Jasarat News:
2025-11-28@15:12:06 GMT

گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پچھلے چند برس سے پاک افغان جنگ کے سروں پر منڈلاتے بادلوں نے اب برسنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی چھاجوں مینہ برسنے والا مرحلہ تو نہیں آیا مگر ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ کشیدگی کا یہ دور اس وقت شروع ہوا ہے کہ جب افغانستان کے لیے پاکستان کی روایتی دفاعی پالیسی اسٹرٹیجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کو عملی شکل مل چکی ہے اور پاکستان کی بوئی ہوئی اور خون جگر سے سینچی گئی فصل طالبان کی صورت میں برسرا قتدار آچکی ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ یہ افغانستان میں پاکستان کا آخری اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کی خاطر ماضی کے کئی اثاثوں برہان الدین ربانی، گل بدین حکمت یار اور نجانے کس کس کو قربان کیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان اثاثوں کو کابل کے اقتدار میں لانے کے لیے امریکا کی طرف سے ڈبل گیم کا الزام بھی سہنا پڑا اور مغربی میڈیا اور ملکوں میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کے الزام میں نیک نامی کی قربانی بھی دینا پڑی۔ یہ پاکستان کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اگر ان کی پیدائش افغانستان کی بھی ہے تو تب بھی زندگی کی تیس چالیس بہاریں پاکستانی فضاؤں میں گزار چکے ہیں۔ ان میں اکثر پاکستان کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے ان میں اکثر اْردو اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ اپنا مافی الضمیر آسانی سے بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک اب بھارت میں بھی انہیں زبان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اور افغان اہلکار بھارتی میڈیا اور عوام کا سامنا آسانی سے کرتے ہیں جیسا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت میں ہوا۔ وہ دارالعلوم دیوبند سمیت پریس کانفرنسوں میں روانی سے اْردو بولتے ہوئے نظر آئے۔

طالبان کا کابل میں داخل ہونا پاکستان کی اس تزویراتی گہرائی کی تکمیل تھی جس کا خواب پاکستانی جرنیلوں نے ستر اور اسی کی دہائیوں میں دیکھا تھا۔ جس کا خواب جنرل ضیاء الحق اپنی تقریروں میں دکھاتے رہے۔ جنرل اسلم بیگ اپنی تحریروں میں اس نئے جہان کی منظر کشی کرتے رہے اور جنرل حمید گل اپنے انٹرویوز میں مستقبل کے کینوس پر جس کے رنگ بکھیرتے رہے۔ جس کا خلاصہ یوں تھا کہ جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوگی پہلے سوویت یونین اور بعدازاں امریکا خطے سے بھاگ جائے تو پاکستان اپنی مغربی سرحد کے دفاع سے غافل ہوجائے گا۔ یوں اس کو اپنی پوری فوجی توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز کرنا ہوگی۔ مغربی سرحد پر ایک پاکستان دوست حکومت ضرورت پڑنے پر مغربی سرحد پر بھارت کو سبق سکھانے میں بھی پاکستان کی معاونت کرے گی اگر عملی معاونت نہ بھی کرے تب بھی پاکستان کے لیے ڈیورنڈ لائن کو ٹھنڈا رکھ کر پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ مشرقی سرحد پر لڑنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اسی تصور کو جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ’’پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع‘‘ کا ذیلی عنوان دیا گیا تھا۔ اس تصور نے سقوط ڈھاکا کے نفسیاتی اثرات سے جنم لیا تھا۔ یہ وہ سبق ہے جو افغانستان کے بارے میں مدتوں تک پڑھایا جاتا رہا اور پاکستان کا عام آدمی اس تصور تی منظر کشی کے سحر میں گم رہا۔ کابل پر دوسری بار طالبان کا کنٹرول ہوگیا۔ سوویت یونین کے بعد امریکا بھی رخصت ہوگیا تو اب اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے تصور کی تکمیل کے بعد اس کے عملی مظاہرے ہونے کا وقت تھا۔ ہوا یوں کہ اس مرحلے پر پاکستان اور افغانستان کے راہیں جدا ہوگئیں۔ افغانیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ جس امریکا کو انہوں نے سولہ سال لڑ کر نکال باہر کیا ہے دوبارہ اسی کی شرائط پر کسی دوسرے انداز میں واپس قبول کریں۔

امریکا نے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان کی جانب دانہ ٔ دام اْچھالنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ امریکا کو خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم لاکھ چین اور امریکا کے درمیان پل بننے اور کام بانٹنے کی بات کریں گوادر کے پہلو میں پسنی کی بندرگاہ کا خاکہ بنا کر دونوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، امریکا چین کو اپنا کھلا دشمن قرار دے بیٹھا ہے۔ ہماری اتنی سکت نہیں کہ امریکا کا تصورِ دشمن تبدیل کراسکیں یا چین کو امریکا کی بالادستی ماننے پر آمادہ کر سکیں۔ یہ تو بڑی طاقتوں کے بڑے کھیل ہیں جن میں پاکستان جیسے ممالک جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ وہ متحارب طاقتوں کے کراس فائر میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ امریکا پہلی بار افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور القاعدہ کے نام پر آیا تھا حقیقت میں یہ بھی چین کو محدود کرنے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے اور معدنی وسائل کا چکر تھا۔ اس بار صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت میں سی آئی اے کے عزائم کو کھل کر بیان کر رہے ہیں انہوں نے چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائربیس حاصل کرنے کی بات کر کے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس لیے امریکا کے نئے اور اگلے ایجنڈے کا بوجھ اْٹھانا پاکستان کے بس میں نہیں۔ یہ ایک خطرناک اور پل ِ صراط کا سفر ہے۔ امریکا بگرام ائربیس ایران کے تاجکستان ترکمانستان یا واخان کے ذریعے تو حاصل نہیں کر سکتا۔ لے دے کر اس خواہش کا بوجھ پاکستان کے ناتواں کندھوں پر ہی لادا جانا ہے۔

چین اور امریکا کے افغانستان میں مفادات قطعی مختلف ہیں۔ چین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امن درکار ہے جبکہ امریکا کو واپس آنے کے لیے جنگ کا ماحول سازگار ہے۔ ماسکو فورم کا حالیہ اجلاس کا ثبوت ہے جس میں روس، پاکستان، بھارت، چین اور طالبان نے بگرام ائر بیس پر امریکی افواج کی واپسی کی مخالفت کی۔ ایران بھی اس کا ہم آواز ہے۔ امریکا کا بگرام میں واپسی پر اصرار علاقائی قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں تو ہضم نہیں ہوگا جبکہ اس بار امریکا واضح طور پر چین کے ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے کے عزم وارادے کے ساتھ لوٹ آنے کا خواہش مند ہے۔ عالمی طاقتوں کے خطے میں یہی متضاد مقاصد افغانستان کے ہمسائے کے طور پر پاکستان کی مشکل بن چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان محض ہمسایہ نہیں اس کے سماجی تانے بانے سوشل فیبرک کا حصہ ہے جو ایک اور مشکل ہے۔ پاکستان مصر کی طرح یکسانیت اور یک رنگی کا حامل نہیں۔ اسی لیے مصر کے فارمولے میں اس میں نہیں چل سکتے۔ اس لیے یہاں آمریت کی جڑیں مضبوط ہوتے ہی بحالی ٔ جمہوریت کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے۔ طالبان اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ کہتے ہیں۔ اپنی حد تک اپنے نظام کا نام ان کو مبارک ہو مگر وہ اپنا نظام برآمد نہیں کر سکتے۔ پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے جو کئی متنوع علاقائی اکائیوں کا مرکب اور مجموعہ ہے۔ پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ آبادیوں پر مشتمل خود افغانستان کی آبادیاتی ہیئت ترکیبی یہی ہے جب طالبان اس پر یک رنگی نافذ کرتے ہیں تو جلد یا بدیر ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پہلے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو پاکستان کے قومی مفاد میں قرار دیا جاتا تھا اب یہ تصور یوں بدل گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو پاکستان کے سماجی تانے بانے کی آبادیاتی اور ثقافتی کا توازن خراب ہونے کے خوف کے طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے۔ خواجہ آصف سمیت پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی حکومتی راہنماؤں کی باتوں میں یہی خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔

 

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: افغانستان کے پاکستان کے پاکستان کی کے ساتھ ہیں کہ چین کو کے لیے

پڑھیں:

افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے  افغانستان میں کارروائی کے حوالے سے لب کشائی کردی۔

افغانستان کی صورتحال، طالبان کی طرزِ حکمرانی، خطے کے امن اور پاکستان کی پالیسی سے متعلق نہایت واضح اور بے باک مؤقف اختیار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی کرنا پڑی تو وہ خفیہ یا مبہم انداز میں نہیں ہوگی بلکہ صاف، دوٹوک اور شفاف طریقے سے کی جائے گی۔

اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی فورسز کسی بھی آپریشن میں شہری آبادی کو نشانہ نہیں بناتیں اور اگر کبھی قدم اٹھایا بھی گیا تو اس کی سمت صرف دہشت گرد ہوں گے نہ کہ معصوم شہری۔

نجی ٹی وی میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے اہم شراکت دار اور دوست ممالک خطے میں بے امنی اور مسلسل کشیدگی سے پریشان ہیں، کیونکہ اس کا براہِ راست اثر اُن کے سیاسی اور معاشی مفادات پر بھی پڑتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ممالک بہت جلد معاملات میں مداخلت کریں گے کیونکہ وہ خطے میں امن کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں موجودہ عدم استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا بطور حکومت کردار غیر ذمہ دارانہ ہے۔ طالبان نہ تو کسی بین الاقوامی اصول کے پابند ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی واضح ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ وزیرِ دفاع نے کہا ک ہ طالبان کے وعدے اور دعوے محض دکھاوا ہیں اور ان پر اعتماد کرنا سراسر غلط فہمی ہوگی۔ طالبان ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے مفاد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، اس لیے ان سے خیر کی توقع رکھنا بے وقوفی کے مترادف ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا کا کون سا مذہب، تہذیب یا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی گروہ کسی کے ملک میں پناہ لے کر وہیں آگ اور خون پھیلائے؟

خواجہ آصف نے بھارت اور افغانستان کے ممکنہ تعلقات پر بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہر ملک آزاد ہے کہ وہ اپنی پسند کے ساتھ تعلقات رکھے یا تجارت کے لیے کوئی متبادل راستہ اختیار کرے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے، کیونکہ امن ہوگا تو پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا اور معاشی مواقع کھلیں گے۔ دہشت گردی کا خاتمہ خطے کے لیے ناگزیر ہے اور وہ دن دور نہیں جب افغانستان دہشتگردوں کی پناہ گاہ بننے کے بجائے ایک عام روٹی کمانے والی ریاست بننے کی کوشش پر مجبور ہوجائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں فائرنگ، تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے، دفتر خارجہ
  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
  • عسکری قیادت کا دوٹوک موقف
  • افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
  • خلا میں پھنسے چینی خلا بازوں کی واپسی کے لیے ہنگامی مشن کی کامیاب پیش رفت
  • فیض  حمید  کا کورٹ  مارشل  قانونی  معاملہ  ‘ قیاس  آرائی  نہ کی جائے : افغانستان  بلڈاور  بزنس  ساتھ  نہیں  چل  سکتے : ڈی جی آئی ایس  پی آر 
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • خلا میں پھنسے 3 چینی خلا بازوں کی واپسی کیلیے امید نظر آنے لگی