اقوام متحدہ بین الاقوامی قانون کا محافظ اور انسانی حقوق کا مشعل راہ، گوتیرش
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سالانہ اجلاس میں اعلیٰ سطحی عام مباحثہ شروع ہو گیا ہے جس میں عالمی رہنما مختلف امور و مسائل پر اپنی ترجیحات اور موقف پیش کریں گے۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 80 سال قبل عالمی رہنماؤں نے ابتری پر تعاون، لاقانونیت پر قانون اور جنگ پر امن کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
Tweet URLاقوام متحدہ محض ملاقاتوں کی جگہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی سمت نما، امن اور اسے برقرار رکھنے کی قوت، بین الاقومی قانون کا محافظ، پائیدار ترقی کا محرک، بحران زدہ لوگوں کے لیے سہارا اور انسانی حقوق کے لیے مشعل راہ ہے۔
(جاری ہے)
سیکرٹری جنرل نے دور حاضر کے مسائل پر بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ 'ہم کس قسم کی دنیا کا انتخاب کریں گے؟'
ان کا کہنا تھا کہ دنیا تیزی سے کثیر القطبی بنتی جا رہی ہے جو مثبت امر ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے مزید متنوع عالمی منظرنامے کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ اگر کثیر القطبی نظام کو مؤثر کثیر فریقی اداروں کا تعاون حاصل نہ ہو تو یہ انتشار کا باعث بنتا ہے۔
امن کا انتخابانہوں نے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کو جو فیصلے درپیش ہیں وہ کوئی نظریاتی بحث نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔
سیکرٹری جنرل نے رکن ممالک سے پانچ بڑے فیصلے کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قانون پر مبنی امن کا انتخاب پہلا فیصلہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سوڈان میں شہریوں کو قتل کیا جا رہا ہے، بھوکا رکھا جا رہا ہے اور ان کی آواز دبائی جا رہی ہے جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو ناقابل بیان تشدد کا سامنا ہے۔ اس تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔
سیکرٹری جنرل نے تنازع کے تمام فریقین اور جنرل اسمبلی کے ہال میں موجود شرکا پر زور دیا کہ وہ سوڈان میں بیرونی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں جس سے خونریزی کو ہوا مل رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امن کا راستہانہوں نے غزہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کی ہولناکیاں ایسے فیصلوں کا نتیجہ ہیں جن میں انسانیت کے بنیادی اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں ہلاکتوں اور تباہی کی سطح ان تمام تنازعات سے کہیں زیادہ ہے جن کا وہ بطور سیکرٹری جنرل مشاہدہ کر چکے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن پر عملدرآمد سے متعلق بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے عبوری اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے دہشت گرد حملے اور لوگوں کو یرغمال بنانے کی کارروائیاں کسی صورت قابل جواز نہیں اور نہ ہی فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دینے اور غزہ کی منظم تباہی کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور شہریوں کو انسانی امداد تک مکمل رسائی دینے کی اپیل کی۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کی کوششوں کو جاری رکھنا ناگزیر ہے کیونکہ امن کی جانب یہی واحد قابل عمل راستہ ہے۔
بعدازاں انہوں ںے رکن ممالک کو دیگر چار اہم فیصلوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں انسانی وقار اور انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف، ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لیے فائدہ مند بنانے اور اقوام متحدہ کو 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر کام کرنا ہو گا۔
سیکرٹری جنرل نے چارٹر برائے مستقبل پر بھی بات کی جو رکن ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کو زیادہ مضبوط، جامع اور موثر بنانے کے عزم کا عکاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یو این 80' اقدام کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما ہے۔ اس اقدام کے تحت انہوں نے درج ذیل تجاویز پیش کیں:
اخراجات میں کمی اور کام کی تاثیر بہتر بنانے کے لیے آئندہ سال اقوام متحدہ کے بجٹ میں ترمیم
ادارے میں ایسی عملی اصلاحات کا نفاذ جن کے ذریعے ذمہ داریوں کو مزید موثر طریقے سے لاگو کیا جا سکے۔
آخر میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ایسا ادارہ بنانے کے لیے کام کرنے کی اپیل کی جو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور جدید ہو اور دنیا بھر کے لوگوں کی بہتر طور سے خدمت کر سکے۔
عام مباحثے کا باضابطہ آغازسیکرٹری جنرل کے خطاب کے بعد جنرل اسمبلی کی صدر، اینالینا بیئربوک نے سالانہ عام مباحثے کا باضابطہ آغاز کیا جو 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔ مباحثے میں تمام سربراہان مملکت و حکومت کو بات کا موقع دینے کے لیے ہر تقریر کے لیے 15 منٹ کی حد مقرر کی گئی ہے تاہم، کئی تقاریر اس سے کہیں زیادہ طوالت اختیار کر جاتی ہیں۔
روایتی طور پر برازیل کو عام مباحثے میں سب سے پہلے تقریر کا موقع دیا جاتا ہے جس کے بعد امریکہ کی باری آتی ہے جو اقوام متحدہ کا میزبان ملک بھی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی اقوام متحدہ ہوئے کہا کہ کرتے ہوئے انہوں نے اور ان کیا جا کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا برطانیہ،آسٹریلیا اورکینیڈا کی جانب سے فلسطین کو بطورریاست تسلیم کرنے پرخیر مقدم
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی جانب سے فلسطین کو بطورِ آزاد ریاست تسلیم کیے جانے کے اعلان کا پرجوش خیرمقدم کیا ہے اور اسے عالمی انصاف و اصولوں کی فتح قرار دیا ہے۔ پارٹی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مظلوم فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد کو تسلیم کرنے اور ان کے جائز حقوق کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں ایک تاریخی قدم ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ عالمی برادری سے توقع ہے کہ وہ برطانوی، آسٹریلیائی اور کینیڈین اقدام کی پیروی کرتے ہوئے فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کریں تاکہ خطے میں انصاف اور پائیدار امن کو ممکن بنایا جا سکے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بین الاقوامی برادری کو اب تیزی سے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ فلسطینی عوام کے خلاف جاری مظالم اور خونریز کارروائیاں روکی جا سکیں۔
تحریکِ انصاف نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر ہونے والی بمباری، فضائی حملوں اور شہری اموات کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے ’کھلی نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے فوری روک تھام کا مطالبہ دہرایا۔ پارٹی نے بین الاقوامی اداروں، خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کریں، تاکہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور انسانی بحران کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
پی ٹی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی طاقتیں اخلاقی اور قانونی ذمہ داری نبھاتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے واضح اور ٹھوس سفارتی اقدامات اٹھائیں۔ پارٹی نے مزید زور دیا کہ محض بیانات یا مذمتی قراردادیں ناکافی ہیں؛ بین الاقوامی برادری کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں فوری ریلیف یقینی بنائے۔
سیاست دانوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ فلسطین کے معاملے پر بین الاقوامی یکجہتی بڑھانے سے نہ صرف انسانی بنیادوں پر مدد ملے گی بلکہ طویل مدتی طور پر خطے میں تنازعات کے سیاسی حل کے لیے راستے بھی کُھل سکیں گے۔ پی ٹی آئی نے پاکستان کی حکومت اور دیگر مسلم ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ اس عالمی اقدام کو تقویت دینے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں اور فلسطینی ریاست کے قانونی اور سفارتی اعتراف کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔
پارٹی کے بیان کے مطابق پی ٹی آئی اس نظریے کی تائید کرتی ہے کہ فلسطینیان کو اُن کی مستقل، خودمختار اور قابلِ عمل ریاست کا حق حاصل ہے جس کی سرحدیں بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوں گی۔ پی ٹی آئی نے ایک بار پھر کہا کہ عالمی ادارے اور طاقتیں فوری طور پر اس انسانی المیے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ امن، استحکام اور انصاف کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔
Post Views: 1