مشرقی یروشلم میں فائرنگ سے 6 ہلاک، غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مزید 32 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
مشرقی یروشلم میں فائرنگ کے ایک واقعے میں کم از کم 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ 2 فلسطینیوں نے کیا جن کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے سے تھا۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق دونوں حملہ آور موقع پر ہلاک کر دیے گئے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ غزہ سٹی کی بلند عمارتوں پر تازہ ترین بمباری کے نتیجے میں درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے۔
مزید پڑھیں: ‘غزہ میں معاہدہ جلد ممکن، تمام یرغمالیوں کی رہائی کا امکان ہے،’ ٹرمپ کا دعویٰ
اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں آج صبح سے کم از کم 32 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، جبکہ ایک اور رہائشی ٹاور زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ اب تک اس فوجی مہم کے دوران غزہ سٹی میں 50 سے زائد بلند عمارتیں مکمل طور پر تباہ کی جا چکی ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں جن میں متعدد فلسطینی گرفتار کیے جا رہے ہیں اور زمین و جائیداد کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ’غزہ میں کچھ یرغمالی مر چکے‘، ٹرمپ کا دعویٰ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ غزہ کے لیے ایک ایسا حل تلاش کر رہی ہے جو وہاں کے عوام کے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے چند گھنٹے قبل انہوں نے حماس کے لیے آخری انتباہ جاری کیا تھا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل کی جنگ میں اب تک غزہ میں کم از کم 64 ہزار 522 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 63 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
ہزاروں فلسطینی ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب 7 اکتوبر کے حملوں میں اسرائیل میں 1139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور قریباً 200 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
32 شہید 6 ہلاک اسرائیل ٹرمپ حماس غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 32 شہید 6 ہلاک اسرائیل کے لیے
پڑھیں:
یروشلم میں ہزاروں قدامت پسند یہودیوں کا فوجی بھرتی کیخلاف احتجاج
اسرائیل میں ہزاروں مذہبی طور پر قدامت پسند یہودی مردوں نے جمعرات کو فوجی بھرتی کے خلاف یروشلم میں بھرپور مظاہرہ کیا۔
مظاہرین، سیاہ لباس اور ٹوپیاں پہنے، فوجی خدمات سے استثنیٰ کے حق میں نعرے لگاتے رہے، وہی استثنیٰ جس کی ضمانت دینے کا وعدہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو طویل عرصے سے کرتے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہولوکاسٹ سروائیور بھی اسرائیلی مظالم پر سراپا احتجاج
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی مظاہرین نے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر مارچ کیا، فوجی بھرتی کے خلاف نعرے لگائے اور کئی مقامات پر ترپال کے ٹکڑوں کو نذرِ آتش کیا۔
⚠️ Important
Large gatherings of Ultra-Orthodox Jews are taking place in Jerusalem to protest against military conscription pic.twitter.com/Vk2mQDZaKN
— Open News© (@OpenNewNews) October 30, 2025
پولیس نے یروشلم کے تاریخی شہر میں ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کرتے ہوئے متعدد سڑکیں بند کردیں۔
یہ احتجاج اُس وقت منعقد ہوا ہے جب اسرائیلی حکام نے حالیہ مہینوں میں مذہبی یہودیوں کو بڑی تعداد میں فوجی طلبی کے نوٹس بھیجے ہیں اور بھرتی سے انکار کرنے والے کئی افراد کو جیل بھی بھیجا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے معزول وزیر دفاع نے نیتن یاہو کے عزائم، ہٹ دھرمی کا بھانڈا پھوڑ دیا
1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ایک اصول طے کیا گیا تھا جس کے مطابق وہ مذہبی یہودی مرد جو مکمل طور پر مذہبی تعلیم کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں، لازمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوں گے۔
تاہم غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے بعد جب فوج کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہوا تو اس استثنیٰ پر شدید دباؤ بڑھ گیا۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے جون 2024 میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ مذہبی یہودیوں کے لیے فوجی سروس سے استثنیٰ ختم ہو چکا ہے اور حکومت اب انہیں لازمی طور پر بھرتی کرے۔
اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نئے بل پر غور کر رہی ہے جس کے تحت صرف وہ نوجوان مستثنیٰ ہوں گے جو مکمل وقت مذہبی تعلیم میں مصروف ہوں گے۔
مزید پڑھیں:اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟
یہ مسئلہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، رواں برس جولائی میں شاس پارٹی کے وزراء نے احتجاجاً کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
دوسری جانب یونائیٹڈ تورہ جوڈائیزم پارٹی پہلے ہی حکومت چھوڑ چکی ہے۔
120 رکنی کنیسٹ میں 11 نشستوں کی حامل شاس پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوجی سروس سے استثنیٰ کو قانون کا حصہ نہ بنایا گیا تو وہ حکومت کی حمایت واپس لے لے گی، جس سے نیتن یاہو کی 60 نشستوں والی حکومت گر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: مظاہرین نے اسرائیلی پارلیمنٹ پر دھاوا کیوں بولا؟
کچھ قدامت پسند مذہبی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ فوجی خدمات نوجوانوں کو مذہب سے دور کر سکتی ہیں، جبکہ بعض دیگر کا کہنا ہے کہ جو مذہبی مطالعے میں مصروف نہیں، وہ فوج میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کی یہودی آبادی کا تقریباً 14 فیصد، یعنی تقریباً 13 لاکھ افراد، قدامت پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے تقریباً 66 ہزار مرد اس وقت فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استثنی اسرائیل پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کنیسٹ لازمی فوجی خدمت مذہبی تعلیم یروشلم یونائیٹڈ تورہ جوڈائیزم پارٹی