حماس نے مزید 4 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مزید 4 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیلی حکام کے حوالے کر دی ہیں۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کی نگرانی میں رات گئے اسرائیل کے حوالے کی گئیں۔ اس طرح غزہ امن معاہدے کے تحت جاری قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے کے عمل میں ایک اور مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔
اس سے قبل بھی حماس نے معاہدے کے تحت 4 یرغمالیوں کی لاشیں اور 20 قیدیوں کو اسرائیلی حکام کے حوالے کیا تھا۔ معاہدے کا مقصد انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی اور انسانی جانوں کے ضیاع میں کمی لانا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ا نہوں نے تصدیق کی کہ حماس کی قید سے تمام 20 یرغمالی بخیریت واپس پہنچ چکے ہیں، تاہم یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا اور مزید اقدامات باقی ہیں۔
اُدھر غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے فلسطینی شہریوں کی لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی طبی ذرائع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 44 شہدا کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی لاشیں کے حوالے
پڑھیں:
غزہ امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل، قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی، آگے کیا ہو گا؟
غزہ میں امن ڈیل کا پہلا مرحلہ مکمل
اسرائیل اور حماس دونوں ہی تقریب میں شریک نہ ہوئے
غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد بالآخر امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ اسرائیل نے تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا ہے، جن میں 250 عمر قید کے سزا یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔
اس تبادلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں طے پانے والےامن منصوبے کا پہلا عملی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔صدر ٹرمپ نے اس موقع کو ’’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک شاندار دن‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔
(جاری ہے)
اس تاریخی تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد ممالک کے رہنما شریک ہوئے، جنہوں نے غزہ میں ’’جامع اور پائیدار امن‘‘ کے قیام کے عزم کا اظہار کیا۔
تاہم امن کی راہ میں کئی رکاوٹیں ابھی باقی ہیں۔ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اسرائیل نے غزہ سے مکمل انخلا کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایک ریاست یا دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جس سے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ ’’ریاستی حل‘‘ پر بات نہیں کر رہے بلکہ ’’غزہ کی تعمیر نو‘‘ پر توجہ مرکوز ہے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس معاہدے کو انسانی تاریخ کے ایک تکلیف دہ باب کا اختتام قرار دیا اور کہا کہ یہ دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ترجمان نے مطالبہ کیا ہے کہ ثالث اسرائیل کے رویے کی نگرانی جاری رکھیں تاکہ وہ دوبارہ ’’جارحیت‘‘ کا مظاہرہ نہ کرے۔
امن معاہدے کا پہلا مرحلہ نافذ ہو چکا ہے، لیکن اگلے مراحل پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ لڑائی چھڑنے کا خدشہ موجود ہے۔
صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دنیا کی نظریں اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا یہ امن برقرار رہتا ہے یا ایک اور بحران جنم لیتا ہے۔اسرائیل اور حماس دونوں ہی تقریب میں شریک نہ ہوئے
اس تاریخی تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد ممالک کے رہنما شریک ہوئے لیکن نہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو شریک ہوئے اور نہ ہی حماس کے نمائندے ۔
دونوں فریقوں نے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے بالواسطہ کردار ادا کیا لیکن رسمی تقریب سے دور رہے۔حماس کے ترجمان حسام بدران نے واضح کیا کہ تنظیم کے لیے امن منصوبے میں ’’غزہ چھوڑنے‘‘ کی تجویز ناقابل قبول ہے اور اسی لیے وہ اس معاہدے کی تقریب میں شریک نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر معاہدہ ناکام ہوا تو حماس دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہے۔
ساتھ ہی حماس نے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے بھی تقریب میں شرکت نہیں کی گئی حالانکہ اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے معاہدے کی منظوری تو دے دی لیکن اسرائیل کی طرف سے سیاسی سطح پر شرم الشیخ میں تقریب سے دوری اختیار کی گئی۔
اس صورتحال نے قیام امن کی کوششوں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اگرچہ قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ مکمل ہو چکا ہے اور عالمی برادری نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے لیکن دونوں مرکزی فریقوں کی غیر موجودگی سے معاہدے کی پائیداری سے متعلق خدشات جنم لے رہے ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ ’’برقرار رہے گا‘‘ اور خطے میں امن و استحکام کی بنیاد بنے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل اور حماس براہ راست اور مکمل طور پر اس عمل میں شامل نہیں ہوتے،امن کی راہ ہموار ہونا مشکل رہے گا۔