گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پچھلے چند برس سے پاک افغان جنگ کے سروں پر منڈلاتے بادلوں نے اب برسنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی چھاجوں مینہ برسنے والا مرحلہ تو نہیں آیا مگر ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ کشیدگی کا یہ دور اس وقت شروع ہوا ہے کہ جب افغانستان کے لیے پاکستان کی روایتی دفاعی پالیسی اسٹرٹیجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کو عملی شکل مل چکی ہے اور پاکستان کی بوئی ہوئی اور خون جگر سے سینچی گئی فصل طالبان کی صورت میں برسرا قتدار آچکی ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ یہ افغانستان میں پاکستان کا آخری اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کی خاطر ماضی کے کئی اثاثوں برہان الدین ربانی، گل بدین حکمت یار اور نجانے کس کس کو قربان کیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان اثاثوں کو کابل کے اقتدار میں لانے کے لیے امریکا کی طرف سے ڈبل گیم کا الزام بھی سہنا پڑا اور مغربی میڈیا اور ملکوں میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کے الزام میں نیک نامی کی قربانی بھی دینا پڑی۔ یہ پاکستان کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اگر ان کی پیدائش افغانستان کی بھی ہے تو تب بھی زندگی کی تیس چالیس بہاریں پاکستانی فضاؤں میں گزار چکے ہیں۔ ان میں اکثر پاکستان کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے ان میں اکثر اْردو اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ اپنا مافی الضمیر آسانی سے بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک اب بھارت میں بھی انہیں زبان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اور افغان اہلکار بھارتی میڈیا اور عوام کا سامنا آسانی سے کرتے ہیں جیسا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت میں ہوا۔ وہ دارالعلوم دیوبند سمیت پریس کانفرنسوں میں روانی سے اْردو بولتے ہوئے نظر آئے۔
طالبان کا کابل میں داخل ہونا پاکستان کی اس تزویراتی گہرائی کی تکمیل تھی جس کا خواب پاکستانی جرنیلوں نے ستر اور اسی کی دہائیوں میں دیکھا تھا۔ جس کا خواب جنرل ضیاء الحق اپنی تقریروں میں دکھاتے رہے۔ جنرل اسلم بیگ اپنی تحریروں میں اس نئے جہان کی منظر کشی کرتے رہے اور جنرل حمید گل اپنے انٹرویوز میں مستقبل کے کینوس پر جس کے رنگ بکھیرتے رہے۔ جس کا خلاصہ یوں تھا کہ جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوگی پہلے سوویت یونین اور بعدازاں امریکا خطے سے بھاگ جائے تو پاکستان اپنی مغربی سرحد کے دفاع سے غافل ہوجائے گا۔ یوں اس کو اپنی پوری فوجی توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز کرنا ہوگی۔ مغربی سرحد پر ایک پاکستان دوست حکومت ضرورت پڑنے پر مغربی سرحد پر بھارت کو سبق سکھانے میں بھی پاکستان کی معاونت کرے گی اگر عملی معاونت نہ بھی کرے تب بھی پاکستان کے لیے ڈیورنڈ لائن کو ٹھنڈا رکھ کر پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ مشرقی سرحد پر لڑنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اسی تصور کو جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ’’پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع‘‘ کا ذیلی عنوان دیا گیا تھا۔ اس تصور نے سقوط ڈھاکا کے نفسیاتی اثرات سے جنم لیا تھا۔ یہ وہ سبق ہے جو افغانستان کے بارے میں مدتوں تک پڑھایا جاتا رہا اور پاکستان کا عام آدمی اس تصور تی منظر کشی کے سحر میں گم رہا۔ کابل پر دوسری بار طالبان کا کنٹرول ہوگیا۔ سوویت یونین کے بعد امریکا بھی رخصت ہوگیا تو اب اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے تصور کی تکمیل کے بعد اس کے عملی مظاہرے ہونے کا وقت تھا۔ ہوا یوں کہ اس مرحلے پر پاکستان اور افغانستان کے راہیں جدا ہوگئیں۔ افغانیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ جس امریکا کو انہوں نے سولہ سال لڑ کر نکال باہر کیا ہے دوبارہ اسی کی شرائط پر کسی دوسرے انداز میں واپس قبول کریں۔
امریکا نے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان کی جانب دانہ ٔ دام اْچھالنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ امریکا کو خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم لاکھ چین اور امریکا کے درمیان پل بننے اور کام بانٹنے کی بات کریں گوادر کے پہلو میں پسنی کی بندرگاہ کا خاکہ بنا کر دونوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، امریکا چین کو اپنا کھلا دشمن قرار دے بیٹھا ہے۔ ہماری اتنی سکت نہیں کہ امریکا کا تصورِ دشمن تبدیل کراسکیں یا چین کو امریکا کی بالادستی ماننے پر آمادہ کر سکیں۔ یہ تو بڑی طاقتوں کے بڑے کھیل ہیں جن میں پاکستان جیسے ممالک جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ وہ متحارب طاقتوں کے کراس فائر میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ امریکا پہلی بار افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور القاعدہ کے نام پر آیا تھا حقیقت میں یہ بھی چین کو محدود کرنے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے اور معدنی وسائل کا چکر تھا۔ اس بار صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت میں سی آئی اے کے عزائم کو کھل کر بیان کر رہے ہیں انہوں نے چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائربیس حاصل کرنے کی بات کر کے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس لیے امریکا کے نئے اور اگلے ایجنڈے کا بوجھ اْٹھانا پاکستان کے بس میں نہیں۔ یہ ایک خطرناک اور پل ِ صراط کا سفر ہے۔ امریکا بگرام ائربیس ایران کے تاجکستان ترکمانستان یا واخان کے ذریعے تو حاصل نہیں کر سکتا۔ لے دے کر اس خواہش کا بوجھ پاکستان کے ناتواں کندھوں پر ہی لادا جانا ہے۔
چین اور امریکا کے افغانستان میں مفادات قطعی مختلف ہیں۔ چین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امن درکار ہے جبکہ امریکا کو واپس آنے کے لیے جنگ کا ماحول سازگار ہے۔ ماسکو فورم کا حالیہ اجلاس کا ثبوت ہے جس میں روس، پاکستان، بھارت، چین اور طالبان نے بگرام ائر بیس پر امریکی افواج کی واپسی کی مخالفت کی۔ ایران بھی اس کا ہم آواز ہے۔ امریکا کا بگرام میں واپسی پر اصرار علاقائی قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں تو ہضم نہیں ہوگا جبکہ اس بار امریکا واضح طور پر چین کے ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے کے عزم وارادے کے ساتھ لوٹ آنے کا خواہش مند ہے۔ عالمی طاقتوں کے خطے میں یہی متضاد مقاصد افغانستان کے ہمسائے کے طور پر پاکستان کی مشکل بن چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان محض ہمسایہ نہیں اس کے سماجی تانے بانے سوشل فیبرک کا حصہ ہے جو ایک اور مشکل ہے۔ پاکستان مصر کی طرح یکسانیت اور یک رنگی کا حامل نہیں۔ اسی لیے مصر کے فارمولے میں اس میں نہیں چل سکتے۔ اس لیے یہاں آمریت کی جڑیں مضبوط ہوتے ہی بحالی ٔ جمہوریت کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے۔ طالبان اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ کہتے ہیں۔ اپنی حد تک اپنے نظام کا نام ان کو مبارک ہو مگر وہ اپنا نظام برآمد نہیں کر سکتے۔ پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے جو کئی متنوع علاقائی اکائیوں کا مرکب اور مجموعہ ہے۔ پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ آبادیوں پر مشتمل خود افغانستان کی آبادیاتی ہیئت ترکیبی یہی ہے جب طالبان اس پر یک رنگی نافذ کرتے ہیں تو جلد یا بدیر ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پہلے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو پاکستان کے قومی مفاد میں قرار دیا جاتا تھا اب یہ تصور یوں بدل گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو پاکستان کے سماجی تانے بانے کی آبادیاتی اور ثقافتی کا توازن خراب ہونے کے خوف کے طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے۔ خواجہ آصف سمیت پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی حکومتی راہنماؤں کی باتوں میں یہی خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افغانستان کے پاکستان کے پاکستان کی کے ساتھ ہیں کہ چین کو کے لیے
پڑھیں:
ہندوستان ایک زخمی لومڑی کی طرح پلٹا کھا رہا ہے؛ احسن اقبال
سٹی 42: وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا افغانستان کے وزیر خارجہ کا دورہ بھارت؛ سرحدپر حملہ ؛مذہبی جماعت کالانگ مارچ: کڑیاں ملائیں تو بچہ بھی سمجھ سکتاہے کس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔
شکرگڑھ میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے نورکوٹ میں کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک زخمی لومڑی کی طرح پلٹا کھا رہا ہے ۔بھارت جو چالیں چلتا رہا پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے معرکہ حق نے اس کا میک اپ دنیا کے سامنے اتار دیا .خطہ میں پاکستان کے ساتھ اگر برابری کا سلوک نہیں کرے گا یا برابری کا تعلق نہیں رکھے گا تو ہم اس کی تھانے داری کو قبول نہیں کرتے ۔اس نے اسی زعم کے اندر پاکستان پر جب حملہ کیا تو ہماری مسلح افواج نے اس کا منہ توڑ جواب دے کر اس کو ثابت کر دیا کہ پاکستانی قوم پر کوئی میلی نگاہ نہیں ڈال سکتا ۔
قبائلی عوام نےافغانستان کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کیخلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان کردیا
بھارت کوجب شکست ہوئی تو اس نے پاکستان کے اندر سے بد امنی پیدا کرنے کے لیے اپنے سہولت کاروں کو سرگرم کر دیا اورتحریک طالبان پاکستان جو کہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہے جن کو عمران خان کی حکومت نے لا کر پاکستان میں دوبارہ بسایا تھا آج ان کے خلاف بھی ہماری مسلح افواج دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کر کے قلعے کما کر رہے ہیں۔آپ کو یہ بھی یاد ہے کہ 2013 کے بعد جو آپریشن ضرب عضب ہوا تھا اس کے نتیجے میں ہم نے ان دہشت گردوں کو پاکستان سے مکمل طور پہ خاتمہ کر کے بھگا دیا تھا اور ملک میں امن قائم ہو گیا تھا لیکن عمران خان کے دور حکومت میں ان لوگوں کو دوبارہ افغانستان سے لا کر پاکستان میں بسایا گیا اور انہوں نے پھر دہشت گردی کا عمل شروع کیا
پاک افغان سرحد پر افغانستان کی بلا اشتعال فائرنگ، سعودی عرب کا اظہارِ تشویش
احسن اقبال نے کہا جیسے ہم نے پہلے انہیں شکست دی تھی ہم پھر ان کو انشاءاللہ تعالی شکست دیں گے اورآپ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا بھارت کا جو دورہ ہے اور اس دورے کے نتیجے میں افغانستان کی سرحد سے پاکستان پہ حملہ کرنا اور ایک مذہبی جماعت کا اسی کے ساتھ اسی ٹائمنگ کے ساتھ اپنا لانگ مارچ شروع کر دینا یہ تانے بانے اور یہ ساری کڑیاں ملائی جائیں تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کون کروا رہا ہے یہ کس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ میں سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ دو سال سے غزا کے اندر بمباری ہو رہی تھی تو آپ کے پیٹ میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی تب گھروں میں بیٹھے رہے اب جب غزا کے اندر امن ہو گیا ہے جس میں پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔آج غزا کے اندر لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں لوگ اپنے گھروں میں جا رہے ہیں لوگ خوشیوں کے ساتھ اپنی دوبارہ گھروں کی تعمیر کر رہے ہیں اور حماس بھی اس امن کے معاہدے کو قبول کر چکی ہے جو کہ وہاں نمائندہ تھی جو کہ وہاں پر جنگ لڑ رہی تھی امن کی تو اپ غزہ کا نام لے کر پاکستان میں بدامنی کر رہے ہیں
فورسز چوکس ہیں،افغانستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دےرہےہیں،محسن نقوی
احسن اقبال نے کہا آپ ماؤں کے بیٹوں کو مروا رہے ہیں چاہے وہ پولیس کے اندر ہوں چاہے و ہ آپ کے کارکن ہوں یہ تشدد کی سیاست اور یہ بدامنی اس موقع پر کہ جب ہندوستان پاکستان میں بدامنی پیدا کرانے کے لیے دہشت گردی کر رہا ہے تو کیا یہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں اتا،ان لوگوں کے چہروں کو پہچانیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 2018 میں جنرل فیض کے کہنے پر فیض آباد میں دھرنا دیا ان کا ماسٹر تھا یہ جماعت پیداوارجنرل فیض کی اور ان کو 2018 میں بنایا گیا تھا مسلم لیگ ن کا بریلوی مکتبہ ووٹ کا ووٹ کاٹنے کے لیے تاکہ مسلم لیگ ن کو 2018 کے الیکشن میں ہرایا جا سکے۔
فیض اباد میں انہوں نے جو دھرنا دیا اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ اس دھرنے کے بعد پاکستان گرے لسٹ کے اندر شامل ہو گیا ہمیشہ انہوں نے وہ کام کیا ہے کہ جس نے پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچایا کوئی تحریک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس اور ان کے حرمت کی ٹھیکداری نہیں ہے۔ ہر مسلمان جس نے کلمہ پڑھا ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت آپ کی ناموس اور اپ کی حرمت کا وہ محافظ ہے اور وہ اس کا چوکیدار ہے کسی ٹھیکیدار کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں ۔
درجنوں آزاد ارکان اسمبلی کو پشاور کےوزیراعلیٰ ہاؤس میں قید کر دیاگیا