اقوام متحدہ اجلاس؛ اسحاق ڈار کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور مسئلہ فلسطین پر خطاب
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور مسئلہ فلسطین پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں جاری ہیں۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ فوری جنگ بندی کرائی جائے اور امدادی سامان و ادویات کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے جبکہ اسرائیل کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور 10 لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کے باعث انسانیت اور عالمی ضمیر کا قبرستان بن چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ان کے جائز حقوق کے حصول کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے دو ریاستی حل پر کانفرنس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ مختلف ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان ان ابتدائی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کیا۔اسحاق ڈار نے زور دیا کہ سلامتی کونسل اور عالمی برادری انسانی وقار کے تحفظ، انصاف اور جوابدہی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ بیانات کا وقت ختم ہو چکا ہے، اب عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
مسئلہ فلسطین پر آج ہونیوالی یو این کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر22 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کا احیاء کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس عالمی کانفرنس میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کریں گے۔
رواں سال اپریل میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلی۔
فلسطینی مسئلے کےدو ریاستی حل کا امکان کمزور پڑ رہا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا سیاسی عزم اب پہلے سے کہیں زیادہ دور محسوس ہوتا ہے۔حالیہ دنوں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ مسئلے کے اس حل کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ حل یک ریاستی ہو گا جس میں یا تو فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے نکال دیا جائے، یا انہیں اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہنے پر مجبور کیا جائے؟
انہوں نے زور دیا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اس کے لیے ضروری حالات پیدا کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے۔
(جاری ہے)
درج ذیل نکات اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ دو ریاستی حل کے لیے ہونے والی کانفرنس کیوں اہم ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے افتتاحی دن ہونے والی یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو رہی ہے جب غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 60,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 22 اگست کو شمالی غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق کی گئی، 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر میں حماس کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع میں بھی تیزی آئی ہے۔
اس غیر مستحکم اور تشویشناک علاقائی صورتحال کے باوجود، دو ریاستی حل کو سفارتی سطح پر دوبارہ حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ 12 ستمبر کو جنرل اسمبلی نے کثرتِ رائے سے 'نیویارک اعلامیہ' منظور کیا جس میں دو ریاستی حل پر مبنی اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر منصفانہ اور پائیدار امن کی حمایت کی گئی۔ اعلامیے میں جنگ کے خاتمے کے لیے حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ میں اپنا کردار ختم کرے اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے۔
امریکہ اور اسرائیل نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔22 ستمبر کو ہونے والا سربراہی اجلاس اسی سفارتی پیش رفت کو آگے بڑھائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں اس اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق، برطانیہ، کینیڈا، بیلجیئم اور آسٹریلیا سمیت کئی دیگر مغربی ممالک بھی اسی اقدام پر غور کر رہے ہیں۔
اس طرح، یہ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے نیا لائحہ عمل ترتیب دینے کی عالمی کوششوں میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔