سندھ میں سرکاری اسپتالوں کے ملازمین کا اوپی ڈیز اوردفاتربند کرنے کااعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے ملازمین نے ڈسپیرئنس الاؤنس میں 50 فیصد اضافہ، تنخواہوں میں 70 فیصد اضافہ اور پنشن کٹوتی کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے کل تمام او پی ڈیز بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں کے ملازمین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈسپیرنس الاؤنس میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے، گریڈ 1 تا گریڈ 22 کے تمام مستقل ملازمین کی تنخواہوں میں 70 فیصد اضافہ کیا جائے، گروپ انشورنس و بینولنٹ فنڈ کی ادائیگی بروقت کی جائے اور پنشن میں کسی قسم کی کٹوتی نہ کی جائے۔
ملازمین رہنماؤں کا کہنا تھاکہ ان تمام مطالبات کی منظوری کے لیے کل سے سندھ کے سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز اور دفاتر مکمل طور پر بند رکھے جائیں گے، صرف ایمرجنسی سروسز فراہم کی جائیں گی۔یہ اعلان گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) کے اجلاس کے بعد کیا گیا، جو سول اسپتال کراچی میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں پی ایم اے، وائی ڈی اے، وائی این اے، الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز ایسوسی ایشن سندھ، سندھ پیرا میڈیکل اسٹاف، پاکستان پیرا میڈیکل اسٹاف 041 و 2076، ینگ پیرا میڈیکل اسٹاف اور سندھ ایمپلائز الائنس کے چیئرمین حاجی محمد اشرف خاصخیلی سمیت متعدد رہنماؤں نے شرکت کی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سرکاری اسپتالوں فیصد اضافہ
پڑھیں:
پنجاب میں سرکاری بھرتی کا نیا آرڈیننس نافذ، مستقل نوکری اور پنشن ختم
اب مجوزہ قانون کے مطابق محکمانہ بھرتیاں یکمشت پیکیج پر ہوں گی اور نئے کنٹریکٹ ملازمین پوری سروس کنٹریکٹ پر ہی رہیں گے، وہ پنشن یا مستقل حیثیت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد موجودہ کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل سے متعلق ابہام بھی سامنے آیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب حکومت نے سرکاری بھرتیوں کا طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے نئے آرڈیننس کے تحت ملازمین کی تقرری بنیادی تنخواہ کے سکیل کے بجائے یکمشت پیکیج پر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت بھرتی ہونیوالے ملازمین پنشن کے اہل نہیں ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس (ری پیل) آرڈیننس 2025 یکم نومبر سے نافذ کر دیا گیا ہے اور اسے پنجاب اسمبلی میں پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس ایکٹ 2018 کو باضابطہ طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حکومتی حکام کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے بنیادی وجہ صوبائی خزانے پر بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ کو کم کرنا ہے۔
حکومت نئے سسٹم کے تحت سرکاری بھرتیوں کو مستقل سکیل کے بجائے یکمشت تنخواہ پر منتقل کر رہی ہے۔ 2018 کے قانون کے خاتمے کے بعد کنٹریکٹ ملازمین کی 4 سالہ ملازمت کے بعد مستقل ہونے کا عمل فوری طور پر روک دیا گیا ہے، تاہم آرڈیننس نے منسوخ شدہ قانون کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں کو تحفظ دیا ہے۔ منسوخ شدہ قانون کے مطابق، کنٹریکٹ ملازمین 4 سالہ تسلی بخش کارکردگی، باقاعدہ اسامی اور مطلوبہ قابلیت کی صورت میں مستقل ہونے کے اہل تھے، جس پر باقاعدہ کمیشن سفارشات دیتا تھا۔
اب مجوزہ قانون کے مطابق محکمانہ بھرتیاں یکمشت پیکیج پر ہوں گی اور نئے کنٹریکٹ ملازمین پوری سروس کنٹریکٹ پر ہی رہیں گے، وہ پنشن یا مستقل حیثیت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد موجودہ کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل سے متعلق ابہام بھی سامنے آیا ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ نیا آرڈیننس ان پر اثر انداز نہیں ہوتا، جبکہ کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام ان کی مستقل ہونے کی اہلیت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔