اسلامی چھاترو شبر کی کامیابی
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بنگلا دیش میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترو شبر کے مکمل پینل کی کامیابی سے بنگلا دیش کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی ہے اور قوم پرستوں اور بھارت نواز قوتوں کا ہمیشہ کے لیے جنازہ نکل گیا ہے۔ بنگلا دیش کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبرکی یہ کامیابی انتھک محنت اور طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کا ثمر ہے۔ نظریہ پاکستان سے وفا کی قیمت انہوں نے کئی دہائیوں تک ادا کی اور یہ بہادر لوگ ایک لمحے کے لیے نہ جھکے نہ دبے، ہر حال میں سر بلند رہے اور اپنی روح اور بدن کی قربانیاں ادا کی۔ ڈھاکا یونی ورسٹی کے انتخابات کے بعد ماہ فروری 2026 میں بنگلا دیش میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں، اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی سے محسوس کیا جارہا ہے کہ قومی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی یقینی ہوچکی ہے اور بنگلا دیش میں ہوا کا رُخ اب تبدیل ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنگلا دیش میں کامیابی سے بلاشبہ خطے میں طاقت کا توازن درست کرنے کی بنیاد بنے گا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلام پسندوں کی فتح ایک انقلاب کی نوید سنا رہا ہے اور ایک نئی صبح کا پیغام دے رہا ہے۔ اس سے کامیابی وکامرانی کے نئے دروازے کھلے ہیں۔ یہ شاندار اور تاریخی کامیابی جوکہ ایک عظیم، بلند وبالا نظریہ اور حق گوسرفرشوں کی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا اصل کریڈیٹ شہید عبدالمالک کوجاتا ہے۔ جنہوں نے اب سے 55 سال قبل ڈھاکا یونیورسٹی میں بھارت کے ایجنٹوں اور قوم پرست قوتوں کو للکارا اور کلمہ توحید بلند کیا تھا۔
شہید عبدالمالک میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں ناصرف یہ کہ پاکستان کا پرچم بلند کیا بلکہ نظریہ پاکستان کا دفاع بھی کیا۔ اس جرم کے پاداش میں انہیں بھارت کے ایجنٹوں نے سریوں اور ڈنڈوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ عبدالمالک کی شہادت کے بعد لسانیت اور تعصب کی ایسی آگ بھڑکی کہ سب کچھ خاکستر ہوگیا۔ بھارت کی سازشوں اور مداخلت کے باعث مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا ہمارا ایک بازو کٹ گیا۔ بھارت کی کٹھ پتلی بنگلا دیش کے بانی مجیب الرحمن کو بھارت نے اپنے انجام تک پہنچایا اور پھر بنگلا دیش میں مختلف اوقات میں مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت بنی۔ حسینہ واجد نے بھارت کے ایما پر پاکستان سے وفاداری کرنے والے افراد کا جینا دوبھر کر دیا اور چن چن کر انہیں تختہ مشق بنایا گیا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی بقاء وسلامتی کے لیے مشرقی پاکستان کے نوجوانوں پر مشتمل البدر، الشمس تنظیمیں بنائی۔ جنہوں نے ڈھاکا ہی نہیں پورے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی سے پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑی۔ بنگلا دیش قائم ہونے پر لاکھوں پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکا کے پلٹن گراؤنڈ میں ہتھیار ڈالے لیکن البدر اور الشمس کے مجاہدین اپنی آخری سانسوں تک پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے اور بھارت کے سینے پر بیٹھ کر مونگ دلتے رہے۔
بھارت نواز حسینہ واجد حکومت کا کوئی ظلم اور ستم انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکا۔ ظالم اور فرعون صفت حسینہ واجد نے ظلم وستم کی تمام حدود کو پھلانگ لیا لیکن وہ ان سرفروشوں کے سروں کو جھکا نہیں سکی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی اس کے اکابرین اور کارکنان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمان، عبدالقادر ملا، محمد قمر الزماں، میر قاسم علی ودیگر قائدین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نوے سال سے زائد عمر والے پروفیسر غلام اعظم کو جیل کی قید میں صعوبتیں دے کر موت کے منہ میں دکھیل دیا گیا۔ کون سا ظلم اور درندگی تھا جو ان مظلوموں پر نہ ڈھایا ہو۔ دھاندلی اور بھارت کی پشت پناہی کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حسینہ واجد کے ظلم وستم نے جب تمام حدود کو پھلانگ لیا تو پھر عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا۔ کوٹا سسٹم کے نام پر بنگلا دیش کے طلبہ نے وہ تحریک چلائی کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم حسینہ واجد بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ ملک میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کی گئی۔ عبوری حکومت نے فروری 2026 قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔
آج 55 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ بنگلا دیش میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے ریت کے ڈھیر پر تعمیر کیے گئے محلات ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔ بنگلا دیش کے چپے چپے پر بنگلا دیشی پرچم کے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لہرا رہے ہیں۔ اور آج بنگلا دیش تکبیر کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ بنگلا دیش کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی نے شہید عبدالمالک کے مقدس خون کی لاج رکھ لی ہے۔ وہی ڈھاکا یونیورسٹی جہاں قوم پرست دہشت گردوں نے اسلام کے اس مجاہد کو بہیمانہ تشدد کے ذریعے شہید کیا تھا لیکن آج شہید عبدالمالک کا خون بھی بول اٹھا ہے۔
تم نے جس خون کو مقتل میں چھپانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
بنگلا دیش میں ڈھاکا یونیورسٹی میں شہید عبدالمالک کی شہادت سے شروع ہونے والا ظلم وستم آج 55 سال کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں ہونے والے طلبہ یونین کے انتخابات میں اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی سے ظلم کی سیاہ رات ختم ہوگئی ہے اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہونے والا ہی ہے۔
بنگلا دیش میں قوم پرستی کا سیلاب اپنے تمام تر ظلم استبداد سمیت خلیج بنگال کی گہرائیوں میں غرق ہو چکا ہے۔ بنگلا دیش میں اسلامی تحریک کا پرچم مزید بلند ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی لہر آچکی ہے۔ سری لنکا، بنگلا دیش، نیپال کے بعد یہ ہوائیں جلد پاکستان میں بھی چلنا شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں پاکستان میں طلبہ تنظیموں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں کیونکہ تمام ہی حکومتوں نے طلبہ کی آواز کو دبایا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران نہیں چاہتے کہ طلبہ میں شعور اور آگہی پروان چڑھے اور ان میں انقلابی سوچ پروان نہ چڑھے۔ کوئی بھی بچہ اسکول، کالج یونی ورسٹی سے سیاست نہ سیکھ لے تاکہ یہ بھی اپنے حق کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈھاکا یونیورسٹی میں ڈھاکا یونی ورسٹی شہید عبدالمالک بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کی کامیابی میں اسلامی حسینہ واجد کامیابی سے ورسٹی میں بھارت کے بھارت کی کے بعد ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بدل دو نظام اجتماع عام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-03-4
مجاہد چنا
قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہم سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزرہا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وطن عزیز کو اس نازک صورتحال پر کس نے پہنچایا ہے اور اس کو کون اور کیسے اس صورتحال سے نکال سکتا ہے۔ بدقسمتی 1947 سے اب تک حکومتیں، چہرے پارٹیاں اور جھنڈے تو بدلتے رہے مگر ملک و قوم کے حالات بدلنے تو کجا مزید بدتر ہوتے گئے۔ کہتے ہیں کہ جب پاکستان بنا تو ایک ڈالر ایک روپے کا تھا مگر اب تین سو کے قریب ہے۔ مثالی امن تھا مگر اب عوام دن ہو یا رات غیر محفوظ ہیں۔ یہاں تک کے خود حکومتی نمائندے غیر محفوظ ہیں۔ کراچی میں صوبائی مشیر اور نوشہرو فیروز میں حکومتی ایم این اے کے گھر سے کروڑوں روپے کی ڈکیتی بدامنی کی بدترین مثال ہے ۔ پہلے کراچی سمیت بڑے بڑے شہروں کی سڑکوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا، سڑکیں اور شہر صاف ستھرے اور سڑکیں کشادہ ہوتی تھیں مگر اب سڑکوں پر گڑھے اور شہر گندگی کے ڈھیر اور موئن جو دڑو کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اب ای چالان نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ظلم وناانصافی کی انتہا نہیں کہ سڑکیںکچے سے بھی بدتر اور چالان دبئی اور عالمی معیار کے کاٹے جارہے ہیں ۔ صوبہ سندھ کے عوام سب سے زیادہ اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول زرداری کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ کسی صوبہ سے نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک سے ہے!
اس صورتحال کے پیش نظر جہاں ہر طرف مایوسی و ناامیدی ہو وہاں پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے عوام کو حوصلہ خاص طور نوجوانوں کو امید دلانے کے لیے 21 نومبر کو تاریخی مقام مینار پاکستان کے سائے تلے ’’بدل دو نظام‘‘ کے نعرے کے تحت اجتماع عام کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جس کے لیے مرکزی نائب امیر محترم لیاقت بلوچ کو ناظم اجتماع مقرر کیا جو دن رات اپنے مہمانوں شرکاء اجتماع کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کرنے میں مصروف ہیں۔ 1941 میں قائم ہونے والی جماعت اسلامی کے اجتماع عام ہوتے رہے ہیں، 21 تا 23 نومبر لاہور میں ہونے والا اجتماع عام 16 واں اجتماع عام ہوگا۔ ناظم اجتماع محترم لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ اجتماع عام محض ایک اجتماع، جلسہ عام اور پاور شو نہیں ہوتا۔ اجتماع عام کا اصل مقصد دعوت کو عام کرنا ہے، اجتماع قرآن و سنت کے پیغام اور جذبوں سے امت مسلمہ تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اجتماع عام کے لیے 50 شعبے اور 14 نائب ناظمین مقرر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ملک بھر کے ذمے داران کو ہدایت کی ہے کہ ممبر سازی مہم کے دوران بنائے گئے سوا تین لاکھ ممبروں سے رابطے مضبوط کیے جائیں اور انہیں لاہور کے اجتماع عام میں شریک کرایا جائے۔ یاد رہے کہ دو ماہ قبل تک جماعت اسلامی کے کل مرد ارکان کی تعداد 39620، خواتین ارکان 7383 جبکہ اس کے علاوہ امیدوار ارکان، کارکنان، اقلیتی ویوتھ ممبران بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ گزشتہ 78 سال سے وطن عزیز پر قابض کرپٹ حکمرانوں، اشرافیہ، جرنیلوں اور بیوروکریسی نے عام پاکستانی کو ظلم، ناانصافی، جعلی انتخابات اور طبقاتی نظام کے بوجھ تلے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس فرسودہ طبقاتی نظام کو بدلا جائے۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان نا صرف ملک گیر دیانتدار قیادت کی حامل واحد حقیقی جمہوری پارٹی کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ شفاف سیاست کی ایسی علامت ہے جو کلٹ اور شخصیات کی سیاست کے بجائے منصفانہ نظام، ایک نصاب اور ایک زبان پر مبنی پاکستان کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں خیبر سے کراچی تک کے لاکھوں مردو خواتین اور نوجوانوں کو تعمیری انقلاب کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے لاہور میں جماعت اسلامی مینار پاکستان پر ’’بدل دو نظام‘‘ اجتماع عام کا انعقاد کر کے ایک زبردست عوامی تحریک کا آغاز کر رہی ہے۔ کرپٹ نظام اور کرپٹ قیادت کی وجہ سے ملک اس وقت سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان بہت مایوس ہیں اور عام آدمی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی سخت پریشان ہے۔ اس وقت کسانوں، خواتین، محنت کشوں اور سرکاری ملازمین سمیت ہر طبقہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے میدان میں نکل آیا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ چہروں سے نہیں، نظام کی تبدیلی سے ہی عام لوگوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں، مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ملک ترقی کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ملک میں نظام کی تبدیلی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ جس میں کرپٹ نظام کی تبدیلی کا مکمل پروگرام دیا جائے گا۔ عوام خاص طورپر نوجوانوں کو چاہیے کہ مایوس ہونے کے بجائے مینار پاکستان کی طرف قدم بڑھائیں اور نظام کی تبدیلی کو ممکن بنائیں۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ہرشہری کو ناانصافی، ظلم اور طبقاتی نظام کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کی اس تحریک کا حصہ بن جانا چاہیے تاکہ اسلامی انقلاب کی منزل قریب سے قریب تر اور عوام کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔