’صرف برائیاں یاد رہیں‘، روبی انعم کا بشریٰ انصاری سے شکوہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
معروف کامیڈین اور اداکارہ روبی انعم نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اُنہیں وی لاگنگ چھوڑ کر آرام کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ انصاری کی عمر اب ایسی نہیں کہ وہ یہ سب کرتی رہیں وہ ہماری ماؤں سے بھی بڑی ہیں اور اب بڑھاپے کی عمر میں داخل ہو چکی ہیں۔ تاہم میڈیا انڈسٹری کے سینئر افراد کی سرزنش کے بعد انہوں نے بشریٰ انصاری سے معذرت کر لی۔
حال ہی میں روبی انعم نے یوٹیوب چینل ’ڈرامے بازیاں‘ کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بشریٰ انصاری سے متعلق مزید باتیں کیں اور اس تنازعے کا اختتام کیا۔
یہ بھی پڑھیں: روبی انعم اداکارہ بشریٰ انصاری پر کیوں برس پڑیں؟
بشریٰ انصاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے روبی انعم نے کہا کہ آپ کو میری شرارت اور میری بدتمیزی تو یاد رہی لیکن جو اچھائیاں میں نے کیں وہ یاد نہ رہیں۔ جب آپ کینیڈا میں تھیں، تب بشریٰ انصاری کا انٹرویو تھا تو میں نے اپنے بھائی بدر منیر سے بات کی اور ان کو نیک تمنائیں بھیجیں اور ان کے لیے پیغامات بھیجے لیکن وہ آپ کو یاد نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے ایک بار کچھ برا کہہ دیا، تو وہ پورے انٹرنیٹ پر پھیل گیا۔ جب آپ سچ بولتے ہیں، تو لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ راشد محمود، محسن گیلانی، خالد عباس ڈار اور اماں نے مجھے سمجھایا اور احساس دلایا کہ میں نے غلطی کی ہے، تو میں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور معاملے کو ختم کیا۔ بشریٰ انصاری پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا سب سے بڑا نام ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔
اداکارہ ںے کہا کہ سچ بات کو ہضم کرنا سیکھیں کوئی بات بری لگے تو بڑے ہونے کا ثبوت دیں، اسماء عباس نے سب کو کال کی اور کہا انہوں نے بڑے وہنے کا ثبوت دیا۔ میری لڑائی ختم ہو چکی ہے آج کے بعد میں کہیں پر بھی ایسی بات نہیں کروں گی، انہوں نے مزید کہا کہ میری وجہ سے دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی مانگتی ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسماء عباس بشریٰ انصاری روبی انعم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسماء عباس انہوں نے
پڑھیں:
دکھ روتے ہیں!
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔