بھارت اور روس کو ہم نے کھو دیا وہ چین کے تاریک اثر میں جا چکے؛ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران لی گئی چین، روس اور بھارتی سربراہان کی تصویر شیئر کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس تصویر کے ساتھ ذو معنی جملے بھی تحریر کیے۔ انھوں نے بھارت اور روس کے تعلقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک چین کی گہری تاریکی میں ڈوب گئے۔
امریکی صدر نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ چین کی وجہ سے ہی بھارت اور روس کو شاید ہم نے کھو دیا ہے اور طنزیہ طور پر لکھا کہ یہ دونوں چین کے ساتھ خوشحال مستقبل گزاریں۔
ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب عالمی منظرنامے پر چین تیزی سے اپنی معاشی اور سیاسی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے نئے اتحاد قائم کر رہا ہے۔
https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/115151159839778614
بھارت اور روس دونوں پہلے ہی سے چین کے ساتھ مختلف سطحوں پر خاص طور پر BRICS اتحاد اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔
روس اور چین کے تعلقات گزشتہ ایک دہائی میں خاصے گہرے ہوئے ہیں، خاص طور پر یوکرین جنگ کے بعد جب مغربی دنیا نے سخت پابندیاں عائد کیں۔
جس کے بعد سے پابندیوں کے شکار روس کے لیے چین ایک اہم تجارتی اور عسکری شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
دوسری جانب بھارت اور چین کے تعلقات اگرچہ سرحدی تنازعات اور کشیدگی سے بھرپور ہیں، لیکن اقتصادی میدان میں چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
ساتھ ہی، بھارت BRICS میں بھی چین اور روس کے ساتھ کھڑا ہے، جسے ٹرمپ اور دیگر مغربی تجزیہ کار "امریکا مخالف بلاک" کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت (2017-2021) میں چین پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جسے اب دوسرے دورِ اقتدار میں عروج پر پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ بیان نہ صرف بھارت-امریکا تعلقات میں خدشات کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آنے والے وقت میں امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کو کس طرح ازسرنو ترتیب دینا ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت اور روس کے ساتھ چین کے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
پاکستان اور افغانستان کے حالات نہ صرف کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے واقعات اور افغان طالبان کی دوغلی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں میں قطر اور ترکیہ کی میزبانی اور ثالثی کے کردار کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی نے مستقبل کی بہتری کے امکانات پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس کا مجموعی اثر خطے میں دہشت گردی کی وجوہات کو دور کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں جو امید کے پہلو قائم ہوئے تھے کہ معاملات بات چیت کی صورت میں حل ہوسکیں گے، وہ بھی دم توڑ گئے ہیں۔ اب حالات ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سفارت کاری کے بجائے کشیدگی بڑھے گی اور ایسے لگتا ہے کہ مذاکرات کی حکمت عملی کی ناکامی نے امن کے حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔
ان مذاکرات میں تین مواقع ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں امید بندھی تھی کہ مفاہمت میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے جو تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصولاً قطر اور ترکیہ کی مدد کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھنا چاہیے تھے لیکن کابل میں بیٹھی افغان طالبان قیادت اور دہلی میں بیٹھی بھارت کی قیادت ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف تھی ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی بات چیت آگے بڑھتی تو مذاکرات میں شامل افغان وفد کہتا کہ وہ کابل اور قندھار سے اجازت لے لیں لیکن انھیں اجازت کے بجائے نئے مطالبات کی لسٹ مل جاتی ، یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا رہا۔قطر اور ترکیہ کو بھی کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ افغان حکومت کا طرز عمل سفارتی آداب کے برعکس تھا ۔پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے صرف قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات میں شرکت کی تھی۔حالانکہ ہمیں پہلے سے اندازہ تھا کہ افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستانی مفادات کے برعکس ہے، وہ دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور دیگر ایشوز پر نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا اور پاکستان افغان حکومت سے تحریری ضمانت یا معاہدہ چاہتا تھا۔لیکن افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریری معاہدے سے انکاری اور انحراف ہی مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا ۔حالانکہ افغان حکومت کو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی شواہد بھی پیش کیے اور اسے افغان حکومت نے تسلیم بھی کیا مگر تحریری معاہدہ کرنے سے انکار کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے تھے ۔پاکستان افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کے بقول اگر افغانستان کا وفد بااختیار ہوتا تو مفاہمت کا راستہ نکل سکتا تھا لیکن افغانستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات کو ناکام بنایا ، یقیناً یہ افغان طالبان اور بھارت کا ایجنڈا تھا۔
طالبان قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر جنگ کے نتیجے میں جو حالات کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہ ممالک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قطر اور ترکیہ کے بعد بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور چین اس ڈیڈ لاک میں کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے یا دونوں ممالک کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیںگے۔
کچھ سادہ لوح یا حد سے زیادہ چالاک سفارت کار اس نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے تحریری معاہدے پر زور نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی افغان طالبان نے تحریری ضمانت دینی تھی ۔ان کی رائے یہ تھی کہ اگر زبانی طور پر افغان حکومت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کراتی تو ہمیں یہ آفر قبول کرنی چاہیے تھی ۔لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زبانی یقین دہانی کابل کئی دفعہ کرچکا ہے اور بار بار اس پر عملدرآمد کی ناکامی نے پاکستان کو تحریری معاہدے پر مجبور کیا ۔دوئم، افغان حکومت نے قطر اور ترکیہ کو بھی افغان طالبان کی طرف سے زبانی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو عملی طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنی۔
اس وقت چین یا امریکا یا سعودیہ عرب بھی معاملات کے سدھار میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ یا کشیدگی سے بچ سکیں۔ ہمیں اپنے سفارتی کارڈ یا سیاسی حکمت عملیوں کو اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغانستان پاکستان کے تحفظات کو کسی بھی طور پر سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں کیا حتمی نتیجہ جنگ کی صورت ہی میں نکالنا لازم ہے۔ ہمیں مذاکرات کی ترتیب میں نئی حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔افغان حکومت کے پاس ترکیہ اور قطر میں مفاہمت کو پاکستان کے ساتھ آگے بڑھانے کا اچھا موقع تھا مگر افغان حکومت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور آج دونوں ممالک جو کل تک برادر اسلامی ملک تھے اب جنگ کی حالت میں ہیں۔
افغانستان کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے جو اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے ۔اس لیے خود افغان طالبان حکومت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے تعلقات کی بہتری کو ہی اپنا ایجنڈا بنانا چاہیے۔
اس وقت جو منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں یقیناً یہ عمل ضروری نہ ہو کہ ہمیں جارحانہ راستہ اختیار کرنا ہے لیکن یہ امکان موجود ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی اور دہشت گردی کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے ، ٹی ٹی پی پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار مزید پھیلا سکتی ہے۔ طالبان افغان حکومت کا حالیہ طرز عمل بھارتی ایما پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔