لاہور: صوبائی پروینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے دریائے راوی، ستلج اور چناب میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے پنجاب عرفان علی کاٹھیا کے مطابق اب تک سیلابی ریلوں میں ڈوبنے سے 76 شہری زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ صوبے کے 4000 ہزار سے زائد موضع جات براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔

پروینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ سیلاب میں مجموعی طور پر 42 لاکھ 9 ہزار افراد اس آفت کی لپیٹ میں آئے جن میں سے 21 لاکھ 90 ہزار افراد کو بروقت ریسکیو آپریشن کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق متاثرہ اضلاع میں 404 ریلیف کیمپس اور 488 میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں، مویشیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال کے لیے 421 ویٹرنری کیمپس بھی فعال ہیں جبکہ اب تک 15 لاکھ 81 ہزار سے زائد جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق منگلا ڈیم اپنی گنجائش کے 90 فیصد جبکہ تربیلا ڈیم 100 فیصد تک بھر چکا ہے۔ اسی طرح دریائے ستلج پر قائم بھارتی بھاکڑا ڈیم 90 فیصد، پونگ ڈیم 99 فیصد اور تھین ڈیم 97 فیصد تک بھر گیا ہے۔

دوسری جانب بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں اور آبی دہشت گردی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اتوار سے اب تک یہ چوتھی مرتبہ ہے کہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑا گیا ہے۔ بھارتی حکام نے اس بار بھی انڈس واٹر کمیشن کو اعتماد میں لینے کے بجائے محض سفارتی ذرائع سے اطلاع دی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اقدام کے باعث دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروزپور کے مقام سے آگے انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارتِ آبی وسائل نے 28 وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر الرٹ جاری کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پی ڈی ایم اے کے مطابق

پڑھیں:

لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں

لاہور:

پنجاب کا دارالحکومت پہلے ہی فضائی آلودگی کے شدید بحران سے دوچار ہے مگر حیران کن طور پر شہر کی صفائی کے لیے چلنے والا ’’ستھرا پنجاب پروگرام‘‘ خود اس آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت لاہور کی گلیوں، محلوں اور شاہراہوں سے کوڑا اٹھانے کے لیے 28 ہزار سے زائد گاڑیاں استعمال کی جارہی ہیں جو زمین کو تو صاف کرتی ہیں مگر فضا کو مزید آلودہ بنا رہی ہیں۔ اربن یونٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق لاہور کی فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کا ہے جو مجموعی آلودگی کا تقریباً 39 فیصد بنتا ہے۔ 

حکومت ایک طرف دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ لازمی قرار دیے گئے ہیں مگر دوسری طرف صفائی ستھرائی کے لیے ہزاروں پٹرول اور ڈیزل گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر شہر میں دوڑ رہی ہیں۔

لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کے مطابق شہر میں 28 ہزار 69 چھوٹی بڑی گاڑیاں  جن میں لوڈر رکشے، پک اپ ویگنیں، اور بڑی کلیکشن ٹرک شامل ہیں جو روزانہ صفائی کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ ان گاڑیوں کی سرگرمیاں صبح کے اوقات میں بڑھ جاتی ہیں جب شہر کا فضائی معیار پہلے ہی کمزور ہوتا ہے۔

پنجاب کے ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیوآئی) کے ریئل ٹائم ڈیٹا کے مطابق صبح 6 سے 9 بجے کے درمیان لاہور میں فضائی آلودگی نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے، یہ وہی وقت جب صفائی کی گاڑیاں متحرک ہوتی ہیں۔ رواں ماہ کے دوران ان اوقات میں لاہور کا اے کیو آئی مسلسل خطرناک سطح پر رہا۔ 12 اکتوبر کو 180–185، 14 اکتوبر کو 264–313، 15 اکتوبر کو 237–323، 16 اکتوبر کو 277–339، 17 اکتوبر کو 279–324 اور 18 اکتوبر کو 255–295 تک ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز تسلیم کرتے ہیں کہ صفائی کی اس بڑی مہم سے آلودگی میں اضافہ ضرور ہوتا ہے مگر ان کے مطابق کوڑا نہ اٹھانے کی صورت میں بھی ماحول کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے بقول اگر کچرا پڑا رہے تو میتھین گیس پیدا ہوتی ہے جو گاڑیوں کے دھوئیں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی سمیت تمام سرکاری محکموں کی گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال کی اجازت نہیں۔  محکمے کے مطابق اب تک دو لاکھ 60 ہزار گاڑیوں کے امیشن ٹیسٹ ہو چکے ہیں جبکہ 20 اکتوبر سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لئے سرگرم کوڈ فار پاکستان کی کمیونٹی مینیجر خنسہ خاور کہتی ہیں کہ شہر کی صفائی کے لیے گاڑیوں کا استعمال بظاہر ضروری ہے مگر اس کے ماحولیاتی نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں ہم اکثر دوسرے مسئلے کو بڑھا دیتے ہیں۔ زمین کی صفائی کے ساتھ صاف ہوا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ نئی گاڑیاں خریدنے کے بجائے پہلے سے موجود گاڑیوں میں امیشن کنٹرول سسٹم لازمی قرار دیا جائے تاکہ ایندھن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نہ صرف اخراج کم کرے گا بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی گھٹے گا۔
ماہر ماحولیات اور ائیر کوالٹی انیشیٹو کی رکن مریم شاہ کے مطابق صفائی کے عمل میں استعمال ہونے والی گاڑیوں سے امیشن کا اخراج فطری ہے، تاہم حکومت کو عملی حقائق کے مطابق قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، سب سے بہتر آپشن تو زیرو امیشن گاڑیاں ہیں، مگر ہمیں وسائل اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہی راستہ اپنانا پڑتا ہے جو ممکن ہو۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر سعدیہ خالد نے تجویز دی ہے کہ لاہور جیسے شہروں میں گلی محلوں سے کوڑا جمع کرنے کے لیے پٹرول رکشوں کے بجائے الیکٹرک رکشے یا سائیکل ریڑھیاں استعمال کی جائیں۔انہوں نے کہا، ان گاڑیوں کو تیز رفتاری کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے انہیں بجلی سے چلنے والے ماڈلز میں تبدیل کرنا ممکن اور مؤثر ہے۔ اس سے آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی۔

لاہور کا فضائی معیار گزشتہ کئی برسوں سے تشویش ناک سطح پر ہے اور مختلف عالمی اداروں کے مطابق یہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہے۔ ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی اور فضا کی حفاظت ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی ماحولیات پالیسی کے دو پہلو ہیں اور اگر حکومت اس توازن کو برقرار نہ رکھ سکی توستھرا پنجاب زمین کے لیے تو فائدہ مند ہوگا، مگر ہوا کے لیے خطرناک ہوجائیگا۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان،خونریز جنگ، والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، اجتماعی قبریں و لاشیں
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، ہزاروں افراد محصور
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس
  • سمندری طوفان نے کیوبا، جمیکا اور ہیٹی میں تباہی مچا دی؛ ہلاکتوں کی تعداد 60 ہوگئی
  • لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں
  • سمندری طوفان ملیسا کی تباہ کاریاں جاری؛ ہلاکتیں 50 تک پہنچ گئیں
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا
  • سیلاب بحالی پروگرام: 6 ارب روپے سے زاید تقسیم کردیے، مریم اورنگزیب
  • دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے اموات کی تعداد میں اضافہ