فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فلسطین کی زمین انسانی تہذیب، ثقافت اور مذہبی ورثے کی ایک زندہ علامت رہی ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں انسانی تاریخ رقم ہوتی رہی، مقدس مقامات قائم ہوئے اور معاشرتی اصول پروان چڑھے۔ مگر بیسویں صدی میں یہ خطہ ایک غاصب منصوبے کا شکار ہوا، جس نے فلسطینی عوام کی زمین چھین لی اور انہیں بے گھر کر دیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوا، اور آج تک حقیقی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی زمین پر اپنی بستیوں کی تعداد بڑھائی بلکہ قدس شریف میں آبادیاتی تبدیلیاں کیں، غزہ میں بمباری کر کے بنیادی سہولتیں تباہ کیں اور انسانی زندگی اُجاڑ دی۔ ہر موقع پر فلسطینی حق ِ ملکیت، حق ِ واپسی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی اقدامات اکثر علامتی رہ گئے، جبکہ اسرائیل عالمی طاقتوں کے تحفظ اور تعاون سے فلسطینی حق کو دباتا رہا۔
دو ریاستی حل، جسے اکثر امن کا حل کہا جاتا ہے، فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ حل 1967 کی سرحدوں تک محدود ہے اور اسرائیل کو قبضے کو جاری رکھنے کا قانونی جواز دیتا ہے، جبکہ فلسطینی حق ِ واپسی اور تاریخی حقوق پس ِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ اگر دو ریاستی حل واقعی قابل قبول ہوتا تو آج فلسطینی ریاست قائم ہو چکی ہوتی، مگر اسرائیل اور عالمی طاقتوں نے اسے ہمیشہ روکا۔ فلسطینی مزاحمت، خاص طور پر حماس، صرف عسکری نہیں بلکہ عوامی شعور اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ 2006 کے انتخابات میں عوام نے حماس کو مینڈیٹ دیا، جو آج تک اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہے۔ مزاحمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے، جو انسانی، قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے محفوظ ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطینی علاقوں میں آبادکاری، قدس میں آبادیاتی تبدیلیاں، غزہ میں بمباری اور بنیادی سہولتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 64,803 فلسطینی شہید اور 164,264 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 80 فی صد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ مظالم اسرائیل کی غاصب ریاست ہونے کی واضح مثال ہیں۔ یہ سلسلہ 1948 سے نہیں بلکہ 1917 کے بالفور ڈیکلیریشن سے شروع ہوا، جب برطانیہ نے فلسطینی زمین پر یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا، بغیر کسی مالک کی اجازت کے۔ برطانوی انتداب نے فلسطینیوں کے خلاف ظلم کیا: ہتھیاروں پر پابندی، مظاہروں پر گولیاں، اور یہودی آبادکاروں کو زمین کا تحفہ۔ 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا، حالانکہ فلسطینی آبادی 67 فی صد تھی مگر انہیں صرف 45 فی صد زمین دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے موقع پر لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے، جسے ’’نکبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1967 کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا اور غیرقانونی بستیاں قائم کیں۔ ہائی ویز صرف یہودیوں کے لیے بنائے گئے اور ’’جدار علٰیحدگی‘‘ نے فلسطینیوں کو اپنی زمین سے کاٹ دیا۔ آج سات لاکھ سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ غزہ، جو دنیا کا سب سے بڑا ’’اوپن ائر جیل‘‘ ہے، وہاں 2007 سے محاصرہ ہے۔ بچوں کو دودھ نہیں ملتا، اسپتال بجلی سے محروم ہیں اور گولہ بارود کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ 2014، 2021 اور 2023 کی جنگیں نسل کشی کی کوششیں تھیں، جن کی تصدیق اقوام متحدہ کے ماہرین حقوقِ انسان کر چکے ہیں۔
دنیا ’’انسانیت‘‘ کے نعرے لگاتی ہے، مگر امریکا ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر دیتا ہے، جو فلسطینی بچوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یورپی یونین حقوقِ انسان کی بات کرتی ہے، مگر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی نہیں لگاتی۔ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں، جبکہ عوام سڑکوں پر فلسطین کے لیے رو رہے ہوتے ہیں۔ ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عالمی انصاف کے اصولوں کو پامال کیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں مفادات کی پیروی کرتی ہیں، نہ کہ فلسطینی انصاف کی۔ فلسطینی مزاحمت صرف حماس کی راکٹ باری تک محدود نہیں۔ یہ وہ بچہ ہے جو پتھر لے کر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ماں جو اپنے شہید بیٹے کی قبر پر فلسطینی جھنڈا لہراتی ہے، وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر اسرائیلی ظلم کی ویڈیوز شیئر کرتا ہے، اور وہ وکیل جو بین الاقوامی عدالت میں فلسطینی حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ فلسطینی ثقافت؛ گرافٹی، نغمے، کہانیاں، ڈائریاں۔ یہ سب مزاحمت کی شکلیں ہیں۔ بچوں کی ڈائریاں، جیسے شذا العجلہ یا محمد الدرہ، دنیا کو جھنجھوڑتی ہیں۔ مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حقیقت‘‘ ہے، جو ہر دفعہ اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے۔
دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کا خیال تھا، لیکن اسرائیل نے ہر سال نئی بستیاں بنائیں، ہر معاہدے کے بعد نئی شرائط لگائیں، اور ہر امن مذاکرے کے بعد نئی بمباری کی۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں منتقل ہوئے۔ اسرائیل نے کبھی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 بھی نافذ نہ ہو سکیں۔ دو ریاستی حل اب صرف ایک ’’تسلی دینے والا خواب‘‘ ہے، جسے اسرائیل اور امریکا نے کبھی پورا ہونے نہیں دیا۔
فلسطین صرف ایک خطہ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، ثقافت اور روحانیت کا مرکز ہے۔ بیت المقدس کی اہمیت قرآن و حدیث میں واضح ہے۔ امت ِ مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے لیے جہاد، دعائیں، مالی امداد، سیاسی حمایت اور ثقافتی مزاحمت کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا: ’’اگر کفار کسی مسلمان علاقے پر قبضہ کر لیں تو اسے چھڑانا فرضِ عین ہے‘‘۔ آج فلسطینی عوام تنہا نہیں، وہ پوری امت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مساجد، مدارس، یونیورسٹیاں اور میڈیا کا فرض ہے کہ فلسطین کی آواز بلند رکھیں۔ خاموشی گناہ ہے، بے حسی ناقابل ِ معافی۔ دو ریاستی حل کی ناکامی کے بعد نوجوان فلسطینی ایک ریاستی حل کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی۔ اسرائیل کو بائیکاٹ کرنا (BDS Movement) ایک مؤثر ہتھیار ہے، جس سے اسرائیلی معیشت اور عالمی تصویر متاثر ہوتی ہے۔
عالمی عوامی رائے، سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کی بغاوت وہ طاقتیں ہیں جو مستقبل میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل کی طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عالمی خاموشی میں ہے۔
قدس اور فلسطین صرف ایک ملک نہیں بلکہ امت مسلمہ کا وقف ہیں۔ جہاد اور مزاحمت، تاریخی، قانونی اور اخلاقی طور پر فلسطینی حق کے لیے جائز اور ضروری ہیں۔ فلسطینی مزاحمت صرف عسکری محاذ نہیں بلکہ عوامی شعور، ثقافت اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز آج بھی زندہ ہے:
نہ منہ چھپا کے جیے ہم، نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے
یہ عزم اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیویارک اعلامیہ اور دو ریاستی حل صرف کاغذ پر ہیں، مگر فلسطین زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فلسطینی مزاحمت، شہداء کی قربانیاں اور عوامی عزم ہی حقیقی آزادی کی ضمانت ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت فلسطینی ریاست فلسطینی عوام دو ریاستی حل اقوام متحدہ اسرائیل نے نے فلسطینی فلسطینی حق اسرائیل کو پر فلسطینی ہو چکے ہیں اور عالمی پر فلسطین فلسطینی ا نہیں بلکہ نے فلسطین کہ فلسطین کرتی ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب الله لبنان
اپنے ایک بیان میں شیخ علی دعموش کا کہنا تھا کہ امریکہ کیجانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" كی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "شیخ علی دعموش" نے کہا کہ لبنان کی حکومت نے اس غلط فہمی پر انحصار کیا کہ امریکہ و اسرائیل کے خیال میں مزاحمت کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا كہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں تاہم لبنان کو کمزور کرنے والی کسی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ شیخ علی دعموش نے کہا کہ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ فیصلوں، دباؤ، حملوں و جنگ کی دھمکیوں سے مزاحمت کو جھکا سکتا ہے اور ہمیں امریکہ و اسرائیل کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور کر سکتا ہے۔ البتہ وہ حزب الله و امل تحریک کی ثابت قدمی سے حیران رہ گئے اور اس سے بھی زیادہ، مزاحمت کے حامیوں کی ہتھیاروں سے وابستگی نے انہیں حیران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو نقصان پہنچانے کی حکومتی کوششیں اب رک چکی ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت دباؤ یا دھمکیوں سے ختم ہو سکتی ہے، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ جو لوگ مزاحمت کو کمزور سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہ اور بھی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
شیخ علی دعموش نے حکومت کو خبردار کیا کہ فوج کو استقامتی محاذ کے خلاف استعمال نہ کریں اور اسے اپنے ہی عوام کے سامنے نہ کھڑا کریں۔ فوج کا کام ملک پر حملے روکنا، اندرونی امن قائم رکھنا اور استحکام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ عوام سے لڑنا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ قومی سطح پر دفاعی حکمت عملی پر بات چیت ہو اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ہم کوئی ایسا مشورہ قبول نہیں کریں گے جو لبنان کی طاقت کو کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ استقامتی محاذ سے ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر کوئی چالاکی یا ہوشیاری نہیں چلے گی۔ ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ ہماری طاقت اور دفاعی صلاحیتیں، ہم سے چھین کر امریکہ و اسرائیل کے فائدے کے لئے استعمال ہوں۔ ہم یہ بھی قبول نہیں کریں گے کہ لبنان ایک کمزور اور شکست خوردہ ملک بن جائے جس پر آسانی سے اندرونی یا بیرونی حملے کئے جائیں۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ امریکہ کی جانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔