سرینگر کی درگاہ حضرت بل کے احاطے میں اشوکا کا نشان نصب، کشمیر میں شدید غم و غصہ، نشان توڑ ڈالا
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں قابض انتظامیہ نے سرینگر کی مشہور درگاہ حضرت بل کے احاطے میں موریہ خاندان کے آخری عظیم حکمران اشوکا کا نشان نصب کر دیا، جس پر شدید تنازع کھڑا ہو گیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن درخشاں اندرابی نے جھیل ڈل کے کنارے واقع اس درگاہ کی تزئین و آرائش کے منصوبے کا افتتاح کیا، جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا موئے مقدس محفوظ ہے۔
اطلاعات کے مطابق درگاہ کے صحن میں نصب کیے گئے بورڈ کے اوپر اشوکا کا نشان بھی شامل کیا گیا تھا۔ گزشتہ روز نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے آنے والے کشمیری مسلمان یہ نشان دیکھ کر برہم ہو گئے اور اسے اکھاڑ کر توڑ دیا۔
موقع پر نمازیوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نیشنل کانفرنس کے رہنما تنویر صادق نے ایکس پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ درگاہ میں اشوکا کا نشان لگانا توحید کے بنیادی اسلامی عقیدے سے متصادم ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام بلاجواز ہے اور مجسمہ سازی کے زمرے میں آتا ہے، جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے
خلاف ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اشوکا کا نشان کے مطابق
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری تھم نہ سکی، مزید 16 فلسطینی شہید
صیہونی فوج نے رہائشی عمارتوں پر حملے تیز کر دیئے، مزید 16 فلسطینی شہید ہوگئے، درجنوں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے پیر کے روز غزہ شہر پر کیے گئے شدید فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 16 فلسطینی شہید ہو گئے، جبکہ درجنوں عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اس دوران ہوا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے جنگ کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
روبیو کا یہ دورہ قطر میں عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کے ساتھ ہوا، جس میں کچھ ممالک امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں اور یہ اجلاس حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے خلیجی ملک قطر میں مقیم حماس کے رہنماؤں پر حملے کے ردعمل میں بلایا گیا تھا۔
مقامی صحت حکام نے تصدیق کی ہے کہ تازہ ترین حملوں میں دو رہائشی مکانات اور ایک خیمہ نشانہ بنے، جہاں ایک بے گھر فلسطینی خاندان عارضی طور پر مقیم تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملے کیے، جس سے شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ سڑکوں اور کھلے میدانوں میں قائم کیمپوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کو جنوب کی طرف محفوظ علاقوں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں حماس کو شکست دینے اور غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ تاہم، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے ان حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جنہیں ”جبری اجتماعی بے دخلی“ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، جنوبی غزہ کے نام نہاد ”انسانی زون“ میں حالات انتہائی خراب ہیں، جہاں خوراک، پانی اور طبی سہولتوں کی شدید قلت ہے اور پناہ گزین بدترین صورتحال کا شکار ہیں۔
غزہ کے علاقے صبرا کی رہائشی 50 سالہ خاتون غادہ، جو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا ”کیا آپ جانتے ہیں کہ نقل مکانی کیا ہے؟ یہ روح کو جسم سے نکالنے کے مترادف ہے، یہ ذلت ہے، موت کی ایک اور شکل ہے۔“
ادھر اسرائیلی افواج گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرقی غزہ کے کم از کم چار علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے تین علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اب یہ افواج شہر کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہیں اور ان کا اگلا ہدف مغربی علاقہ ہو سکتا ہے، جہاں زیادہ تر بے گھر افراد نے پناہ لی ہوئی ہے۔