سی ڈی بے شک چلائیے مگر دھیمی آواز میں اور اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی عبادت کرنے والے، سوتے ہوئے یا مریض وغیرہ کو تکلیف نہ ہو۔ نیز اذان و اوقاتِ نماز کی بھی رعایت کیجیے۔
گلی یا سڑک وغیرہ کی زمین پر اس طرح سجاوٹ کرنا، پرچم لگانا جس سے راستہ چلنے اور گاڑی چلانے والے مسلمانوں کو تکلیف ہو، یہ بھی ناجائز ہے۔ چراغاں دیکھنے کے لیے عورتوں کا اجنبی مردوں میں بے پردہ نکلنا حرام و شرم ناک نیز باپردہ عورتوں کا بھی مروجہ انداز میں مردوں میں اختلاط انتہائی افسوس ناک ہے، نیز بجلی کی چوری بھی ناجائز ہے، لہٰذا اس سلسلے میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے سے رابطہ کر کے جائز ذرائع سے چراغاں کیجیے۔
جلوس میلاد میں حتیٰ الامکان باوضو رہنے، نماز باجماعت کی پابندی کا خیال رکھیے، عاشقان رسول نماز کی جماعت ترک کرنے والے نہیں ہُوا کرتے۔ جلوس میلاد میں گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑی مت چلائیے کیوں کہ گھوڑے اور اونٹ کے پیشاب اور لید سے لوگوں کے کپڑے وغیرہ پلید ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
جلوس میں پھل اور اناج وغیرہ تقسیم کرنے میں بھی پھینکنے کی بہ جائے لوگوں کے ہاتھوں میں دیجیے، زمین پر گرنے، بکھرنے اور قدموں تلے کچلنے سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اشتعال انگیز نعرہ بازی پروقار جلوس میلاد کو منتشر کر سکتی ہے، پرامن رہنے میں ہی آپ کی اپنی بھلائی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ولادت کی خوشی کی ولادت کی فرماتے ہیں ﷺ کی ولادت کے لیے
پڑھیں:
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔
حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔
جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔
یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔
اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔
لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔
دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔
تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔
مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم